صبح صبح میں موٹر وے سے اسلام آباد جا رہی ہوں۔ وہاں پرائم منسٹر ہاﺅس میں ساری اتحادی جماعتوں کی ایک ضروری میٹنگ ہے۔سیاست میں یونہی بے سکوں کٹتی ہیں زندگانیاں! میں چاروں طرف دیکھتی ہوں۔ خزاں کا پورا تسلط ہے تاحد نظر دائیں بائیں نظر آنے والے درخت پودے، جھاڑیاں، روشیں مرجھا چکے ہیں۔ مجھے خزاں کا یہ موسم بہت پسند ہے.... سارے درخت سر جھکا لیتے ہیں۔ جیسے دست بستہ آنکھیں موندے کسی کے حضور میں کھڑے ہوں۔ ساکت، صامت پتے ازخود سرنگوں ہو جاتے ہیں۔ نہ ہلتے ہیں نہ جلتے ہیں، پتہ نہیں کس کے اشارے پر بن چاپ کے زمین پر گرتے رہتے ہیں۔ ہرے بھرے درختوں کے پیرہن ملگجے ہو گئے ہیں۔ درختوں کی چھال جیسے جل چکی ہے....پرندے اب بھی ان درختوں پر آتے ہوں گے مگر ان کے آنگن میں سناٹا ہے۔ ایک پراسرار مہیب.... جس نے ماحول کو جادوئی بنا دیا ہے.... یہ کون ہے۔ جو دن رات کی زنجیروں میں موسم باندھ کے انسانوں کی نگری میں بھیج دیتا ہے.... زرد پتوں کے ڈھیر زمین کے سینے پر تھکے ہوئے نومولود کی طرح سو رہے ہیں۔ سورج بھی آجکل مصلحت آمیز ہو گیا ہے.... جب دھوپ کی شدید ضرورت تھی۔ تب دھوپ بھی شرمیلی بن گئی.... اسلام آباد جیسے خوبصورت شہر میں بھی خزاں پوری طرح براجماں ہے.... اونچی نیچی روشوں پر زرد پتے دوڑتے پھرتے ہیں اور ہوا ان سے کہتی ہے....
شاخ سے ٹوٹے ہوئے پتے کی کیسی آبرو؟ خود سے ناتا توڑ کے تو کس قدر تنہا ہوا!
انسان کی زندگی میں بھی اتنے ہی موسم آتے ہیں اور اسی طرح رت بدلتی ہے۔ کلام پاک میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے ہی بنائے ہوئے بندے کی جابجا توضیح بھی کی ہے۔ کمزور، جلد باز، اتاولا، باولا، حرص و ہوس کا مارا ہوا، فسادی بھی، سب کچھ سمیٹ کر اپنی جھولی میں ڈال لینے والا.... اور پھر بھی ان صفتوں والا جسے اشرف المخلوقات کہا جائے۔! مجھے خزاں کا موسم اسلئے بھی پسند ہے کہ یہ اپنے پیچھے ہمیشہ ایک نئے اور خوبصورت موسم کے آنے کی نوید دیتا ہے۔ بہار کی نوید.... نئی زندگی کی نوید....
