عزیز ظفر آزاد
مسلم لیگ عوامی جماعت تب بنی جب حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے قیادت سنبھالنے کے بعد مسلمانان ہند کے ہر طبقہ اور ہر مکتبہ فکر سے نہ صرف رابطہ کیا بلکہ مادر وطن کے حصول کے عظیم تر مقاصد پر متحد کرنے کے لئے اپنی زندگی وقف کر ڈالی جس کے جواب میں برصغیر کے پاک و ہند کے گوشہ گوشہ سے فرزندان توحید لاالہ الا اللہ کا ورد کرتے ہوئے 23مارچ 1940کو لاہور امنڈ آئے ۔ اسلم زار ایڈووکیٹ جو دوران تعلیم مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کو دوبارہ فعال کرنے کے ارادے سے لاہور آئے ۔ ایم ایس ایف کو ایک بار پھر طلبہ کی بیداری اور قائداعظم کے پاکستان کی پاسبانی کےلئے مسلم لیگ کا ہراول دستہ بنانے کے لئے رخت سفر باندھا ۔ اسلم زار حصول تعلیم کے ساتھ فکر قائد کا پرچارک بند کر ابھرا ۔1976-77ءایم ایس ایف کا مرکزی صدر بنا ۔ پاکستان کے کونے کونے سے نظریاتی نوجوانوں کی ایک نسل تیارکر دکھائی ۔ اسلم زار نے حصول تعلیم کے دوران ہی فیصلہ کیا کہ وہ عملی زندگی میں اپنے قائد کی پیروی کرتے ہوئے وکالت کا پیشہ اختیار کرکے قوم و ملک کی خدمت کریگا لہذا اس کی ساری زندگی مسلم لیگ کے اتحاد اور نظریہ پاکستان کے فروغ کےلئے وقف تھی ۔ وکلا ءمحاذ پر شایدہی کوئی فکر ی سطح پر اسلم زار کا کوئی ہم پلہ ہو ۔ طلبہ کے بعد وکلاءمیں بھی ہر دل عزیز رہنما کے طور پر پہچانے جاتے رہے ۔ متعددوکلاءتنظیموں اور بارایسوسی ایشنز کے عہدیدار رہے اس دوران مسلم لیگی نوجوانوں کو (پامی ) تنظیم سے وابستہ رکھا ۔ غلام حیدروائیں شہید کا کہنا تھا کہ میری سیاسی جدوجہد کا حاصل اسلم زار اور ریاض فتیانہ ہیں ۔حال ہی میں سپریم کورٹ بار کے الیکشن میں کسی سکہ بند مسلم لیگی کا سیکرٹری منتخب ہونا کسی معجزے سے کم نہیں جس کی داستان حیران کن ہے ۔
سپریم کورٹ بار کے بائیس سو ووٹوں میں سے سیکرٹری کے لئے سولہ سو ووٹ کاسٹ ہوئے جن میں چوہدری مقصود کو تقریبا ً چار سو اور سید افتخار شاہ کو تقریباً دو سو ووٹ ملے ۔ اسلم زار نے ایک ہزار سے زیادہ ووٹ لے کر اپنے قریبی حریف سے چھ سو ووٹ سے برتری حاصل کی جو شاید اس ایوان میں ریکارڈ ہے ۔ اتنی بڑی فتح جہاں ان کے مختلف خیال دوستوں اور دھڑوں میں تقسیم مسلم لیگی تمام تر وکلاءنے تمام اختلاف بالائے طاق رکھتے ہوئے اسلم زار کو نظریات کی پختگی سے پیروی کرنے کے اعتراف میں ووٹ دیا ۔ صوبہ سندھ میں سپریم کورٹ بار کے ساڑھے تین سو ووٹ ہیں جس میں الا ماشاءاللہ مسلم لیگ ن کا ایک ووٹ ۔ سید غوث علی شاہ جو ان کے صوبائی صدر ہیں ۔ ق لیگ کے ایک ووٹ آزاد بن حیدر اور فنگشنل لیگ کے شاید تین ووٹ ایساہی نقشہ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں نظر آتا ہے۔ اس کسمپرسی کے عالم میں بھی اگر لیگی متحد ہو جائیں تو سپریم کورٹ جیسے اعلیٰ ترین ادارے میں چھ سو ووٹ کی برتری حاصل ہو سکتی ہے۔ اگر انتشار و تفریق کا شکا رہوں تو بلوچستان میں ق لیگ اسمبلی کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود حکومت بنانے میں قاصر نامراد رہی۔ سیاسی قیادتوں کو خوف سے باہر نکلنا ہوگا اپنے بلوچ بھائیوں کو منانے ہم قدم ہمرقاب بنانے کے لئے ، مذکورہ الیکشن کے دوران بلوچستان کے حالات کے باعث وہاں نہ جانے کا مشورہ دیا گیا مگر کوئٹہ پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ایک لیگی عبداللہ بلوچ کے والد وفات پاگئے ۔ عبداللہ بلوچ نے فون پر کہا کہ تم میرے گھر نہ آنا یہ خطرناک ترین علاقہ ہے ۔ مسلم غیرت اور لیگی اخوت نے گوارہ نہیں کیا لہذا دوستوں کے ہمراہ عبداللہ بلوچ کے گھر پہنچ گیا ۔ اسلم زار کے اس پرخلوص جذبے کا بلوچوں نے اس قدر اثر لیا کہ کوئٹہ کے 125ووٹوں میں سے 72اسلم زار کو ملے اور 3کینسل ہوئے ۔ مخالف دونوں امیدواروں کو صرف 15ووٹ میسر آئے ۔ اسلم زار پرجوش انداز میں کہہ رہے تھے کہ بلوچ بڑی محبت اور عزت دینے والے غیرت منداور پر وقارلوگ ہیں ۔ پاکستانی قیادتوں و حکمرانوں نے بلوچوں کی خوبیوں کو نظرانداز کرکے بدسلوکی کا رویہ اختیار کیا جس کے باعث مشکلات کا سامنا ہے ۔ یہاں کا مرض لاعلاج نہیں صرف معاملہ فہمی اور دوراندیشی سے بلوچوں کی نفسیات سمجھنے کی ضرورت ہے ۔اسلم زار کے مطابق صوبہ سرحد میں لیگ کے حوالے سے زمین انتہائی زرخیز ہے ۔ لیگی قیادتوں کو اس کا احساس ہے نہ ادراک ۔ وہاں لیگی کارکن گروپ بندی کے مرض میں مبتلا نہیں ۔اسلم زار کی خواہش ہے کہ حکومت کی مسلم لیگ کئی بار بنی ایک بار مسلم لیگ کی حکومت بھی قائم ہو ۔
پاکستان کے اعلیٰ ترین ادارے کے انتخاب میں اسلم زار ایڈووکیٹ جیسے متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے کا سیکرٹری منتخب ہونا ، جس کے پاس نظریاتی مسلم لیگی کارکن ہونے کے پس منظر کے علاوہ بے تہاشہ دولت کی چمک ہے نہ خاندانی وجاہت و حشمت ۔ ایک نظریاتی کارکن اور معرکہ آراءفتح ، حضرت قائداعظم کے سبق یقین اتحاد تنظیم پر عمل کا ثمر ہے جس پر کاربند ہو کر اسلم زار نے زندگی کی کامیابیاں سمیٹیں بلاشبہ حضرت قائد کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کو ایک جدید فلاحی جمہوری اور اسلامی ریاست بنایا جاسکتا ہے۔
مسلم لیگ عوامی جماعت تب بنی جب حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے قیادت سنبھالنے کے بعد مسلمانان ہند کے ہر طبقہ اور ہر مکتبہ فکر سے نہ صرف رابطہ کیا بلکہ مادر وطن کے حصول کے عظیم تر مقاصد پر متحد کرنے کے لئے اپنی زندگی وقف کر ڈالی جس کے جواب میں برصغیر کے پاک و ہند کے گوشہ گوشہ سے فرزندان توحید لاالہ الا اللہ کا ورد کرتے ہوئے 23مارچ 1940کو لاہور امنڈ آئے ۔ اسلم زار ایڈووکیٹ جو دوران تعلیم مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کو دوبارہ فعال کرنے کے ارادے سے لاہور آئے ۔ ایم ایس ایف کو ایک بار پھر طلبہ کی بیداری اور قائداعظم کے پاکستان کی پاسبانی کےلئے مسلم لیگ کا ہراول دستہ بنانے کے لئے رخت سفر باندھا ۔ اسلم زار حصول تعلیم کے ساتھ فکر قائد کا پرچارک بند کر ابھرا ۔1976-77ءایم ایس ایف کا مرکزی صدر بنا ۔ پاکستان کے کونے کونے سے نظریاتی نوجوانوں کی ایک نسل تیارکر دکھائی ۔ اسلم زار نے حصول تعلیم کے دوران ہی فیصلہ کیا کہ وہ عملی زندگی میں اپنے قائد کی پیروی کرتے ہوئے وکالت کا پیشہ اختیار کرکے قوم و ملک کی خدمت کریگا لہذا اس کی ساری زندگی مسلم لیگ کے اتحاد اور نظریہ پاکستان کے فروغ کےلئے وقف تھی ۔ وکلا ءمحاذ پر شایدہی کوئی فکر ی سطح پر اسلم زار کا کوئی ہم پلہ ہو ۔ طلبہ کے بعد وکلاءمیں بھی ہر دل عزیز رہنما کے طور پر پہچانے جاتے رہے ۔ متعددوکلاءتنظیموں اور بارایسوسی ایشنز کے عہدیدار رہے اس دوران مسلم لیگی نوجوانوں کو (پامی ) تنظیم سے وابستہ رکھا ۔ غلام حیدروائیں شہید کا کہنا تھا کہ میری سیاسی جدوجہد کا حاصل اسلم زار اور ریاض فتیانہ ہیں ۔حال ہی میں سپریم کورٹ بار کے الیکشن میں کسی سکہ بند مسلم لیگی کا سیکرٹری منتخب ہونا کسی معجزے سے کم نہیں جس کی داستان حیران کن ہے ۔
