زندگی میں لمحہ موجود کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ مناسب وقت کا ادراک انسان کو کامیابیاں دلا سکتا ہے اور بصورت دیگر بنا بنایا کھیل بگڑ بھی سکتا ہے اسے انگریزی میں "SENSE OF TIMING" کہتے ہیں جو ہر شخص بالخصوص سیاست دانوں کے لئے بہت ضروری ہے۔ زیادہ انگریزی محاورے لکھنا مناسب نہیں ہوتا لیکن بات میں وزن ڈالنے کے لئے بسا اوقات بتانا پڑتا ہے کہ "TO HIT THE NAIL ON THE HEAD" کسے کہتے ہیں۔ فیصلہ غلط ہو تو فاصلے بڑھ جاتے ہیں اور درست ہو تو گوہر مراد ہاتھ آنے میں دیر نہیں لگتی۔
یوسف رضا گیلانی کے چچا مرحوم حامد رضا گیلانی پرانے پارلیمنٹیرین تھے۔ ان کے متعلق مشہور تھا کہ وہ اپنے والد کے برعکس ہمیشہ صحیح وقت پر غلط فیصلے کرتے تھے۔ ان کے والد رضا شاہ صاحب نے ضلع کونسل کی چیئرمینی کے الیکشن میں ملتان کے ڈپٹی کمشنر سر ایڈورڈ پینڈرل مون (1934-37) کو ہرایا تھا۔ بعض لوگوں کو حیرانی ہوتی ہے کہ انگریز ڈپٹی کمشنر الیکشن لڑنے کا کس طرح مجاز تھا اور حاکم وقت محکوم سے ہار کیسے گیا؟ مون کا شمار ہندوستان کے بہترین ڈپٹی کمشنروں میں ہوتا تھا۔ وہ مصنف بھی تھا۔ ایک جگہ لکھتا ہے۔ میں گھوڑے پر بیٹھ کر جب دورے پر جاتا تھا تو پچاس میل کا فاصلہ ایک دن میں طے کرتا تھا۔ گرداوریوں کے لئے کبھی بھی پٹواری کی مدد یا معاونت کی ضرورت پیش نہ آئی۔ ’’لٹھا‘‘ دیکھ کر مخصوص کیلے تک پہنچ جاتا۔ ہر تھانے کا معائنہ کرتا‘ تھانیدار سے قانون کی عملداری پر تفصیلی بات ہوتی۔ آخر میں اس نے ایک دلچسپ بات لکھی۔
(میں نے عدلیہ کی چیرہ دستیوں سے ہمیشہ پولیس کو بچایا)
(آج اگر زندہ ہوتا تو ہمارے محبوب میاں صاحب کی قدر اور معاونت کرتا۔)
حامد رضا بھٹو کے دوست تھے۔ اس نے انہیں سمجھایا کہ وقت اور حالات بدل گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی جائن رکھو‘ فائدے میں رہو گے۔ یہ بات ان کی سمجھ میں نہ آئی۔ نتیجتاً الیکشن ہار گئے۔ دوسری مرتبہ 1990ء میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر کھڑے ہوئے۔ پورے ملتان ضلع میں یہ واحد شخص تھے جو اپنی کوتاہی کی وجہ سے ہارے۔ ان کا مدمقابل کوئی اور نہیں‘ بھتیجا یوسف رضا گیلانی تھا۔ لیبر لیڈر ظہیر تاج نے دس ہزار محنت کش اکٹھے کئے۔ عین وقت پر مخدوم صاحب جلسے میں نہ پہنچے۔ یہ اپنے ’’نورتنوں‘‘ کے ساتھ گپ شپ لڑاتے رہے۔ نتیجتاً حلقے کی تمام لیبر منحرف ہو گئی۔ یہ اپنے چالاک بھتیجے کی چالبازیاں نہ سمجھ پائے۔ لاہور سے ’’نتھ فورس‘‘ منگوا کر لیڈیز پولنگ سٹیشنوں پر تعینات کر دی جس نے کھل کر ’’اپنے ہنر کے معجزے دکھائے‘‘ ضلع کونسل کے انتخاب میں ان کا اتحادی گروپ جیت گیا۔ اس میں شجاع آباد کے فخر الدین شاہ اور نواب لیاقت شامل تھے۔ ان کا مدمقابل شاہ محمود قریشی تھا۔ یہ اپنے بیٹے محمد رضا کو چیئرمین بنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے صدیق خان کانجو (سابق وزیر خارجہ) کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیٹی بنا دی جس نے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت محمد رضا کو نامزد کرنا تھا۔ میں اس وقت ڈی سی ملتان تھا۔ رات بارہ بجے وزیراعلیٰ وائیں کا فون آیا۔ وزیراعظم میاں نوازشریف نے ہدایت کی تھی کہ پارٹی میں نفاق مناسب نہیں ہے‘ ان کی صلح کرا دی جائے۔ حامد رضا کے بیٹے کو چیئرمین ضلع کونسل بنا دیا جائے اور شاہ محمود کے بہنوئی محمد احمد کو وائس چیئرمین۔ معروضی حالات میں بڑا صائب مشورہ تھا۔ میں نے وزیراعظم کا پیغام نہ صرف پہنچایا بلکہ ان خطرات کا بھی اظہار کیا جو نہ ماننے کی صورت پیش آ سکتے تھے۔ انہوں نے یکسر انکار کر دیا۔ بولے‘ بڑی مشکل سے قریشی پھنسا ہے۔ ہم اس کو خاک میں رگیدیں گے۔ صبح جب کانجو کمیٹی نے ان کے بیٹے کو نامزد کیا تو فخر الدین شاہ (موجودہ وفاقی وزیر جاوید شاہ کے والد) بپھر گیا۔ جب وہ ناراض ہو کر اپنے بارہ ممبروں کے ساتھ باہر نکلا تو شاہ محمود نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس طرح مخدوم صاحب کی یقینی جیت ہار میں بدل گئی اور ہارا ہوا قریشی فتح کے شادیانے بجانے لگا۔آج یہ بھولے بسرے واقعات اس لئے یاد آئے ہیں کہ مرحوم مخدوم کو جانشین مل گیا ہے۔ دبنگ خان! جس سے غلطی نہیں غلطیاں سرزد ہو رہی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان ایک دلیر شخص ہے۔ اس نے سیاست کو ایک نئی سمت عطا کی ہے۔ انوکھی ہمت اور حوصلہ بخشا ہے۔ لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ دلیری اور حماقت میں بال برابر فرق ہوتا ہے۔ ایک صحیح عوامی لیڈر کے شب و روز قوم کی امانت ہوتے ہیں۔ ایک بہت بڑا نباض جسے لوگوں کی امنگوں‘ آرزوؤں اور ارادوں کا ادراک ہوتا ہے۔ جس نے میر تقی میر کا یہ شعر حرزِ جاں بنا رکھا ہوتا ہے؎
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہہ شیشہ گری کا
وزارت عظمیٰ کی خواہش اور اس کی تکمیل کے درمیان کئی مشکل موڑ اور نازک مقامات آتے ہیں۔ قدموں کی ذرا سی لڑکھڑاہٹ‘ تھوڑی سی کجروی‘ معمولی سی ذہنی اُپج کئی رکاوٹیں کھڑی کر سکتی ہیں۔ شادی کرنا گو ہر شخص کا حق ہے مگر ایک عوامی لیڈر کا ذاتی معاملہ نہیں ہوتا۔ اس بات کو نہ صرف سمجھنے بلکہ گرہ سے باندھنے کی ضرورت ہے۔ نام لینا نامناسب ہو گا لیکن یہاں کئی طلاقیں صرف اس لئے رکی رہیں یا رکی ہوئی ہیں کہ اس سے فریقین کی سیاسی زندگی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔ جمائما سے علیحدگی‘ ریحام خان سے اس وقت شادی جب قوم آرمی پبلک سکول کے بچوں کی شہادت کا سوگ منا رہی تھی۔ دس ماہ کے قلیل عرصے میں ڈرامائی انداز میں طلاق۔ گلالئی کو تو "PLANT" کیا گیا تھا۔ مقابلہ جب مافیا سے ہو تو دہری احتیاط کرنا پڑتی ہے۔ یہ لوگ مخالفین کی سانسیں تک گن لیتے ہیں۔ قدموں کی چاپ سن سکتے ہیں۔ ان کی سمت دریافت کر لیتے ہیں۔