کتنی یادیں غم امروز سے جاگ اٹھتی ہیں گرتے پتوں سے بہاروں کا خیال آتا ہے
مگر یہ سب کچھ ہر سال ہوتا ہے۔ خزاں کے بعد بہار آتی ہے.... مگر انسان اتنا ناداں ہے کہ سدا ایک ہی موسم میں رہنا چاہتا ہے۔ موسم کو بدلنے سے بھلا کون روک سکا ہے۔
ہمارے ہاں ایک جلد بازی کا کلچر بن چکا ہے۔ آپ ایک چوراہے پر کھڑے ہو کر دیکھیں۔ ہر کوئی جلدی میں ہے۔ اگر کسی بڑی شاہراہ پر کسی وجہ سے ٹریفک رک گئی ہے.... تو لوگوں کی بے چینی کا یہ عالم ہے راستے بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ کوئی موٹر دائیں سے نکلنا چاہتی ہے کوئی بائیں کی طرف مڑ جاتی ہے۔ کوئی پیچھے جانے کی تگ و دو میں اپنے آپ کو بیچ سڑک پھنسا دیتی ہے.... اگر اس ٹریفک کے اندر رکشہ بھی ہے تو بس پھر اس کے کرتب دیکھنے کے قابل ہوں گے۔ گلہری کی طرح، سر ادھر سے نکالے گا اُدھر سے نکالے گا۔ اس شاہراہ پر ٹریفک کی اتنی بے قاعدگی ہو چکی ہو گی کہ اگر سگنل کھل بھی جائے تب بھی لوگ وقت پر سڑک پار نہیں کر سکیں گے۔ اگر وہ سکون سے اپنی اپنی جگہ پر ایستادہ رہتے تو آخر کار ٹریفک نے کھل جانا تھا.... دُکانوں پہ جا کر دیکھ لیجئے۔ جو گاہک بعد میں آئے گا۔ وہ ہاتھ آگے بڑھا کے شور مچانے لگے گا.... بھئی مجھے ذرا جلدی سے دے دو.... مجھے جانا ہے.... ہر کوئی نہ صرف جلدی میں ہے بلکہ دوسروں کا حق بھی مارنا چاہتا ہے.... ہمارا ٹریفک ہماری سیاست کی ایک چھوٹی سی تصویر ہے.... کوئی دائیں پھنسا ہے، کوئی بائیں.... کوئی آگے سے نکل جانا چاہتا ہے۔ کوئی پیچھے سے.... تصادم کا خطرہ رہتا ہے۔ خزاں آلودہ درختوں کی طرح پوری قوم سناٹے میں ہے۔ دھیرے دھیرے خشک اور زرد پتے گرتے جا رہے ہیں۔!
دنیا میں باقی رہ جانے والی چیز عمل کی معراج ہے.... اقتدار کی معراج.... دولت کی معراج.... شہرت کی معراج، عیش و عشرت کی معراج عمل کے آگے ہیچ ہے۔ سچ ایک بہت بڑی قوت ہے۔ جس کو کسی زمانے میں بھی دبایا نہیں جا سکا....ہر کوئی اندر باہر پوچھ رہا ہے.... اب کیا ہو گا....؟صائب الرائے حضرات بڑھ بڑھ کر تجزیے پیش کر رہے ہیں
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا....
ایک عجیب بات انسانی فطرت میں ہے۔ تماشہ کی طلب میں رہتی ہے.... وہ سڑک پر کوئی حادثے کی صورت میں ہو یا سٹیج پر ہو رہا ہو.... مقتدر، مشہور و معروف اور حد سے زیادہ دولت مند لوگوں کی ایک بدنصیبی بھی ہوتی ہے کہ ملک میں ایک نمعلوم سا طبقہ ہمیشہ بلاوجہ حسد میں مبتلا رہتا ہے۔ ہمیشہ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں افواہیں گردش میں رہتی ہیں اور ایسی افواہوں کو ایسا طبقہ ہوا دیتا رہتا ہے.... سمجھ میں نہ آنے والی بات یہ ہے کہ پیسے کو کوئی سمجھ نہیں سکا اکثر لوگ پیسے کے پیچھے دیوانے ہوتے ہیں۔ جائز ناجائز طریقے سے پیسہ جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ پھر پیسے کے عذاب میں ہی پھنس جاتے ہیں۔ یہ پیسہ ہے کیا....؟ جب کوئی مرنے لگتا ہے تو اسے بچا نہیں سکتا۔ جب کو ئی عہدہ جانے لگتا ہے تو اسے واپس دلا نہیں سکتا۔جب کوئی گھناﺅنا الزام لگنے لگتا ہے تو اسے دھو نہیں سکتا۔ جب دل ٹوٹ جاتا ہے تو اسے جوڑ نہیں سکتا۔ جب دلوں میں میل جمع ہو جائے تو اسے صاف نہیں کر سکتا۔ جب وقار کے شیشے پر بال آ جائے تو اسے مٹا نہیں سکتا۔ پھر بھی دنیا اسی پیسے کی دیوانی ہے۔ ہمارے ملک میں کرپشن بہت زیادہ ہے۔ یہ حقیقت ہے۔ یہ مت سمجھیں کہ صرف اوپر والے طبقے میں ہے۔ اوپر سے لیکر چھابڑی والے تک.... ہر کوئی اپنے مزاج اور اپنے ماحول کی کرپشن کر لیتا ہے۔ اور جب کرپشن کرنے والے پکڑے جاتے ہیں تو کیا باقی لوگ اس سے عبرت پکڑتے ہیں۔ نہیں وہ کہتے ہیں وہ بے وقوف تھا پکڑا گیا۔ میں سیانا ہوں۔ مجھے کوئی پکڑ نہیں سکتا۔ مگر پکڑ تو ہمیشہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ حالات میں بہت ابہام آ چکا ہے۔ اب انہیں کھل جانا چاہئے دیکھئے آج کی میٹنگ میں کیا فیصلے ہوتے ہیں اور آج سوموار کا اجلاس کیا گل کھلاتا ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ مثبت رول مسلم لیگ ق کا نظر آ رہا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب لوگ کہہ رہے تھے کہ اب مسلم لیگ ق کا وجود نہیں رہا۔ کسی سیاسی پارٹی کو آسانی سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ پارٹیاں اپنے لیڈروں کی وجہ سے باقی رہتی ہیں۔ بجلی، پانی اور گیس بڑے مسئلے ہیں اور اب اس کے بعد یہ نیا ابہام.... کب کھل کر برسیں گے بادل.... کب موسم صاف ہو گا....؟....
