شام کا منظرنامہ بدل رہا ہے۔ امریکہ ناکامی کاداغ لئے واپس جارہا ہے اپنے قدم نکال رہا ہے اور اپنی تمام تر ذمہ داری ترکی کے کندھوں پر ڈال رہا ہے جو ‘‘سلطان’’اردوان بخوشی اٹھانے کو تیار ہے۔ کیا یہ خیر کا سلسلہ ہے یا پھر ترکی بھی اس دلدل میں پھنسنے تو نہیں جارہا جس میں پہلے بھی دیگر اسلامی ممالک یکے بعد دیگر پھنستے گئے ہیں لیکن ناکامی ان کا مقدر ٹہری اور بشارالاسد آج بھی ایوان اقتدار میں موجود ہے اور کل کے اتحادی قطر اور باہم دست و گریبان ہیں دیکھنا صدر رجب طیب اردوان کی حکمت عملی کہاں تک کامیاب رہے گی؟ ایک پرخطر سوال ہے جس میں کئی حادثوں کے مہیب سائیے منڈلا رہے ہیں لیکن ترک اور امریکی صدر کی قربت بہرحال بڑی تبدیلی کی نوید ہے۔ترک صدر جناب رجب طیب اردوان نے ممتاز امریکی اخبار میں لکھا ہے جس میں انہوں نے شام کو پرامن بنانے، فضا کو سازگار بنانے اور شام کے اندر مختلف طبقات کو باہم متحد کرکے معاشی سرگرمیوں کے فروغ کا فارمولا پیش کیا ہے۔ وہ غالبا پہلے ایسے صدر ہیں جنہوں نے ٹرمپ کو اسلامی دنیا میں کسی اقدام پر شاباش دی ہے ورنہ یروشلم میں امریکی سفارت خانہ قائم کرنے کی جو کھلم کھلا بدمعاشی انہوں نے کی ہے، اس پر اسلامی دنیا کی غیرت کا جنازہ تو کب کا نکل چکا، اور کسی ستم گر کا یہ جملہ سچ ثابت ہوا کہ خاکم بدہن مسجد اقصی شہید ہونے کے بعد بھی اسلامی دنیا سے صرف مذمت کا غلغلہ بلند ہوگا اور پھر صابن کے جھاگ کے غبارے کی طرح چند ساعتوں میں نظروں سے ہمیشہ کیلئے اوجھل ہوجائے گا۔صدر طیب اردوان نے بلاد شام سے امریکی افواج کے انخلاء کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے صدر ٹرمپ کا صحیح سمت میں درست قدم قرار دیا۔ وہ زور دیتے ہیں کہ منصوبہ بندی کی باریکیوں کو مدنظررکھتے ہوئے اس منصوبے کیلئے اتحادیوں کے انتخاب میں غلطی سے بچا جائے تاکہ امریکہ، شام کے عوام اور بین الاقوامی برادری کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔فوجی وعسکری اتحاد‘ نیٹو میں ترکی دوسرا ملک ہے جس کی سب سے زیادہ فوج اس اتحاد میں موجود ہے۔ مسیحی اقوام کے اس اتحاد میں مسلمان ملک ترکی ہی ہے۔ صدر اردوان فرماتے ہیں کہ صرف ترکی وہ ملک ہے جس میں وہ جذبہ، صلاحیت اور عزم ہے جسکے نتیجے میں یہ مقصد حاصل کیاجاسکتا ہے یعنی شام میں امن کا قیام اور دہشت گردوں کا خاتمہ ہو۔ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے فخریہ انداز میں لکھتے ہیں کہ ’’2016ء میں ترکی وہ پہلا ملک تھا جس نے داعش کیخلاف شام میں جنگ کیلئے اپنے فوجی دستے میدان میں اتارے تھے تاکہ نیٹو کی سرحدوں تک داعش کی رسائی منقطع کردی گئی اور دہشتگردوں کی ترکی اور یورپ کی سرزمین پر دہشت گردی انجام دینے کی صلاحیت یعنی مشہور زمانہ ’’کمرتوڑ‘‘ دی گئی ہے۔‘‘
