بورے والا حادثہ: وزیر ریلوے کی بھی کوئی ذمہ داری ہے یا نہیں؟
بورے والا کے قریب موٹر سائیکل سوار میاں بیوی فرید ایکسپریس ٹرین کی زد میں آ کر جاںبحق ہو گئے، دونوں کے جسموں کے اعضا دور دور تک بکھر گئے، حادثہ کے بعد ٹرین کے نہ رُکنے پر عوام مشتعل ہو گئے۔ مظاہرین ، لاہور سے کراچی جانے والی ایک دوسری ٹرین روک کراس کے انجن پر چڑھ گئے اور عملہ کوزد و کوب کرنے کی کوشش کی، تاہم انجن کے ڈرائیور نے دروازہ بند کر کے جان بچائی۔
یہ اپنی نوعیت کا پہلا حادثہ نہیں، برسوں سے ایسا ہوتا آ رہا ہے، کئی بار اس مسئلے کو اعلیٰ سطح پر اُٹھایا گیا۔ جس کا حل ہمیشہ یہی بتایا گیا کہ ہر ریلوے کراسنگ پر پھاٹک نصب کر کے گارڈ تعینات کیا جائے جو ریل گاڑیوں کے گزرنے کے اوقات پھاٹک کھولنے اور بند کرنے کا ذمہ دار ہو۔ پاکستان ریلوے کا نیٹ ورک ہزاروں کلومیٹر پرمشتمل ہے۔ بڑی بڑی سڑکوں کی گزر گاہوں پر تو ریلوے پھاٹک بنائے گئے ہیں لیکن کم ٹریفک والے راستوں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ بہت پہلے ایک رپورٹ میں ایسے کراسنگز کی تعداد کئی ہزار بتائی گئی تھی لیکن ریلوے کے خسارے میں ہونے اور کثیر اخراجات کے پیش نظر وہاں پھاٹک لگانے اور چوکیدار یا گارڈ متعین کرنے کا منصوبہ سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔ شیخ رشید پہلی بار نہیں بلکہ ماضی میں بھی وزیر ریلوے رہ چکے ہیں۔ اس لحاظ سے اُن کے لئے یہ محکمہ نیا نہیں، وہ اس کی خامیوں ا ور خرابیوں سے یقیناً آگاہ ہوں گے۔ ریلوے سسٹم کے ایسے مقامات اُن کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوں گے جہاں ایسے المیے اور حادثے جنم لیتے رہتے ہیں لیکن نہایت ا فسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ جتنا وقت ٹی وی کے ٹاک شوز ، پریس کانفرنسوں اور بلیم گیمز پر صرف کرتے ہیں اگر اپنے محکمے کے اصلاح کی جانب توجہ دیں تو اُنہیں خود کو نمایاں کرنے کے لئے ذرائع ا بلاغ کا محتاج نہ ہونا پڑے۔ مہذب معاشروں میں ا یسے ٹرین حادثہ پر وزیر مستعفی ہو جاتے ہیں۔ جب سے شیخ رشید نے وزارت سنبھالی ہے متعدد حادثے ہو چکے ہیں جو ان کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اُن کا دعویٰ کہ اُنہوں نے ریلوے کو ا پنے پیروں پر کھڑا کر دیا ہے جو سوائے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے اور کچھ نظر نہیںآتا۔