خزاں نے آ کے کیسا کر د یا ھو کا سماں پیدا چمن گونجا ہوا کل تک تو تھا شورِ عنادل سے!
شاخ سے ٹوٹے ہوئے پتے کی کیسی آبرو؟ خود سے ناتا توڑ کے تو کس قدر تنہا ہوا!
انسان کی زندگی میں بھی اتنے ہی موسم آتے ہیں اور اسی طرح رت بدلتی ہے۔ کلام پاک میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے ہی بنائے ہوئے بندے کی جابجا توضیح بھی کی ہے۔ کمزور، جلد باز، اتاولا، باولا، حرص و ہوس کا مارا ہوا، فسادی بھی، سب کچھ سمیٹ کر اپنی جھولی میں ڈال لینے والا.... اور پھر بھی ان صفتوں والا جسے اشرف المخلوقات کہا جائے۔! مجھے خزاں کا موسم اسلئے بھی پسند ہے کہ یہ اپنے پیچھے ہمیشہ ایک نئے اور خوبصورت موسم کے آنے کی نوید دیتا ہے۔ بہار کی نوید.... نئی زندگی کی نوید....
کتنی یادیں غم امروز سے جاگ اٹھتی ہیں گرتے پتوں سے بہاروں کا خیال آتا ہے
مگر یہ سب کچھ ہر سال ہوتا ہے۔ خزاں کے بعد بہار آتی ہے.... مگر انسان اتنا ناداں ہے کہ سدا ایک ہی موسم میں رہنا چاہتا ہے۔ موسم کو بدلنے سے بھلا کون روک سکا ہے۔
ہمارے ہاں ایک جلد بازی کا کلچر بن چکا ہے۔ آپ ایک چوراہے پر کھڑے ہو کر دیکھیں۔ ہر کوئی جلدی میں ہے۔ اگر کسی بڑی شاہراہ پر کسی وجہ سے ٹریفک رک گئی ہے.... تو لوگوں کی بے چینی کا یہ عالم ہے راستے بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ کوئی موٹر دائیں سے نکلنا چاہتی ہے کوئی بائیں کی طرف مڑ جاتی ہے۔ کوئی پیچھے جانے کی تگ و دو میں اپنے آپ کو بیچ سڑک پھنسا دیتی ہے.... اگر اس ٹریفک کے اندر رکشہ بھی ہے تو بس پھر اس کے کرتب دیکھنے کے قابل ہوں گے۔ گلہری کی طرح، سر ادھر سے نکالے گا اُدھر سے نکالے گا۔ اس شاہراہ پر ٹریفک کی اتنی بے قاعدگی ہو چکی ہو گی کہ اگر سگنل کھل بھی جائے تب بھی لوگ وقت پر سڑک پار نہیں کر سکیں گے۔ اگر وہ سکون سے اپنی اپنی جگہ پر ایستادہ رہتے تو آخر کار ٹریفک نے کھل جانا تھا.... دُکانوں پہ جا کر دیکھ لیجئے۔ جو گاہک بعد میں آئے گا۔ وہ ہاتھ آگے بڑھا کے شور مچانے لگے گا.... بھئی مجھے ذرا جلدی سے دے دو.... مجھے جانا ہے.... ہر کوئی نہ صرف جلدی میں ہے بلکہ دوسروں کا حق بھی مارنا چاہتا ہے.... ہمارا ٹریفک ہماری سیاست کی ایک چھوٹی سی تصویر ہے.... کوئی دائیں پھنسا ہے، کوئی بائیں.... کوئی آگے سے نکل جانا چاہتا ہے۔ کوئی پیچھے سے.... تصادم کا خطرہ رہتا ہے۔ خزاں آلودہ درختوں کی طرح پوری قوم سناٹے میں ہے۔ دھیرے دھیرے خشک اور زرد پتے گرتے جا رہے ہیں۔!
