طاہر جمیل نورانی
ہم برطانوی خوشحال پاکستانیوں کے جذبہ¿ سیاست کا بھی جواب نہیں، انگلستان آنے کا بنیادی مقصد کچھ اور تھا.... مگر جونہی خوشحالی کا یہ مقصد پورا ہوا ہم نے اپنی توجہ وطن عزیز کی سیاست پر اس لئے مرکوز کر لی کہ روٹی، کپڑے اور مکان کے مسائل سے ہمیں نجات مل جائے.... اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نوبت اب یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ برطانیہ مےں بسنے والے 80فیصد پاکستانی اور کشمیریوں نے پاکستانی سیاست کو یہاں قائم رکھنے اور نئی نسل کو پاکستانی لیڈروں سے قائم ”موسمی تعلقات“ کی خبروں کو اخبارات مےں چھپوا کر فائلوں مےں رکھنے کا شوق پال رکھا ہے.... تاکہ ”سیاسی کھڑپنچیوں“ کی محفلوں مےں یہ فائلیںزیادہ محب وطن ثابت کر سکیں....!!!
پاکستان سے ”امپورٹ“ کی جانے والی سیاست جس مےں مسلم لیگ الف، جیم، قاف، نون، ف، اور ہم خیال، کے 6 دھڑے.... پیپلز پارٹی کے 2 دھڑے.... جے یو آئی، جے یو پی، ایم کیو ایم، سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ، علاقائی پارٹیاں اور حال ہی مےں عوامی پذیرائی حاصل کرنے والی عمران خان کی تحریک انصاف اور جنرل پرویز مشرف کی اے پی ایم ایل کے علاوہ اڑھائی سو کے لگ بھگ کئی لسانی اور علاقائی سیاسی پارٹیاں شامل ہےں برطانیہ مےں ان کی چاندی ہی چاندی ہے....؟
پاکستان سے امپورٹ کی گئی اس سیاست کے بارے مےں جہاں سنجیدہ اور انٹیکچول طبقہ پریشان ہے وہاں برطانیہ کے گورے اور گوریاں بھی اب یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہےں کہ آپ لوگوں کو یہاں پاکستانی سیاست کرنے کا اگر اتنا ہی شوق ہے تو اس شوق کی تکمیل کےلئے آپ خود پاکستان کیوں چلے نہیں جاتے....؟ یہ کس طرح کا سیاسی شوق کے پارٹیوں کے مرکزی لیڈر اور قیادت تو پاکستان مےں ہو اور حصول روزگار کے لئے یہاں آئے آپ لوگ اپنی قوت، دولت اور وقت ان کے لئے وقف کرتے رہیں....؟ گورے تو اب یہ بھی طعنہ دینے لگے ہےں کہ ہم کیسے پاکستانی ہےں.... جن کی ریلوے، قومی و فضائی کمپنی پی آئی اے، بجلی، گیس، ادارے اور لاءاینڈ آرڈر کی صورت تو دن بدن مخدوش تر ہوتی چلی جا رہی ہے.... اور آپ ہےں کہ یہاں پاکستانی عوام کے بجائے پاکستانی سیاستدانوں کو ”لنچ اور ڈنر“ دینے مےں اپنی تمام تر دولت اور وقت ضائع کر رہے ہےں....! جبکہ دوسری جانب یہاں مقیم بھارتی عوام مےں بھارتی سیاست کو یہاں متعارف کروانے کا آج تک رواج ہی قائم نہیں ہو سکا....؟؟ گویا ع
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی....!