اسکی افادیت بیان کرتے ہوئے وہ بیان کرتے ہیں کہ ’’رقاع اور موصل میں اتحادی آپریشن میں فضائی حملوں پر زیادہ انحصار کیاگیا تھا، اس کے مقابلے میں ترک افواج اور شام کو آزاد کرانے والے جنگجو داعش کے مضبوط گڑھ ’الباب‘ میں داخل ہوئے تو انہوں نے گھر گھر تلاشی لی تاکہ داعش کا خاتمہ کردیاجائے۔ ہماری حکمت عملی کی وجہ سے شہر کا بڑا ڈھانچہ محفوظ رہا اور چند دنوں میں شہری زندگی واپس معمول پر آگئی۔ آج وہاں بچے سکول جارہے ہیں، ترک ہسپتال بیماروں کو شفایاب کررہا ہے، نئے کاروباری منصوبہ جات سے لوگوں کو نوکریاں مل رہی ہیں اور مقامی آبادی کی معیشت بہتر ہورہی ہے۔ یہ مستحکم ماحول دہشت گردی کا علاج ہے۔‘‘ اْن کا عزم ہے کہ ’’ترکی نام نہاد داعش اورشام میں موجود دیگر دہشت گرد گروہوں کو شکست دینے کے لئے پرعزم ہے کیونکہ ترک عوام متشدد انتہاء پسندی کے خطرے سے بخوبی آشنا ہیں۔ 2003ء میں جب میں وزیراعظم بنا تو القاعدہ کے سوچے سمجھے حملوں سے ترکی میں درجنوں افراد شہید ہوئے۔‘‘
صدر اردوان ترکی کے دہشت گردی سے متاثرہونے کا احوال لکھتے ہیں کہ ’’حال ہی میں نام نہاد داعش نے ہمارے شہریوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا، ہمارے طرز زندگی، اجتماعیت، اعتدال پسند عالمی نکتہ نگاہ رکھنے والے ہماری شہریوں پر حملہ کیا۔ چند سال پہلے دہشت گرد گروہ نے مجھے ’’دغابازشیطان‘‘ کے طورپر الزام تراشی کا نشانہ بنایا۔ ہم نے ترکی میں پناہ گزین ہزاروں مسیحیوں اور یزیدیوں کی آنکھوں میں عراق اور شام میں ان پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کا خوف دیکھا ہے۔‘‘ ترک صدر رجب طیب اردوان اپنے اس عزم کو دہراتے ہیں کہ ’’جیت دہشت گردوں کی نہیں ہوگی۔ ترکی بین الاقوامی برادری اور اپنے تحفظ و سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے ہر ضروری اقدام جاری رکھے گا۔‘‘ انکی دانست میں ’’عسکری لحاظ سے نام نہاد داعش کو شام میں شکست فاش ہوچکی ہے۔ اس کے باوجود ہمیں گہری تشویش ہے کہ کچھ بیرونی طاقتیں اس تنظیم کے چند بچے کھچے عناصر کو شام کے داخلی امور میں مداخلت کے بہانہ کے طورپر استعمال کرسکتی ہیں۔‘‘
