بدھ ‘ 9؍ جمادی الاوّل 1440 ھ ‘ 16 ؍ جنوری 2019ء
زرداری کا نوجوان پارلیمنٹیرینز کو ٹریننگ دینے کا اعلان
ان کے اس اعلان پر حکومتی ہی کیا خود اپوزیشن بینچوں پر موجود ارکان قومی اسمبلی کے بھی قہقہے نکل گئے ہوں گے۔ بے شک زرداری صاحب سینئر معزز بزرگ پارلیمنٹرین ہیں مگر ابھی وہ اپنی تمام مفاہمانہ پالیسیوں کے باوجود اس درجہ کمال پر نہیں پہنچے کہ وہ پی ٹی آئی کے مراد سعید جیسے نوجوان پارلیمنٹرین کی کوچنگ کر سکیں۔ اسوقت زیادہ تر نوجوان ارکان اسمبلی پی ٹی آئی کے ہی پارلیمنٹ میں آئے ہیں جو بذات خود اپنی ذات میں انجمن ہیں۔ یہ سب وہ ہیں جو زرداری صاحب کی سیاسی اکیڈمی کے بارے میں بخوبی واقف ہیں۔ خود ان کے لیڈر بھی انہیں کسی قیمت پر وہاں ٹریننگ لینے کی اجازت نہیں دیں گے۔ کیونکہ وہاں صرف مالیات کے پرچے کی تیاری کرائی جاتی ہے۔ اس لئے وہاں کسی نوجوان پارلیمنٹیرین کو بھیجنے کا مطلب اسے ماہر بنانا ہے۔ کس چیز کا یہ قارئین خود ہی سوچ لیں۔ زرداری صاحب کو بھی اس وقت صرف اپنے نوجوان پارلیمنٹرین پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بلاول زرداری اس وقت ان کے ہونہار شاگرد ہیں۔ جو نپے تلے انداز میں زرداری اکیڈمی کے سلیبس پر عمل کررہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اکیڈمی سے باہر عوام کو یہی کہتے ہیں کہ وہ بے نظیر بھٹو کے نصاب پر عمل پیرا ہیں۔ ویسے آصف علی زرداری اگر نوآموز سیاستدانوں کی تربیت کا بیڑا اٹھا لیں اور اسلام آباد میں کوئی اکیڈمی کھول لیں تو دنیا دیکھے گی کہ سیاست کی شوقین مالدار آسامیاں دھڑا دھڑ اس میں داخلہ لیں گی۔ اس طرح زرداری صاحب کی خواہش بھی پوری ہو جائے گی اور آمدنی بھی خوب ہوگی۔
٭٭٭٭٭
پاکستان شرح خواندگی میں بنگلہ دیش سے بھی پیچھے رہ گیا
جنوبی ایشیاء کے 9 ممالک میں سروے کے بعد شرح خواندگی کی جو فہرست جاری ہوئی ہے اس میں ہم 8 ویں نمبر پر ہیں۔ اگر کوئی ہم سے بھی ناخواندہ ملک ہے تو وہ افغانستان ہے جس کا نواں نمبر ہے۔ اس پر ہم صرف اور صرف ’’یہ ربتہ بلند ملا جس کو مل گیا‘‘ ہی کہہ سکتے ہیں۔ یہ شرم کی بات ہے یا ہمارے لئے اعزاز کی۔ اس کا تعین ہمیں خود ہی کرنا ہوگا۔ دنیا بھر سے تو ہمیں صرف اور صرف لعن طعن ہی سننے کو ملے گا۔ ہماری ہر حکومت تعلیم کی شرح کو بلند کرنے کے بلند بانگ دعوے کرتی ہے۔ ہمیشہ کی طرح یہ دعوے ٹھس ثابت ہوتے ہیں۔ جتنی کوششیں شرح تعلیم کو بلند کرنے کی ہمارے ہاں کی گئی اگر کسی اور ملک میں ہوتی تو وہاں دکانوں پر تعلیم بک رہی ہوتی۔ افسوس ہمارے ہاں یہ گوہر نایاب حکمرانوں کی جانب سے تعلیمی اداروں یعنی سکولوں کالجوں اور یونیورسٹوں کے بنانے تک ہی محدود ہے اور شرح تعلیم بلند نہ ہو سکی۔ آج ہم افغانستان کے برابر کھڑے ہیں۔ چلو اچھی بات ہے ویسے بھی تعلیم حاصل کرنے سے انسانی دماغ خراب ہو جاتا ہے۔ اس میں پرکھنے سمجھنے اور سیکھنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ یوں معاشرے میں انارکی پھیلنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں تعلیمی اداروں کو بم سے اڑانے کی زریں روایات پوری آب و تاب کے ساتھ قائم ہیں۔ رہی بات حکومت کی طرف سے سالانہ اربوں روپے تعلیم پر خرچ کرنے کی تو یہ باتیں صرف کاغذوں کا پیٹ بھرنے کی حد تک ہی درست معلوم ہوتی ہیں۔ کبھی کسی حکومت نے اس لئے یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ ہماری شرح تعلیم جو گری ہوئی ہے اٹھ کیوں نہیں رہی۔ دو کروڑ بچے اس وقت سکول سے باہر ہیں۔ اتنے ہی سکول سے تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔ اب لوگ خود ہی اس سے شرح خواندگی کا اندازہ کر لیں۔ جہاں دستخط کرنے والا خواندہ تصور ہوتا ہے وہاں کسی سے کیا شکوہ کیا جائے۔