لیکن اب جو خان صاحب نے قدم اٹھایا ہے اسے "MOTHER OF ALL MISTAKES" کہا جا سکتا ہے۔ وہ بھی ایسے وقت میں جب خان کے کامیاب قدم بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے۔ سیاسی حریف ’’بیک فٹ‘‘ پر آ گیا تھا۔ ایک وزیراعظم کی نااہلی‘ اس پر مقدمات کی بھرمار‘ چھوٹے بھائی پر دور ابتلا‘ ان پر مذہبی جماعتوں کی یلغار‘ ماڈل ٹاؤن کے سانحے کی صدائے بازگشت… خان نے ایک جھٹکے میں ان سب واقعات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ دشمن کی بجائے اپنی ہی کلائی مروڑ دی ہے۔ ان کی پارٹی کا ہراول دستہ جو مخالفین پر تابڑ توڑ حملے کر رہا تھا‘ بیک فٹ پر آ گیا ہے۔ عجب تاویلیں پیش کی جا رہی تھیں۔ شادی خان کا ذاتی معاملہ ہے۔ شرعاً جائز ہے۔ ’’تھوڑی سی جو پی لی ہے‘ ڈاکہ تو نہیں ڈالا‘ چوری تو نہیں کی ہے‘‘ میاں صاحب اسے ڈاکہ قرار دے رہے ہیں۔ پہلے تو انہوں نے خان پر ’’جوڑی‘‘ چھوڑی ہوئی تھی۔ سیاسی گلو بٹ۔ اب لنگوٹ کس کر وہ خود میدان میں اتر آئے ہیں۔ ایک مرید نے پانچ بچوں کی پیرنی ماں سے شادی کر لی ہے یا عرضی گزار دی ہے۔ بچوں کے بھی بچے‘ طلاق شدہ خاوند غم و یاس کی تصویر بنا ہوا۔ کملایا اور گہنایا ہوا چہرہ سرمئی رنگ کہ ہے ساعتِ بیزار کا رنگ۔
اب ہو گا کیا؟ خان کے تیزی سے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے ہیں۔ وقت اور حالات نے نہیں‘ اس نے خود اپنے پاؤں میں زنجیر ڈال دی ہے۔ خود کردہ را علاجے نیست۔ عمران کے بقول اس نے صرف پروپوز کیا ہے۔ بالفرض اس شور مشین یا منفی پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر وہ انکار کر دیتی ہے تو پارٹی کو خاصا نقصان ہو گا۔ اور اگر یہ ثابت ہو گیا کہ نکاح ہو چکا ہے تو پھر ’’صادق اور امین‘‘ کی زد میں آنے کا امکان بڑھ جائے گا۔ اس EPISODE کو جس زاویے سے بھی دیکھیں ’’خطرے ہی خطرے ہیں تیرے واسطے‘‘ کا سماں نظر آتا ہے۔ پارٹی میں بزرجمہروں کی کمی نہیں ہے۔ شاہ محمود جیسے زیرک سیاست دان ہیں۔ نعیم بخاری جیسے ممتاز قانون دان ہیں۔ بابر اعوان ٹائپ گرم و سرد چشیدہ‘ انسان ہیں۔ سول سروس کے مرغانِ کلنگ ہیں۔ کسی نے بھی خان کو مشورہ نہیں دیا کہ حضور چند ماہ کی بات ہے۔ الیکشن ہو لینے دیں۔ ایک مرتبہ گوہرِ مراد ہاتھ آ جائے تو پھر جو جی چاہے کر لیں۔ دلہن کے طلاق نامہ پر بھی وقت کی گرد پڑ چکی ہو گی۔ ویسے بھی ایک مقبول غیر شادی شدہ وزیراعظم کے لئے میدان وسیع اور کھلا ہو گا۔ حسیناؤں کا ایک ہجوم شادی کا خواہش مند ہو گا۔ اس وقت تک ہو سکتا ہے خان کے خیالات ہی بدل جائیں۔؎
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگیِ داماں بھی تھا
پھر ان مخالفین کا منہ بھی بند ہو جائے گا جو کہتے ہیں کہ جو شخص امور خانہ داری صحیح طرح سے نہیں نبٹا سکتا‘ وہ بیس کروڑ لوگوں کا ملک کیسے چلائے گا؟ پچھلی مرتبہ تو خان شومئی قسمت سے گرا تھا۔ اس مرتبہ HE HAS SHOT HIMSELF IN THE FOOT