محمد صادق جرال
پاکستان اور بھارت کے درمیان طویل وقفہ کے بعد روایتی اور جوہری ہتھیاروں کے حوالہ سے مذاکرات اعتمادسازی کے اقدامات زیربحث آئے۔ تمام مکاتب فکر کے لوگ آپس میں مفاہمت چاہتے ہیں۔ رائے عامہ کی بھاری اکثریت مذاکرات کے ذریعے دونوں ملکوں کی دوستی کی فضا کے حق میں ہیں لیکن یہ عمل یکطرفہ اور خیرسگالی صرف پاکستان کی طرف سے ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل معاملہ مسئلہ کشمیر ہے جو کہ قیام پاکستان کے وقت باﺅنڈری کمشن کی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت نے پیدا کیا یہ گٹھ جوڑ اسلام دشمن تھا۔ 1948ءمیں پاکستان اور بھارت کے درمیان اقوام متحدہ نے عارضی جنگ بند کروائی تھی۔ ان منظورشدہ قراردادوں کی روشنی میں بھارت کو کشمیری عوام کو حق خودارادیت دینا چاہئے مگر 64 سال گزرنے کے بعد بھی بھارت کا ظلم و ستم مقبوضہ کشمیر میں جاری ہے۔ درجنوں نہتے کشمیریوں کو روز شہید کیا جاتا ہے اور کشمیر کی زمین پر اُنکا عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ اُنکو حق آزادی دینے کےلئے تیار نہیں اس طرح بھارت اور پاکستان کے درمیان طے پانے والا سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر سے بہنے والے دریاﺅں پر 64 سے زیادہ غیرقانونی آبی ذخائر کی تعمیر مکمل کر چکا ہے۔ اب افغانستان میں دریائے کابل کا رخ موڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسکی کوششوں کا مقصد پاکستان کی سرزمین کو بنجر میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان قیام پاکستان سے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے جو کہ مذاق ہے ان سے پاکستان اور مسئلہ کشمیر کا کوئی مثبت حل سامنے نہیں آیا۔ محض وقت گزرنے اور پوری دنیا کو بے وقوف بنانے کےلئے ہے اور مذاکرات کی آڑ میں بھارت کئی فوائد حاصل کر چکا ہے اور مسئلہ کشمیر اور پاکستان کو نقصان ہوا ہے اور اقوام متحدہ کی مسلسل خلاف ورزیاں کر چکا ہے اگر اس کو امریکہ اور اسرائیل کی آشیرباد حاصل نہ ہو تو کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کی وجوہ سے اقوام متحدہ اُسکے خلاف کارروائی کر چکی ہوتی۔ بھارت پاکستان کا مکار اور ازلی دشمن ہے جس نے کبھی پاکستان کو تسلیم نہیں کیا اور اب بھی اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھ رہا ہے۔ امن کی آشا صرف پاکستان میں اپنے مخصوص افراد استعمال کرنے کےلئے اور اس طبقہ کو گمراہ کرنے کےلئے ڈرامہ رچایا جارہا ہے اور تجارت کی آڑ میں پاکستان کو زرعی اور معاشی طور پر کمزور کرنا چاہتا ہے۔ پوری دنیا کو باور کرا رہا ہے۔ بھارت پرامن ہے اور تمام معاملات افہام و تفہیم کے ذریعہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کا حل صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد میں مضمر ہے لیکن ہماری سفارتکاری اتنی کمزور اور بے فائدہ ہو چکی ہے کہ اقوام متحدہ پر من حیث القوم کوئی دباﺅ ڈال نہ سکو۔ ایسے لگتا ہے کہ اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر حل نہیں کرانا چاہتا۔ ہماری کمزوری اور غلط سفارتی پوزیشن کی وجہ سے دنیا کا کوئی مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ جس سے بھارت فائدہ اٹھا رہا ہے اور بھارت کی سرکاری اور تاخیری حربہ بھی اسکو حل نہیں ہونے دیتے۔ اس صورتحال میں بھارت کوو پاکستان آلو پیاز کی باتیں کرنے کی بجائے کھل کر بات بتائے کہ مسئلہ کشمیر عوام کا مسئلہ ہے اور پاکستان کےلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اور امریکہ پر بھی واضح کریں اگر مسئلہ کشمیر حل نہیں ہونا تو بھارت سے ہماری جنگ ناگزیر ہے کیونکہ 1947ءکے بعد بالخصوص 1990ءکے بعد بھی شہید ہونے والے اور اُنکے عزیز بالخصوص عورتیں اور بچے ہم سے تقاضہ کرتے ہیں کہ ہم نے اُنکی خون کی کیا قدر کی ہے۔ سات لاکھ بھارتی فوج سے نہتے لوگ پتھروں سے لڑ کر جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ پاکستانی حکومت اور عوام کو مدد کےلئے پکار رہے ہیں۔ ہمیں روایت سے ہٹ کر بتانا ہوگا کہ اگر بھارت مذاکرات میں مسئلہ حل نہیں کرتا تو ہمارے پاس واحد راستہ جہاد ہے۔ قائداعظم کے فرمان کے مطابق کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے یہ کوئی جذباتی بات نہ تھی بلکہ حقیقت تھی اور ہے کیونکہ پاکستان کی حیثیت زراعت کی صورتحال سامنے ہے۔ ہمارے پاس بجلی ہے اور نہ پانی دریاﺅں پر بھارت کے قبضہ سے پاکستان میں خشک سالی ہے اور مکاری سے بھارت ہمیں ریگستان میں تبدیل کر چکا ہے۔ اس تناظر میں بھارت سے امید رکھنا کہ وہ کشمیری عوام کو حق خودارادیت دے گا۔ خوش فہمی ہے۔ کشمیر تمدنی، ثقافتی، جغرافیائی، مذہبی اور معاشرتی طور پر پاکستان کا حصہ ہے۔ بھارت میں بھی بعض دانشور اور صاحب رائے لوگ عسکری ماہرین اس بات کو برملا کہہ رہے ہیں۔ جبراً کشمیر پر قبضہ زیادہ عرصہ برقرار رکھنا مشکل ہے۔ جیسے مشہور دانشور ارون دتی رائے نے برملا اظہار کیا تو اُس پر بغاوت کا مقدمہ قائم کیا گیا۔ بھارت حکومت کی کشمیر کمیٹی اور مذاکرات کرنے والی کمیٹی کے چیئرمین پپڈگارنگر نے بھی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کی اکثریت پاکستان کے ساتھ جانا چاہتی ہے اور مقبوضہ کشمیر میں پاکستان نواز افراد کی تعداد کثیر ہے اور کشمیر کا فیصلہ کرنے سے پہلے کشمیری عوام کی رائے لی جائے۔ ایک خبر جو کہ وفاقی وزارت تجارت کے حوالہ سے جولائی سے نومبر 2011ءتک بھارت کے ساتھ تجارت میں 38 کروڑ ڈالر کا خسارہ ہو جو کہ گذشتہ سال کے مقابلہ میں 4 کروڑ ڈالر زیادہ ہے۔ افسوس کہ پھر بھی خسارہ کی تجارت جاری ہے اور کشمیری عوام کے زخموں پر نمک لگایا جارہا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان طویل وقفہ کے بعد روایتی اور جوہری ہتھیاروں کے حوالہ سے مذاکرات اعتمادسازی کے اقدامات زیربحث آئے۔ تمام مکاتب فکر کے لوگ آپس میں مفاہمت چاہتے ہیں۔ رائے عامہ کی بھاری اکثریت مذاکرات کے ذریعے دونوں ملکوں کی دوستی کی فضا کے حق میں ہیں لیکن یہ عمل یکطرفہ اور خیرسگالی صرف پاکستان کی طرف سے ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل معاملہ مسئلہ کشمیر ہے جو کہ قیام پاکستان کے وقت باﺅنڈری کمشن کی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت نے پیدا کیا یہ گٹھ جوڑ اسلام دشمن تھا۔ 1948ءمیں پاکستان اور بھارت کے درمیان اقوام متحدہ نے عارضی جنگ بند کروائی تھی۔ ان منظورشدہ قراردادوں کی روشنی میں بھارت کو کشمیری عوام کو حق خودارادیت دینا چاہئے مگر 64 سال گزرنے کے بعد بھی بھارت کا ظلم و ستم مقبوضہ کشمیر میں جاری ہے۔ درجنوں نہتے کشمیریوں کو روز شہید کیا جاتا ہے اور کشمیر کی زمین پر اُنکا عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ اُنکو حق آزادی دینے کےلئے تیار نہیں اس طرح بھارت اور پاکستان کے درمیان طے پانے والا سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر سے بہنے والے دریاﺅں پر 64 سے زیادہ غیرقانونی آبی ذخائر کی تعمیر مکمل کر چکا ہے۔ اب افغانستان میں دریائے کابل کا رخ موڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسکی کوششوں کا مقصد پاکستان کی سرزمین کو بنجر میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان قیام پاکستان سے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے جو کہ مذاق ہے ان سے پاکستان اور مسئلہ کشمیر کا کوئی مثبت حل سامنے نہیں آیا۔ محض وقت گزرنے اور پوری دنیا کو بے وقوف بنانے کےلئے ہے اور مذاکرات کی آڑ میں بھارت کئی فوائد حاصل کر چکا ہے اور مسئلہ کشمیر اور پاکستان کو نقصان ہوا ہے اور اقوام متحدہ کی مسلسل خلاف ورزیاں کر چکا ہے اگر اس کو امریکہ اور اسرائیل کی آشیرباد حاصل نہ ہو تو کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کی وجوہ سے اقوام متحدہ اُسکے خلاف کارروائی کر چکی ہوتی۔ بھارت پاکستان کا مکار اور ازلی دشمن ہے جس نے کبھی پاکستان کو تسلیم نہیں کیا اور اب بھی اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھ رہا ہے۔ امن کی آشا صرف پاکستان میں اپنے مخصوص افراد استعمال کرنے کےلئے اور اس طبقہ کو گمراہ کرنے کےلئے ڈرامہ رچایا جارہا ہے اور تجارت کی آڑ میں پاکستان کو زرعی اور معاشی طور پر کمزور کرنا چاہتا ہے۔ پوری دنیا کو باور کرا رہا ہے۔ بھارت پرامن ہے اور تمام معاملات افہام و تفہیم کے ذریعہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کا حل صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد میں مضمر ہے لیکن ہماری سفارتکاری اتنی کمزور اور بے فائدہ ہو چکی ہے کہ اقوام متحدہ پر من حیث القوم کوئی دباﺅ ڈال نہ سکو۔ ایسے لگتا ہے کہ اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر حل نہیں کرانا چاہتا۔ ہماری کمزوری اور غلط سفارتی پوزیشن کی وجہ سے دنیا کا کوئی مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ جس سے بھارت فائدہ اٹھا رہا ہے اور بھارت کی سرکاری اور تاخیری حربہ بھی اسکو حل نہیں ہونے دیتے۔ اس صورتحال میں بھارت کوو پاکستان آلو پیاز کی باتیں کرنے کی بجائے کھل کر بات بتائے کہ مسئلہ کشمیر عوام کا مسئلہ ہے اور پاکستان کےلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اور امریکہ پر بھی واضح کریں اگر مسئلہ کشمیر حل نہیں ہونا تو بھارت سے ہماری جنگ ناگزیر ہے کیونکہ 1947ءکے بعد بالخصوص 1990ءکے بعد بھی شہید ہونے والے اور اُنکے عزیز بالخصوص عورتیں اور بچے ہم سے تقاضہ کرتے ہیں کہ ہم نے اُنکی خون کی کیا قدر کی ہے۔ سات لاکھ بھارتی فوج سے نہتے لوگ پتھروں سے لڑ کر جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ پاکستانی حکومت اور عوام کو مدد کےلئے پکار رہے ہیں۔ ہمیں روایت سے ہٹ کر بتانا ہوگا کہ اگر بھارت مذاکرات میں مسئلہ حل نہیں کرتا تو ہمارے پاس واحد راستہ جہاد ہے۔ قائداعظم کے فرمان کے مطابق کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے یہ کوئی جذباتی بات نہ تھی بلکہ حقیقت تھی اور ہے کیونکہ پاکستان کی حیثیت زراعت کی صورتحال سامنے ہے۔ ہمارے پاس بجلی ہے اور نہ پانی دریاﺅں پر بھارت کے قبضہ سے پاکستان میں خشک سالی ہے اور مکاری سے بھارت ہمیں ریگستان میں تبدیل کر چکا ہے۔ اس تناظر میں بھارت سے امید رکھنا کہ وہ کشمیری عوام کو حق خودارادیت دے گا۔ خوش فہمی ہے۔ کشمیر تمدنی، ثقافتی، جغرافیائی، مذہبی اور معاشرتی طور پر پاکستان کا حصہ ہے۔ بھارت میں بھی بعض دانشور اور صاحب رائے لوگ عسکری ماہرین اس بات کو برملا کہہ رہے ہیں۔ جبراً کشمیر پر قبضہ زیادہ عرصہ برقرار رکھنا مشکل ہے۔ جیسے مشہور دانشور ارون دتی رائے نے برملا اظہار کیا تو اُس پر بغاوت کا مقدمہ قائم کیا گیا۔ بھارت حکومت کی کشمیر کمیٹی اور مذاکرات کرنے والی کمیٹی کے چیئرمین پپڈگارنگر نے بھی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کی اکثریت پاکستان کے ساتھ جانا چاہتی ہے اور مقبوضہ کشمیر میں پاکستان نواز افراد کی تعداد کثیر ہے اور کشمیر کا فیصلہ کرنے سے پہلے کشمیری عوام کی رائے لی جائے۔ ایک خبر جو کہ وفاقی وزارت تجارت کے حوالہ سے جولائی سے نومبر 2011ءتک بھارت کے ساتھ تجارت میں 38 کروڑ ڈالر کا خسارہ ہو جو کہ گذشتہ سال کے مقابلہ میں 4 کروڑ ڈالر زیادہ ہے۔ افسوس کہ پھر بھی خسارہ کی تجارت جاری ہے اور کشمیری عوام کے زخموں پر نمک لگایا جارہا ہے۔