لبرل ڈیمو کریٹ کا ایک سابق کونسلر میرا گورا دوست مجھ سے ملاقات پر اکثر پوچھتا ہے کہ پاکستان کو کس کی نظر لگ گئی ہے، وہ یہ بھی سوال کرتا ہے کہ برطانیہ مےں عرصہ دراز سے مقیم برطانوی پاکستانی مقامی سیاست مےں کیوں اتنے متحرک نہیں جبکہ بھارتی لوگ برطانیہ سیاست، برطانوی نیم اور سرکاری محکموں کے علاوہ میڈیا اور مقامی اداروں مےں بڑے بڑے اہم عہدوں پر فائز ہوتے ہوئے اپنے ملک کی عزت مےں اضافہ کر رہے ہےں.... ”لب ڈیم“ کا یہ سابق کونسلر دوست یہ تسلیم کرتا ہے کہ پاکستانیوں کی یہاں جوان ہونے والی نئی نسل برطانوی سیاست مےں سرگرم عمل نظر آ رہی ہے مگر اس کا کہنا ہے کہ یہ ریشو بھارتی لوگوں سے بہت کم ہے....! سچ پوچھیں تو میرا یہ گورا دوست درست تجزیہ کر رہا ہے۔ ایک بار مےں نے جب یہ بتایا کہ صرف لندن مےں اپنی مدد آپ کے تحت قائم پاکستانی سیاسی اور سماجی مذہبی تنظیموں کی تعداد پونے 2سو سے تجاوز کر چکی ہے تو وہ سر تھام کر بیٹھ گیا تھا۔ برطانیہ مےں پاکستانی سیاست اور پارٹیوں کے قیام کی بنیادی وجوہات کا بہت کم لوگوں کو علم ہے، مےں خود چونکہ اس دشت کا ایک وقت مےں حصہ رہ چکا ہوں اس لئے اپنی ”سیاست“ کو بہت ہی قریب سے جانتا اور سمجھتا ہوں۔ برطانیہ علاج معالجے، دل کی پیوندکاری، اور ہالینڈیز کے مزے لوٹنے والے متعدد سیاسی رہنماﺅں کے انٹرویوز اور ان سے ہونے والی رسمی اور غیر رسمی ملاقاتوں مےں اکثر ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ برطانیہ مےں مقیم پاکستانی اور کشمیری آنکھ ان کی آمد پر ان کے قریب تر ہونے کے لئے ”پرتکلف کھانوں“ کا اہتمام ہی نہیں کرتے ان سے ان کی پارٹی کے حوالہ سے یہاں اپنی مفت خدمات پیش کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کر دیتے ہےں اور یوں لیڈروں کو مجبوراً ”کھانے کی قیمت“ عہدوں مےں ادا کرنا پڑ جاتی ہے اور پھر لیڈر کے پاکستان روانہ ہوتے ہی ع ’رات گئی بات گئی‘ کا معاملہ رہ جاتا ہے....! اعجاز الحق، سلیم سیف اللہ خان، چودھری شجاعت حسین، مرحوم محمد خان جونیجو، مرحوم اقبال احمد خان، میاں آصف اور کئی دیگر سیاسی رہنماﺅں اور سیاستدانوں کا یہ استدلال رہا ہے کہ برطانیہ مےں ہی نہیں بلکہ بیرون ملک پاکستانی سیاسی پارٹیاں نہیں ہونی چاہئیں مگر شاید یہ ”روسٹ مرغی“ متنجن، اور روغنی ہانڈیوں کا یہ کمال ہے کہ ”آہستہ آہستہ بیشتر لیڈروں کے خیالات اب تبدیل ہو چکے ہےں۔ عمران خان اور جنرل پرویز مشرف جو ہمیشہ صحت اور تعلیم کے علاوہ عدالتی انصاف اور رشوت کے خاتمہ کی بات کرتے ہےں ان کی پارٹیاں بھی بڑے زور و شور سے برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک مےں سرگرم عمل ہےں۔ مگر رحم آتا ہے مجھے ان سٹیریوٹائپ برطانوی لیڈروں پر جنہوں نے پاکستانی سیاسی لیڈروں کی برطانیہ آمد پر اپنے گھر اور ریستوران تک داﺅ پر لگا دیئے .... مگر سیاسی سمندر کی حد سے زیادہ خطرناک لہروں نے ان لیڈروں کو مالی اور معاشی طور پر اس قدر نڈھال کر دیا کہ آج ماضی کے کئی اہم لیڈروں سے جب اتفاقاً کبھی ملاقات ہو جائے تو ان کے نحیف جسم اور چہرہ پر پڑی ”سیاسی چھائیاں“ ان کی غلطیوں کا احساس دلاتی ہےں۔ نہ جانے ہمارے سیاسی دوست یہ کیوں نہیں سمجھ پاتے کہ برطانوی دوروں پر ہر تیسرے ہفتے آئے پاکستانی سیاسی لیڈر اتنے بھی جمہوریت پسند اور سادہ نہیں کہ فقط ”روسٹ مرغی کی ایک ٹانگ“ اور مرسڈیز، اور لینڈ کروزر کے ٹور کے عوض عہدے، وزارتیں، یا ٹکٹ بانٹتے پھریں....؟ وہ بخوبی آگاہ نہیں کہ برطانیہ مےں پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی شدید عدم اتفاق کا شکار ہی نہیں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے مےں بھی مصروف ہے اور ان کا ایک ہی شوق اور ایک ہی ”چسکا“ ہے اور وہ ہے ہمارے ہمراہ ”مورت“ کچھوانا....!!