انہوں نے تجویز کیا کہ اس سمت میں ’’پہلا قدم یہ ہے کہ استحکام پیدا کرنے والی ایک قوت تشکیل دی جائے۔ اس میں ان جنگجوئوںکو شامل کیاجائے جو شام کے معاشرے کے تمام طبقات سے تعلق رکھتے ہوں۔ ایک متنوع جسم رکھنے والی ایسی قوت تشکیل دینے سے ہی شامی شہریوں کی خدمت ہوسکتی ہے اور یہ قوت ہی ملک کے مختلف حصوں میں امن واستحکام لاسکتی ہے۔ اس انداز فکر کی روشنی میں نشاندہی کرنا چاہوں گا کہ ہمارا شامی کردوں سے کوئی اختلاف نظر نہیں۔‘‘ انہوں نے ان عوامل کو بھی بیان کیا کہ ’’جنگی حالات کے تقاضوں کے تحت نوجوان شامیوں کے پاس ’پی وائی ڈی‘ ، ’وائی پی جی‘ جو شامی ’پی کے کے‘ کی شاخ ہے کے ساتھ مل جانے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا، موخر تنظیموں کو ترکی اور امریکہ دہشت گرد تنظیمیں قراردیتے ہیں۔‘‘
’کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر‘‘ کے مطابق یہ شام میں سب سے اہم ترین کرد اپوزیشن جماعتوں میں سے ایک ہے۔ کیمیکل انجینئر صالح مسلم 2010ء میں اس کے چئیرمین بنے جبکہ عائشہ عبداللہ جون 2012ء میں شریک چئیرمین مقرر ہوئیں۔ شام کی بعث پارٹی کْرد اقلیت کے خلاف جابرانہ رویہ رکھتی آئی ہے۔ سابق صدر حافظ الاسد نے ترکی اور عراق میں کرد دھڑوں کی حمایت جاری رکھی تاکہ علاقائی حریفوں پر دبائو برقرار رہے۔ عراقی کرد رہنما جلال طالبانی کو حافظ الاسد نے دمشق میں پناہ دی۔ انہوں نے علاقائی حریف ترکی کے خلاف کردستان ورکر پارٹی (پی کے کے) کی بھی حمایت کی۔ 1988ئمیں شامی حکومت نے کرد پولیٹیکل پارٹی، ’پی یو کے‘ اور ’پی کے کے‘ کو کالعدم قرار دے دیا۔ پانچ سال بعد شامی کردوں نے ’پی وائے ڈی‘ قائم کردی۔صدر اردوان مزید لکھتے ہیں کہ ’’انسانی حقوق کی تنظیم (ہومین رائٹس واچ) کے مطابق ’وائے پی جی‘ نے بچوں کو جنگ لڑنے کیلئے بھرتی کرکے عالمی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔شام سے امریکی انخلاء کے نتیجے میں ہم فوجی بنادئیے گئے ان بچوں کو واپس جمع کرکے انہیں ان کے خاندانوں کے حوالے کرینگے اور ان تمام جنگجوئوں کو بھی جمع کریں گے جن کا کسی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں اور اس طرح ایک نئی مستحکم قوت تشکیل دیں گے۔‘‘
وہ یہ بھی یقین دلاتے ہیں کہ ’’ترکی اپنے اتحادیوں اور دوستوں سے مشاورت اور اشتراک عمل سے چلے گا اور اقدامات اٹھائے گا۔ ہم جنیوا اور آستانہ عمل میں پوری طرح شریک رہے ہیں اور واحد فریق ہیں جو بیک وقت امریکہ اور روس کے ساتھ مل کر کام کرسکتے ہیں۔ ہم ان شراکت داریوں کی بنیاد پر تعمیرشروع کرینگے اور شام میں امن واستحکام کا مقصد حاصل کرینگے۔‘‘اختتام میں وہ تحریر کرتے ہیں کہ ’’وقت آگیا ہے کہ تمام فریقین اس امن عمل کا حصہ بنیں اور اس دہشت گردی کا خاتمہ کریں جو داعش نے پھیلا رکھی ہے، جو اسلام، مسلمانوں کی دشمن ہے۔ تاکہ شام کی علاقائی سالمیت برقرار رہے۔تاریخ کے ایک کڑے مرحلے پر ترکی رضاکارانہ طورپر یہ بھاری ذمہ داری اٹھا رہا ہے۔ اس ضمن میں ہم بین الاقوامی برادری پر انحصار کررہے ہیں۔‘‘