دنیا میں باقی رہ جانے والی چیز عمل کی معراج ہے.... اقتدار کی معراج.... دولت کی معراج.... شہرت کی معراج، عیش و عشرت کی معراج عمل کے آگے ہیچ ہے۔ سچ ایک بہت بڑی قوت ہے۔ جس کو کسی زمانے میں بھی دبایا نہیں جا سکا....ہر کوئی اندر باہر پوچھ رہا ہے.... اب کیا ہو گا....؟صائب الرائے حضرات بڑھ بڑھ کر تجزیے پیش کر رہے ہیں
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا....
ایک عجیب بات انسانی فطرت میں ہے۔ تماشہ کی طلب میں رہتی ہے.... وہ سڑک پر کوئی حادثے کی صورت میں ہو یا سٹیج پر ہو رہا ہو.... مقتدر، مشہور و معروف اور حد سے زیادہ دولت مند لوگوں کی ایک بدنصیبی بھی ہوتی ہے کہ ملک میں ایک نمعلوم سا طبقہ ہمیشہ بلاوجہ حسد میں مبتلا رہتا ہے۔ ہمیشہ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں افواہیں گردش میں رہتی ہیں اور ایسی افواہوں کو ایسا طبقہ ہوا دیتا رہتا ہے.... سمجھ میں نہ آنے والی بات یہ ہے کہ پیسے کو کوئی سمجھ نہیں سکا اکثر لوگ پیسے کے پیچھے دیوانے ہوتے ہیں۔ جائز ناجائز طریقے سے پیسہ جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ پھر پیسے کے عذاب میں ہی پھنس جاتے ہیں۔ یہ پیسہ ہے کیا....؟ جب کوئی مرنے لگتا ہے تو اسے بچا نہیں سکتا۔ جب کو ئی عہدہ جانے لگتا ہے تو اسے واپس دلا نہیں سکتا۔جب کوئی گھناﺅنا الزام لگنے لگتا ہے تو اسے دھو نہیں سکتا۔ جب دل ٹوٹ جاتا ہے تو اسے جوڑ نہیں سکتا۔ جب دلوں میں میل جمع ہو جائے تو اسے صاف نہیں کر سکتا۔ جب وقار کے شیشے پر بال آ جائے تو اسے مٹا نہیں سکتا۔ پھر بھی دنیا اسی پیسے کی دیوانی ہے۔ ہمارے ملک میں کرپشن بہت زیادہ ہے۔ یہ حقیقت ہے۔ یہ مت سمجھیں کہ صرف اوپر والے طبقے میں ہے۔ اوپر سے لیکر چھابڑی والے تک.... ہر کوئی اپنے مزاج اور اپنے ماحول کی کرپشن کر لیتا ہے۔ اور جب کرپشن کرنے والے پکڑے جاتے ہیں تو کیا باقی لوگ اس سے عبرت پکڑتے ہیں۔ نہیں وہ کہتے ہیں وہ بے وقوف تھا پکڑا گیا۔ میں سیانا ہوں۔ مجھے کوئی پکڑ نہیں سکتا۔ مگر پکڑ تو ہمیشہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ حالات میں بہت ابہام آ چکا ہے۔ اب انہیں کھل جانا چاہئے دیکھئے آج کی میٹنگ میں کیا فیصلے ہوتے ہیں اور آج سوموار کا اجلاس کیا گل کھلاتا ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ مثبت رول مسلم لیگ ق کا نظر آ رہا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب لوگ کہہ رہے تھے کہ اب مسلم لیگ ق کا وجود نہیں رہا۔ کسی سیاسی پارٹی کو آسانی سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ پارٹیاں اپنے لیڈروں کی وجہ سے باقی رہتی ہیں۔ بجلی، پانی اور گیس بڑے مسئلے ہیں اور اب اس کے بعد یہ نیا ابہام.... کب کھل کر برسیں گے بادل.... کب موسم صاف ہو گا....؟....
خزاں نے آ کے کیسا کر د یا ھو کا سماں پیدا چمن گونجا ہوا کل تک تو تھا شورِ عنادل سے!