ہم برطانوی خوشحال پاکستانیوں کے جذبہ¿ سیاست کا بھی جواب نہیں، انگلستان آنے کا بنیادی مقصد کچھ اور تھا.... مگر جونہی خوشحالی کا یہ مقصد پورا ہوا ہم نے اپنی توجہ وطن عزیز کی سیاست پر اس لئے مرکوز کر لی کہ روٹی، کپڑے اور مکان کے مسائل سے ہمیں نجات مل جائے.... اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نوبت اب یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ برطانیہ مےں بسنے والے 80فیصد پاکستانی اور کشمیریوں نے پاکستانی سیاست کو یہاں قائم رکھنے اور نئی نسل کو پاکستانی لیڈروں سے قائم ”موسمی تعلقات“ کی خبروں کو اخبارات مےں چھپوا کر فائلوں مےں رکھنے کا شوق پال رکھا ہے.... تاکہ ”سیاسی کھڑپنچیوں“ کی محفلوں مےں یہ فائلیںزیادہ محب وطن ثابت کر سکیں....!!!
پاکستان سے ”امپورٹ“ کی جانے والی سیاست جس مےں مسلم لیگ الف، جیم، قاف، نون، ف، اور ہم خیال، کے 6 دھڑے.... پیپلز پارٹی کے 2 دھڑے.... جے یو آئی، جے یو پی، ایم کیو ایم، سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ، علاقائی پارٹیاں اور حال ہی مےں عوامی پذیرائی حاصل کرنے والی عمران خان کی تحریک انصاف اور جنرل پرویز مشرف کی اے پی ایم ایل کے علاوہ اڑھائی سو کے لگ بھگ کئی لسانی اور علاقائی سیاسی پارٹیاں شامل ہےں برطانیہ مےں ان کی چاندی ہی چاندی ہے....؟
پاکستان سے امپورٹ کی گئی اس سیاست کے بارے مےں جہاں سنجیدہ اور انٹیکچول طبقہ پریشان ہے وہاں برطانیہ کے گورے اور گوریاں بھی اب یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہےں کہ آپ لوگوں کو یہاں پاکستانی سیاست کرنے کا اگر اتنا ہی شوق ہے تو اس شوق کی تکمیل کےلئے آپ خود پاکستان کیوں چلے نہیں جاتے....؟ یہ کس طرح کا سیاسی شوق کے پارٹیوں کے مرکزی لیڈر اور قیادت تو پاکستان مےں ہو اور حصول روزگار کے لئے یہاں آئے آپ لوگ اپنی قوت، دولت اور وقت ان کے لئے وقف کرتے رہیں....؟ گورے تو اب یہ بھی طعنہ دینے لگے ہےں کہ ہم کیسے پاکستانی ہےں.... جن کی ریلوے، قومی و فضائی کمپنی پی آئی اے، بجلی، گیس، ادارے اور لاءاینڈ آرڈر کی صورت تو دن بدن مخدوش تر ہوتی چلی جا رہی ہے.... اور آپ ہےں کہ یہاں پاکستانی عوام کے بجائے پاکستانی سیاستدانوں کو ”لنچ اور ڈنر“ دینے مےں اپنی تمام تر دولت اور وقت ضائع کر رہے ہےں....! جبکہ دوسری جانب یہاں مقیم بھارتی عوام مےں بھارتی سیاست کو یہاں متعارف کروانے کا آج تک رواج ہی قائم نہیں ہو سکا....؟؟ گویا ع
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی....!
