جسٹس آصف سعید کھوسہ پرسوں چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ، چیف جسٹس آف پاکستان ڈاکٹر نسیم حسن شاہ (مرحوم) کے داماد ہیں۔ وہ پرسوں اپنے سسر کی اْسی کرسی پر بیٹھ کر بطور چیف جسٹس آف پاکستان فیصلے کریں گے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کی یادداشتیں میں نے ریکارڈ کی تھیں جو 1995ء میں ’’جرأت کا پیکر‘‘ کے نام سے شائع ہوئیں۔ یہی کتاب اضافے اور نام کی تبدیلی کے ’’عہد ساز منصف‘‘ کے ساتھ 1997ء میں چھپی۔
جسٹس نسیم حسن شاہ کی بیگم سلمیٰ شاہ کو میں نے فون کر کے مبارک باد دی اور پوچھا کہ آپ کے شوہر جسٹس نسیم حسن شاہ چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر فائز رہے اور اب آپ کے داماد جسٹس آصف سعید کھوسہ، چیف جسٹس کا حلف اٹھائیں گے۔ آپ کیسا محسوس کرتی ہیں؟ انہوں نے مبارکباد دینے پر میرا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ بہت اچھا لگا، میں خوشی اور فخر محسوس کرتی ہوں۔
جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کی یادداشتیں ریکارڈ کرتے ہوئے میں نے ان کی ازدواجی زندگی کے بارے میں بھی دریافت کیا تھا۔ ان کا جواب تھا ’’ہماری تین بیٹیاں ہیں۔ بڑی بیٹی کا نام لیلیٰ ہے۔ وہ 1959ء میں پیدا ہوئی۔ وہ میری طرح مقررہ ہے۔ سکول اور کالج کے مباحثوں اور ڈراموں میں حصہ لیتی رہی ہے۔ جب وہ کنیئرڈ کالج میں تھی تو کالج یونین کی سیکرٹری رہی ہے۔ دوسری بیٹی عائشہ 1963ء میں پیدا ہوئی، وہ بھی پڑھائی میں بہت ذہین تھی۔ سب سے چھوٹی بیٹی شیریں بہت لاڈلی ہے۔ یہ بھی پڑھائی میں اچھی رہی اور ایم اے (فرنچ) کی سند حاصل کی۔ میری بیگم نے تینوں بیٹیوں کی بڑی اچھی تربیت کی۔ بڑی بیٹی نے بی اے کیا پھر اس کی شادی ہو گئی۔ اس کے شوہر انگلینڈ میں ہیں۔ وہاں میری بیٹی نے تعلیم جاری رکھی۔ اس نے لندن سکول آف اکنامکس میں داخلہ لے لیا اور ایم ایس سی کر لی۔ دوسری بیٹی نے ہوم اکنامکس کالج سے بی ایس سی فرسٹ ڈویژن میں کی۔ امتحان ختم ہونے کے فوراََ بعد اس کی شادی کر دی گئی۔ اس کے شوہر بیرسٹر آصف سعید کھوسہ ہیں جو سردار فیض محمد کھوسہ کے صاحبزادہ ہیں۔ آصف سعید خان کھوسہ کا شمار ملک کے قابل بیرسٹروں میں ہوتا ہے۔ قانون کے بارے میں ان کے مضامین مختلف اخبارات و جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ سب سے چھوٹی بیٹی نے ایم اے کیا ہے۔ میں نے فرانس سے ڈاکٹریٹ کی تھی تو میری خواہش تھی کہ میری کوئی بیٹی فرنچ پڑھے۔ اس لیے اس نے انسٹی ٹیوٹ آف ماڈرن لینگوئجز اسلام آباد سے ایم اے (فرنچ) میں کیا۔ ہمیں اولاد نرینہ کی کمی کا احساس نہیں ہوتا۔ بیٹیوں نے اس قدر پیار دیا کہ ہمیں بیٹے کی کمی محسوس نہیںہوئی۔ پھر ہمیں داماد کی شکل میں تین بیٹے ملے، وہ انتہائی اچھے، نیک اور فرمانبردار ہیں‘‘ گویا جسٹس نسیم حسن شاہ کی دوسری بیٹی عائشہ، جسٹس آصف سعید کھوسہ کی اہلیہ ہیں۔ جب ان کی شادی ہوئی وہ بیرسٹر اور وکالت کرتے تھے۔ گول چہرہ، گوری رنگت، ذہین آنکھیں، چھوٹے چھوٹے ہاتھ، روشن ماتھا، ماتھے پر کامرانی کی لکیریں، چھوٹا قد۔ یہ تھے ڈاکٹر نسیم حسن شاہ۔ جنہوں نے زندگی یوں گزاری کہ کروڑوں افراد ایسی زندگی گزارنے کے خواب دیکھتے ہیں اور ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کی شخصیت پر ناز کرتے ہیں۔ جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ، لاہور کے اس پُرسکون اور مہذب دور میں پیدا ہوئے جب مادہ پرستی کے مقابلے میں لوگ اقدار اور تہذیبی آداب سے مالا مال تھے۔ ان کا بچپن، لڑکپن اور جوانی قابل رشک رہی۔ ان کے دل میں صرف ایک خواہش اور آرزو تھی۔ کامیاب اور آبرومندانہ زندگی کی آرزو۔ اس کے حصول میں انہوں نے بڑی محنت کی۔ اپنے چھوٹے قد کا انہیں Complex نہیں ہوا، نہ کبھی اپنے طالب علم ساتھیوں کے فقرے بازی سے پریشان ہوئے بلکہ زندگی میں اگر کبھی ایسا موقع آیا بھی جہاں ان کے سامنے ان کا چھوٹا قد رکاوٹ بنا تو انہوں نے اپنی ذہانت اور بے ساختگی سے لوگوں کو قائل بنا لیا۔ طالب علمی کے زمانے میں ایک مباحثے کے دوران جب ان کا نام پکارا گیا تو یہ سٹیج پر آ گئے۔ تقریر کرنے لگے تو ان کا سینئر ساتھی الطاف گوہر کرسی اٹھا لائے کہ آپ اس پر چڑھ کر تقریر کریں مگر شاہ صاحب نے کرسی پر کھڑے ہو کر تقریر کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا ’’کوئی اور ہوتا تو شاید ڈسٹرب اور پریشان ہو جاتا مگر میں نے ہمت نہ ہاری۔ میں نے کرسی کو ایک طرف کر دیا اور روسٹرم سے ہٹ کر تقریر شروع کر دی۔ ایسی زور دار تقریر کی کہ سب پر میرا رعب اور دبدبہ طاری ہو گیا‘‘ جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ چھبیس برس انصاف کی کرسی پر بیٹھے رہے۔ اہم جرائد اور قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر ان کے مضامین شائع ہوتے رہے۔ جسٹس نسیم حسن شاہ کے مضامین زیادہ تر روزنامہ نوائے وقت کے ادارتی صفحے پر شائع ہوتے تھے۔ 3 ستمبر1995ء میں ’’نوائے وقت‘‘ میں ’’قومی یک جہتی اور کراچی کی صورتحال‘‘ کے موضوع پر ان کا مضمون شائع ہوا تھا۔ آج بھی کراچی کی صورتحال موضوع بحث رہتی ہے ۔ 1995ء میں جسٹس نسیم حسن شاہ نے لکھا ’’کراچی پاکستان کا بہت اہم شہر ہے۔ یہ واحد تجارتی بندرگاہ ہے۔ سینٹرل ایشیا کا گیٹ وے، تجارت انڈسٹری اور کامرس کا بڑا مرکز ہے۔ پاکستان کے کل ریونیو کا تقریباََ 65 فیصد اسی شہر سے آتا ہے۔ کراچی صحیح معنوں میں پاکستان کی شہ رگ ہے۔ اس کو بچانا ضروری ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024