قارئین کرام پچھلے کالم میں ستر سالہ تاریخ کی ورق گردانی کرتے کرتے ہم سابق آمر جنرل ضیاالحق کے دور تک پہنچے تھے جس میں افغانستان میں جہاد کے نام پر ہماری مداخلت اور اس کے صلے میں پاکستان میں ہیروئین اور کلاشنکوف کلچر کے تعارف جیسے تحفہ جات کی نشاندہی کی گئی تھی۔ بیشک بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اکثر مورخ اسے پاکستان کی تاریخ کی بہت بڑی سیاہ رات سے تعبیر کرتے ہیں لیکن ایک غیر جانبدار تجزیہ نگار کی نظر سے دیکھا جائے تو آمر ضیاالحق کے جس کارنامے کو سیاہ ترین الفاظ میں یاد کیا جا سکتا ہے وہ ہے اسکی ایک سیاستدان محمد خان جونیجو کی حکومت کی برطرفی کا فیصلہ۔ اس دور کے زمینی حقائق اور وقعتی نظیروں کا جائزہ لیں تو ضیا کے ہر قدم سے اس بات کی گواہی ملتی ہے کہ اس نے ملک کے اقتدار اعلیٰ کے ایوانوں میں سول یہاں میری مراد خالصتاً سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے دو ایسے فرقوں میں بانٹ دیا جنکی صف بندیاں آج بھی اسی طرح موجود ہیں جیسے محمد خان جونیجو کی حکومت کی برطرفی پر وجود میں آئیں تھیں۔ اسے بدنصیبی کا آغاز کہیں یا انتہا کہ انے والے وقت میں بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی دونوں حکومتوں کے ادوار سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہونے والی رسہ کشی کی روشن مثال ہیں۔ بیشک نواز شریف کے اس وقت کے دونوں ادوار اس حقیقت سے عبارت ہیں کہ اسے نے اْڑتے تیروں کو جھپا ڈالا لیکن اس حقیقت کے باوجود کہ آئی جے آئی کے قیام میں جس جس نے جو جو کردار ادا کیا وہ اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہا لیکن بینظیر بھٹو نے اسکے باوجود جنرل اسلم بیگ کی قیادت میں سول حکومت کی طرف سے فوج کو تمغہ جمہوریت سے سرفراز کیا۔ بینظیر کی اس کوشش کے پیچھے حقائق جاننے کی کوشش کریں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک بہت بڑی نباض اور ہوشیار سیاستدان تھی۔ اْسے پتہ تھا کہ پاکستان کا ہر فرد اپنی فوج سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ وہ جانتی تھی کہ ماضی میں جو بھی ماورائے آئین آقدامات اْٹھائے گئے پاکستان عوام کی اکثریت انہیں بھی فرد واحد کے کارنامے کے طور پر یاد کرتی ہے کیونکہ عوام کے نزدیک ایسے اقدامات کے پیچھے کھڑا ہونا ادارے کے نظم کی مجبوری ہوتی ہے۔ اسے بدنصیبی کہیے یا فحش غلطی کہ جس ناسمجھی کی ضیا الحق نے جونیجو حکومت برطرف کر کے ابتدا کی تھی اسکی انتہا نواز شریف نے 1999ء میں ایک آرمی چیف پرویز مشرف کو برطرف کر کے کر دی۔ باقی بہت سے حقائق تاریخ میں درج ہیں کہ کون کس جگہ پر ٹھیک تھا لیکن تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ نواز کے خمیر میں یہ بات رچی بسی ہوئی تھی کہ وہ مطلق العنان حکومتی کنٹرول چاہتا تھا جہاں تمام ریاستی ادارے اسکے گھر کی لونڈی ہوں۔ بات پھر وہی جو بات روحانی باپ ضیاء نے شروع کی اسکا انجام روحانی بیٹے نواز نے کیا۔ وقت کے جبر کے ہاتھوں اقتدار پھر ایک آمر کے ہاتھوں آیا اور اس کے ساتھ ہی بین الاقوامی سازش کے تحت وہ جنگیں جو ہم بیرونی محاذوں پر لڑا کرتے تھے وہ ہمیں اپنے ملک کے اندر لڑنی پڑ گئی۔ پاکستان کی بقاء کی ضمانت سمجھی جانے والی افواج کو ایک نہیں دو نہیں چار مْکھی لڑائی لڑنی پڑ گئی۔ پاکستان کو ایک ایسے گڑھے میں دھکیل دیا گیا جہاں ہر طرف گولا بارود اور تباہی ہی تباہی تھی لیکن وقت نے دیکھا کہ جنرل کیانی کے دور میں تین مہینوں میں کس طرح سوات آپریشن کس کامیابی کے ساتھ کیا گیا پھر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ کس طرح آپریشن ردالفساد کامیابی سے ہمکنار ہوا وہ علیحدہ بات ہے کہ نواز حکومت سول آبادکاری سے اس کامیابی کے ساتھ نبردازما نہیں ہوئی جیسی سوات میں زرداری حکومت ہوئی تھی لیکن ان دنوں ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان اپنے سفر کی اس منزل کی طرف بڑھنے کے قریب ہے جو منزل ہمیں پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ملی تھی لیکن بدقسمتی سے آج بین الاقوامی سازش کے تحت ہمارے ملک کے ہر فرد کو پکڑ دھکڑ میں اگر گھسیٹا نہیں جا رہا تو ایک تشہیری مہم کے ذریعے ایسے خوف میں ضرور مبتلا کر دیا گیا ہے جہاں پر نہ کوئی سرکاری اہلکار کوئی کام کرنے کیلئے تیار ہے نہ کوئی کاروباری شخص اپنا سرمایہ لگانے کیلئے تیار ہے۔ اس سے کوئی انکاری نہیں کہ کوئی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک وہاں کرپشن کنٹرول نہ ہو لیکن اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ انتہائی تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ ممالک میں بھی کرپشن پائی جاتی ہے۔ ان ممالک کی کیس سٹڈی بتاتی ہے کہ وہاں ادارہ جاتی میکنزم اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ وہاں کی کرپشن کنٹرول کرنے کیلئے علیحدہ ادارے نہیں بنائے گے۔ یاد رہے ادارہ جاتی میکنزم خوف پیدا نہیں کرتا بلکہ مراحل کو آسان بناتا ہے جبکہ علیحدہ ادارے خوف کی فضا پیدا کرتے ہیں اور رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ لہٰذا جب ڈی جی آئی ایس پی آر اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے ملک کا مثبت تاثر اْبھاریں تو راقم کے خیال میں وہ بہت سے لوگوں کو انتہائی سمجھداری کے ساتھ بہت کچھ سمجھانا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی معاشی داخلی اور خارجی صورتحال ہم سب سے اس بات کا تقاضا کر رہی ہے کہ منفی تاثر بہت ہو چکا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جلاؤ چراغ بڑا اندھیرا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024