لبرل ڈیمو کریٹ کا ایک سابق کونسلر میرا گورا دوست مجھ سے ملاقات پر اکثر پوچھتا ہے کہ پاکستان کو کس کی نظر لگ گئی ہے، وہ یہ بھی سوال کرتا ہے کہ برطانیہ مےں عرصہ دراز سے مقیم برطانوی پاکستانی مقامی سیاست مےں کیوں اتنے متحرک نہیں جبکہ بھارتی لوگ برطانیہ سیاست، برطانوی نیم اور سرکاری محکموں کے علاوہ میڈیا اور مقامی اداروں مےں بڑے بڑے اہم عہدوں پر فائز ہوتے ہوئے اپنے ملک کی عزت مےں اضافہ کر رہے ہےں.... ”لب ڈیم“ کا یہ سابق کونسلر دوست یہ تسلیم کرتا ہے کہ پاکستانیوں کی یہاں جوان ہونے والی نئی نسل برطانوی سیاست مےں سرگرم عمل نظر آ رہی ہے مگر اس کا کہنا ہے کہ یہ ریشو بھارتی لوگوں سے بہت کم ہے....! سچ پوچھیں تو میرا یہ گورا دوست درست تجزیہ کر رہا ہے۔ ایک بار مےں نے جب یہ بتایا کہ صرف لندن مےں اپنی مدد آپ کے تحت قائم پاکستانی سیاسی اور سماجی مذہبی تنظیموں کی تعداد پونے 2سو سے تجاوز کر چکی ہے تو وہ سر تھام کر بیٹھ گیا تھا۔ برطانیہ مےں پاکستانی سیاست اور پارٹیوں کے قیام کی بنیادی وجوہات کا بہت کم لوگوں کو علم ہے، مےں خود چونکہ اس دشت کا ایک وقت مےں حصہ رہ چکا ہوں اس لئے اپنی ”سیاست“ کو بہت ہی قریب سے جانتا اور سمجھتا ہوں۔ برطانیہ علاج معالجے، دل کی پیوندکاری، اور ہالینڈیز کے مزے لوٹنے والے متعدد سیاسی رہنماﺅں کے انٹرویوز اور ان سے ہونے والی رسمی اور غیر رسمی ملاقاتوں مےں اکثر ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ برطانیہ مےں مقیم پاکستانی اور کشمیری آنکھ ان کی آمد پر ان کے قریب تر ہونے کے لئے ”پرتکلف کھانوں“ کا اہتمام ہی نہیں کرتے ان سے ان کی پارٹی کے حوالہ سے یہاں اپنی مفت خدمات پیش کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کر دیتے ہےں اور یوں لیڈروں کو مجبوراً ”کھانے کی قیمت“ عہدوں مےں ادا کرنا پڑ جاتی ہے اور پھر لیڈر کے پاکستان روانہ ہوتے ہی ع ’رات گئی بات گئی‘ کا معاملہ رہ جاتا ہے....! اعجاز الحق، سلیم سیف اللہ خان، چودھری شجاعت حسین، مرحوم محمد خان جونیجو، مرحوم اقبال احمد خان، میاں آصف اور کئی دیگر سیاسی رہنماﺅں اور سیاستدانوں کا یہ استدلال رہا ہے کہ برطانیہ مےں ہی نہیں بلکہ بیرون ملک پاکستانی سیاسی پارٹیاں نہیں ہونی چاہئیں مگر شاید یہ ”روسٹ مرغی“ متنجن، اور روغنی ہانڈیوں کا یہ کمال ہے کہ ”آہستہ آہستہ بیشتر لیڈروں کے خیالات اب تبدیل ہو چکے ہےں۔ عمران خان اور جنرل پرویز مشرف جو ہمیشہ صحت اور تعلیم کے علاوہ عدالتی انصاف اور رشوت کے خاتمہ کی بات کرتے ہےں ان کی پارٹیاں بھی بڑے زور و شور سے برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک مےں سرگرم عمل ہےں۔ مگر رحم آتا ہے مجھے ان سٹیریوٹائپ برطانوی لیڈروں پر جنہوں نے پاکستانی سیاسی لیڈروں کی برطانیہ آمد پر اپنے گھر اور ریستوران تک داﺅ پر لگا دیئے .... مگر سیاسی سمندر کی حد سے زیادہ خطرناک لہروں نے ان لیڈروں کو مالی اور معاشی طور پر اس قدر نڈھال کر دیا کہ آج ماضی کے کئی اہم لیڈروں سے جب اتفاقاً کبھی ملاقات ہو جائے تو ان کے نحیف جسم اور چہرہ پر پڑی ”سیاسی چھائیاں“ ان کی غلطیوں کا احساس دلاتی ہےں۔ نہ جانے ہمارے سیاسی دوست یہ کیوں نہیں سمجھ پاتے کہ برطانوی دوروں پر ہر تیسرے ہفتے آئے پاکستانی سیاسی لیڈر اتنے بھی جمہوریت پسند اور سادہ نہیں کہ فقط ”روسٹ مرغی کی ایک ٹانگ“ اور مرسڈیز، اور لینڈ کروزر کے ٹور کے عوض عہدے، وزارتیں، یا ٹکٹ بانٹتے پھریں....؟ وہ بخوبی آگاہ نہیں کہ برطانیہ مےں پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی شدید عدم اتفاق کا شکار ہی نہیں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے مےں بھی مصروف ہے اور ان کا ایک ہی شوق اور ایک ہی ”چسکا“ ہے اور وہ ہے ہمارے ہمراہ ”مورت“ کچھوانا....!!