اسلام کے سنہری اصولوں کو اپنانے کے لئے مسلمان ہونے کی شرط کہیں نظر نہیں آتی چونکہ اللہ سارے جہانوں کا رب اور آنحضرتﷺ سارے جہانوں کے لئے رحمت اور قرآن کی زبان میں رحمتہ اللعالمین ہیں۔ اسلام ایک عالمگیر مذہب اور اسکے اصول, ضابطے اور رہنما ہر زمانے ہر مذہب اور ہر قوم پر یکساں طور پر اثرات مرتب کرتے ہیں مسلمانوں کو یہ اعزاز ضرور حاصل ہے کہ رب کائنات نے مسلمانوں کے لئے اسلام کو بطور نظام حیات چن لیا ہے اور حکم دیا ہے کہ دین میں پورے کے پورے داخل ہو جائو یعنی اپنی زندگیوں کے جملہ پہلوئوں کو دین اسلام کے تابع کر دو۔ اس نظام کی برکات بھی تبھی حاصل ہوتی ہیں اگر اس پر پوری طرح عمل کیا جائے اور کلمہ گو ہونے کے ناطے اس دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی اس کے ثمرات ملتے ہیں۔ کفار اور مشرکین کو اسکے کسی پہلو پر عمل کرنے کا اجر اسی دنیا میں ملتا ہے اور آخرت میں اس کا حصہ نہیں۔ مادہ پرستی،ہوس زر اور دین سے دوری کے سبب اکثر مسلمانوں سے کسی اضافی ندامت اور شرمندگی کا بوجھ اٹھائے بغیر یہ سننے کو ملتا ہے کہ ہم مسلمانوں نے تو اسلام کو چھوڑ دیا ہے اور اسکے سارے اصول غیر مسلموں نے اپنا لئے ہیں اس طرح غیر مسلم معاشرہ کی تعریف کی جاتی ہے اگرچہ مسلمانوں کی زندگیوں میں اتنا بھی اندھیر نہیں جتناخود ملامتی کے رویہ کی وجہ سے پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کیونکہ مسلمانوں نے اگردین پر عملدرآمد میں سستی، اغماض اورمجرمانہ غفلت کا کہیں مظاہرہ کیا ہے تو اس دین کو مسلمانوں کے لئے بہترین دین کے طور پر منتخب کرنے والارب ان سے مایوس نہیں ہوا اور انہیں ڈھیل دیئے جا رہا ہے انکی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں اللہ کے ساتھ معاملات بندوں کے ساتھ معاملات کی نسبتاً زیادہ مضبوط نظر آتے ہیں مگر ان مضبوط معاملات کی رحمتیں اسکے بندوں کے لئے ہوس حرص اور مفاد پرستی کے نیچے دب کر اپنے اثرات کے اعتبار سے سکڑ جاتی ہیں۔ جھوٹ، ظلم، ناانصافی، فریب، دھوکہ دہی، خیانت، بددیانتی اور لوٹ مار ایسی بیماریاں اگر کسی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیں تو وہ فطری تباہی و بربادی کے فیصلوں کو بھگتے بغیر اس سے باہر نہیں نکل سکتا۔ مسلمانوں کے زوال کا باعث یہی مذکورہ عوامل ہیںجن سے نہ نجات کی منصوبہ بندی نظر آتی ہے اور نہ ہی اسکے مضر اثرات سے کسی قسم کی عبرت مسلمانوں کے پاس انفرادی اور اجتماعی طور پر سب کچھ ہونے کے باوجود اقوام عالم میں انکی بے حیثیتی اور بے توقیری اب چھپانے سے بھی نہیں چھپ سکتی۔
ایثار، قربانی، عدل، سچائی، امانت، دیانت، خیرخواہی، خدمت سبھی جذبے مسلمان معاشرے سے یوں لگتا ہے جیسے روٹھ گئے ہوں اور انہیں منانے کے لئے کسی کو نہ فکر ہے نہ ہی ادھر کوشش ان جذبوں کے روٹھ جانے سے معاشرتی ڈھانچہ کھوکھلا ہو گیا ہے۔ مغرب میں مسلمانوں کے یہ قیمتی اثاثہ جات اپنے ہونے کا ایسا حوالہ بن رہے ہیں کہ اپنے سنہری ماضی سے ان جذبوں کی قدر کرنے اور ان کو اپنانے کے حوالے اب کتابوں میں بھی نظر نہیں آتے۔ غزوۂ تبوک کے متعلق درسی کتب میں ننھے منھے ذہنوں میں کسی جنگ کی ہولناکیوں اور مسلمانوں کی کفار کے مقابلے میں کمزور پوزیشن سے مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کی بجائے اس غزوۂ کی تیاری میں صحابہ کرامؓ کے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے واقعات اس طرح ذہن نشین ہو جاتے ہیں کہ ساری زندگی انسان اسے بھلا نہ پائے۔ حضرت عمر فاروقؓ کا غزوۂ تبوک کی تیاری کے لئے گھر کا آدھا سامان لیکر آجانا اور آنحضرتﷺ کے استفسار پر کہ عمرؓ کیا لائے ہو۔ ان کا یہ جواب کہ حضور میرے ماں باپ آپ پر قربان میں نے اپنے سارے اثاثے اکٹھا کرکے دو حصوں میں تقسیم کئے آدھے آپ کی خدمت میں لے آیا ہوں اور آدھے بیوی بچوں کے لئے چھوڑ آیا ہوں۔ حضرت عمرؓ کے دل کے نہاں خانہ میں آج یہ بات بھی تھی کہ ہر دفعہ حضرت ابوبکر صدیقؓ بازی لے جاتے ہیں مگر آج میں ان سے زیادہ مال دیکر اپنا نام اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کی فہرست میں سب سے اوپر لکھوا لونگا۔ اسی دوران حضرت ابوبکر صدیقؓ آ گئے حضورﷺ نے پوچھا ابوبکر تم کیا لائے ہو عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان میں نے جنگ کی تیاری کے لئے اپنے سارے اثاثے اور گھر کا سامان آپ کے قدموں میں لا کر رکھ دیا ہے۔ فرمایا بیوی بچوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو عرض کی: صدیقؓ کے لئے خدا اور رسول بس حضرت عمرؓ فرماتے ہیں ابوبکرؓ آپ سے کوئی نہیں جیت سکتا۔
چونکہ غیر مسلموں کے مسلمانوں کے ان سنہری اصولوں کو اپنانے کی بات ہو رہی تھی اس لئے اس موقع کی مناسبت سے مجھے امریکہ کا وہ عام شہری یاد آرہا ہے جو سان فرانسسکو کے ایک معمولی سے کرائے کے مکان میں اپنی بیوی کے ساتھ رہتا ہے آدمی کا حلیہ اسکی غربت اور ناداری کی ایسی گواہی دیتا ہے جسے جھٹلایا نہ جاسکے۔ معمولی لباس اور بہت ہی پرانی عینک جو اسکی ضرورت کو تو پورا کرتی ہے مگر چہرے پر سجاوٹ لانے یا ا سے معزز بنانے کی بجائے اسکی بے حیثیتی کو ہی ظاہر کرتی ہے اسکی گھڑی بس گھڑی ہی ہے۔ چارے کو ہے معروف فرموں کے کپڑے اور جوتے اسی نصیب ہوئے نہ ہی خوبصورت گھڑی۔ حد تو یہ ہے کہ اس شخص کے پاس اپنی کار بھی نہیں اور وہ بس میں سفر کرتا ہے وہ اپنا پرانا بیگ جسکی خستہ حالی کی طرف شاید اسکی کبھی نظر نہیں گئی وہ اسی میں اپنے کاغذات رکھ کر اپنے کام پر جانے کیلئے بس سٹاپ پر جا کر کھڑا ہوجاتا ہے اور بس آنے پر انتہائی احتیاط سے اس پر سوار ہو کر اپنی منزل پر پہنچتا اور شام کو اسی طرح گھر واپس آتا ہے اس بظاہر بہت ہی غریب شخص کو اپنی اس بے حیثیتی کے باوجود فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا جنون کی حد تک شوق ہے اب تک وہ رفاہی اور فلاحی کاموں میں 8 بلین یعنی 8ارب ڈالر سے زیادہ دے چکا ہے۔ چہرے پراطمینان اور مسرت و شادمانی میں اپنے شب و روز گزارنے والے شخص چک فینی اپنی ذات پر خرچ کرنے کے حوالے سے بہت ہی غریب اوردوسروں کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے بہت کھلے دل کا مالک ہے۔ تعلیم کی اہمیت کے پیش نظر اس نے دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں مالی امداد دینے کے حوالے سے اپنا نام مخیر حضرات کی فہرست میں بہت نمایاں ریکارڈ کرا لیا ہے جسکی اسے نہ ضرورت ہے اور نہ خواہش یہ صرف یونیورسٹیوں کے مالی امداد کرنے والوں کی امدادی رقوم کی وصولی اورا سے خرچ کرنے کے لئے کاغذی کارروائی سے معلوم ہوتا ہے چک فینی بہت زیادہ پیسہ کمانا چاہتا ہے اور اس نے کمایا بھی مگر اپنی ذات پرخرچ نہیں کرنا چاہتا کسی بڑے مقصد کے حصول کے لئے اپنی اس کمائی کو استعمال کرتا ہے۔ اس نے سب سے زیادہ عطیہ امریکہ کی معروف کارنل یونیورسٹی کو 58 کروڑ اسی لاکھ ڈالر عطیہ دے چکا ہے۔ کیلے فورنیا یونیورسٹی کو چھ کروڑ ڈالر ایک ارب ڈالر سے امریکہ سے باہر یونیورسٹیوں کو وقت کے تقاضوں کے مطابق لانے اور آئرلینڈ میں سات نئی یونیورسٹیاں قائم کرنے کا عطیہ بھی چک فینی دے چکا ہے۔
پسماندہ ممالک میں بچوں کو موذی امراض سے بچانے اورانکی سرجری کے لئے ایک فنڈ قائم کیا ہے چک فینی کو اپنی اس ساری خیرات پر نمود و نمائش کی ہر گز پرواہ نہیں نہ وہ کسی تعریف و توصیف کادلدادہ ہے بکہ وہ اس بات کی خاص طور پر درخواست کرتا ہے کہ اس کا نام نمایاں کرنے کی بجائے عطیہ کو گمنام رکھا جائے۔ چک فینی پوری زندگی خود کو اس حوالے سے نمایاں ہونے سے بچاتا رہا مگر بالآخر وہ میڈیا سے نہ بچ سکا اسے سوال کیا گیا کہ اس نے اپنی ساری دولت خیرات کرنے کا کیوں فیصلہ کیا چک فینی مسکرایا اور کہا لوگ بے لباس پیداہوتے ہیں اور مرتے وقت بھی ان کے کوئی ساتھ نہیں جاتا وہ اکیلے ہی قبر میں خالی ہاتھ اتار دیئے جاتے ہیں نہ دولت ساتھ جاتی ہے نہ شہرت نہ عہدہ نہ مرتبہ جسکے لئے وہ پوری زندگی جدوجہد کرتا رہتا ہے ایک منجھے ہوئے صحافی نے تیکھے انداز سے پوچھا آپ نے اپنی ساری خوش قسمتی عطیہ کردی اسکی وجہ؟ چک فینی نے پھر مسکرا کر کہا کیونکہ خوش قسمتی کو کسی بیگ میں بند نہیں کیا جاسکتا۔ چک فینی نے اگرچہ دنیا بھرکے امیروں کے لئے ایک مثال اسی دور میں قائم کی ہے اور امریکہ کے دو امیر آدمی بل گیٹس اور وارن بفٹ نے چک فینی کے نقش قدم پر چلنے کا عزم و ارادہ ہی ظاہر نہیں کیا اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں۔ چک فینی کا کہنا ہے کہ اس محروم طبقہ کے بارے میں سوچو تاکہ وہ بھی تمہاری طرح اچھی زندگی گذار سکیں۔
اگرچہ قومی دولت لوٹنے ، حرام کمانے اور اپنی تجوریاں ناجائز دولت سے بھرنے والوں پرایسی کسی تحریر یا تحریک کا اثرنہیں ہوتا انکے مردہ ضمیر جھنجھوڑنے کی سطح سے آگے چلے گئے ہیں تاہم میری درخواست ہے کہ حرام خور اور ناجائز دولت کے انبار جمع کرنے والے یہ کالم نہ پڑھیں۔
پچھلے دنوں پاکستان کے معروف پتھالوجسٹ ڈاکٹر چغتائی فرما رہے تھے کہ میں ہارورڈ یونیورسٹی اپنی بیٹی کی گریجویشن پر گیا تو ایک پروفیسر سے پوچھا آپ نے ہارورڈ کب بنائی ۔ کہنے لگے جب آپ تاج محل بنا رہے تھے ہم یہاں ہارورڈ بنا رہے تھے اور پھر اس جواب پر ڈاکٹر چغتائی کو جو ایمبرسمنٹ ہوئی وہ ابھی تک انکے چہرے پر ظاہر تھی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024