٭٭٭٭٭٭
بچے کی پیدائش پر باپ کو بھی 10 روز چھٹی ملے گی
یہ روایت شکن اعلان سن کر تو باپ بننے والے ہزاروں یا جس رفتار سے ہماری آبادی بڑھ رہی ہے لاکھوں نوجوان خوشی سے جھوم اٹھے ہوں گے کہ انہیں بھی دس روز بیڈ ریسٹ ملے گا۔ شیریں مزاری کی طرف سے یہ خوشخبری سن کر تو کئی نوجوان
جھومیں کبھی گائیں کبھی لہرائیں خوشی سے
جی چاہتا ہے آج ہی ’’ابو‘‘ بن جائیں خوشی سے
کی تال پر رقص کر کے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہوں گے۔ ویسے جو چلن چل رہا ہے اس میں واقعی خدمت گزار شوہر کے لئے دس روز کی رخصت ضروری تھی کیونکہ پوتڑے دھونے سے لے کر بیگم کے کھانے پینے تک سارا دھیان بھی انہی کے سر ہوتا ہے اس لئے وہ اب ریلیف محسوس کریںگے اور بچے کی اماں کو بھی تسلی ہو گی کہ سرتاج کو زیادہ کام نہیں کرنا پڑ رہا۔ تھک گئے تو آرام بھی کر سکیں گے۔ یہ بڑا اچھا فیصلہ ہے اس سے زیادہ اچھی خبرتو یہ ہے کہ اس فیصلے سے سرکاری ہی نہیں نجی اداروں کے ملازمین بھی فائدہ اٹھائیں گے۔ اب ڈر ہے کہ پہلے ہی ہماری آبادی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اوپر سے ایسے فیصلے کے بعد کہیں چھٹیوں کی خاطر بچوں کی لائن نہ لگ جائے۔ شاید اس لئے یہ رعایت صرف دو بچوں کے لئے رکھی گئی ہے۔ حکومت نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں اس لئے کہتے ہیں ’’بچے دو ہی اچھے‘‘
ًً٭٭٭٭٭
دہلی میں بابا وہسکی والے مندر کا چرچا
جس معاشرے میں گائے‘ بندر‘ چوہے اور ہاتھی کو مقدس قرار دیکر ان کی پوجا کا چلن عام ہو‘ وہاں اگر کچھ من چلے کسی وہسکی کے شیدائی کا ٹمپل بنا دیں تو کچھ عجیب نہیں۔ دہلی میں قائم اس مندر میں لوگ اپنے کسی گرو کی یاد میں قائم اس مندر میں ایک شراب کی بوتل لیکر حاضری دیتے ہیں۔ اس کی تصویر کی پراتھنا کے بعد اس کی سمادھی کے سامنے بنی نالی میں اس بوتل میں سے ایک دو پیگ بہا دیتے ہیں اور باقی بچ جانے والی بوتل لیکر باہر نکلتے ہیں اور مندر کے باہر بیٹھے مفلوک الحال بھکاریوں میںیہ وہسکی جو بچی ہے تقسیم کرتے ہیں جو اسے بابا وہسکی والے کا پرشاد سمجھ کر نہایت ادب سے قبول کرکے غٹاغٹ پی لیتے ہیں۔ گستاخی معاف اگر ایسا کوئی بابا یا تکیہ بوتل والا سرکار کے نام سے ہمارے ہاں بھی ہوتا تو وہاں بھی ہر وقت مئے کشوں کا ہجوم لگا رہتا۔ بانٹنے والے بھی بے حساب ہوتے اور لینے والے بھی بے شمار ہوتے۔ کئی لوگ تو مستقل رات کو وہاں ڈھیر جما کر اپنی اپنی محفل سجا لیتے۔ جیسے میلوں میں ننگ دھڑنگ ملنگ جو شریعت اور تصوف دونوں سے بیگانہ ہوتے ہیں۔ چرس کے سوٹے لگاتے حلقے بنائے ہوتے ہیں۔ فرق یہ ہوتا ہے کہ دہلی میں بابا وہسکی والا مندر میں کچھ شراب نالی میں بہائی جاتی ہے۔ یہاں اسے بھی تبرک سمجھ کر لوگ اس کے حصول کیلئے چھینا جھپٹی کرتے نظر آتے۔ کیونکہ اس انگوری پانی پر ہمارے ہاں پابندی جو ہے۔
٭٭٭٭