سپریم کورٹ بار کے بائیس سو ووٹوں میں سے سیکرٹری کے لئے سولہ سو ووٹ کاسٹ ہوئے جن میں چوہدری مقصود کو تقریبا ً چار سو اور سید افتخار شاہ کو تقریباً دو سو ووٹ ملے ۔ اسلم زار نے ایک ہزار سے زیادہ ووٹ لے کر اپنے قریبی حریف سے چھ سو ووٹ سے برتری حاصل کی جو شاید اس ایوان میں ریکارڈ ہے ۔ اتنی بڑی فتح جہاں ان کے مختلف خیال دوستوں اور دھڑوں میں تقسیم مسلم لیگی تمام تر وکلاءنے تمام اختلاف بالائے طاق رکھتے ہوئے اسلم زار کو نظریات کی پختگی سے پیروی کرنے کے اعتراف میں ووٹ دیا ۔ صوبہ سندھ میں سپریم کورٹ بار کے ساڑھے تین سو ووٹ ہیں جس میں الا ماشاءاللہ مسلم لیگ ن کا ایک ووٹ ۔ سید غوث علی شاہ جو ان کے صوبائی صدر ہیں ۔ ق لیگ کے ایک ووٹ آزاد بن حیدر اور فنگشنل لیگ کے شاید تین ووٹ ایساہی نقشہ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں نظر آتا ہے۔ اس کسمپرسی کے عالم میں بھی اگر لیگی متحد ہو جائیں تو سپریم کورٹ جیسے اعلیٰ ترین ادارے میں چھ سو ووٹ کی برتری حاصل ہو سکتی ہے۔ اگر انتشار و تفریق کا شکا رہوں تو بلوچستان میں ق لیگ اسمبلی کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود حکومت بنانے میں قاصر نامراد رہی۔ سیاسی قیادتوں کو خوف سے باہر نکلنا ہوگا اپنے بلوچ بھائیوں کو منانے ہم قدم ہمرقاب بنانے کے لئے ، مذکورہ الیکشن کے دوران بلوچستان کے حالات کے باعث وہاں نہ جانے کا مشورہ دیا گیا مگر کوئٹہ پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ایک لیگی عبداللہ بلوچ کے والد وفات پاگئے ۔ عبداللہ بلوچ نے فون پر کہا کہ تم میرے گھر نہ آنا یہ خطرناک ترین علاقہ ہے ۔ مسلم غیرت اور لیگی اخوت نے گوارہ نہیں کیا لہذا دوستوں کے ہمراہ عبداللہ بلوچ کے گھر پہنچ گیا ۔ اسلم زار کے اس پرخلوص جذبے کا بلوچوں نے اس قدر اثر لیا کہ کوئٹہ کے 125ووٹوں میں سے 72اسلم زار کو ملے اور 3کینسل ہوئے ۔ مخالف دونوں امیدواروں کو صرف 15ووٹ میسر آئے ۔ اسلم زار پرجوش انداز میں کہہ رہے تھے کہ بلوچ بڑی محبت اور عزت دینے والے غیرت منداور پر وقارلوگ ہیں ۔ پاکستانی قیادتوں و حکمرانوں نے بلوچوں کی خوبیوں کو نظرانداز کرکے بدسلوکی کا رویہ اختیار کیا جس کے باعث مشکلات کا سامنا ہے ۔ یہاں کا مرض لاعلاج نہیں صرف معاملہ فہمی اور دوراندیشی سے بلوچوں کی نفسیات سمجھنے کی ضرورت ہے ۔اسلم زار کے مطابق صوبہ سرحد میں لیگ کے حوالے سے زمین انتہائی زرخیز ہے ۔ لیگی قیادتوں کو اس کا احساس ہے نہ ادراک ۔ وہاں لیگی کارکن گروپ بندی کے مرض میں مبتلا نہیں ۔اسلم زار کی خواہش ہے کہ حکومت کی مسلم لیگ کئی بار بنی ایک بار مسلم لیگ کی حکومت بھی قائم ہو ۔
پاکستان کے اعلیٰ ترین ادارے کے انتخاب میں اسلم زار ایڈووکیٹ جیسے متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے کا سیکرٹری منتخب ہونا ، جس کے پاس نظریاتی مسلم لیگی کارکن ہونے کے پس منظر کے علاوہ بے تہاشہ دولت کی چمک ہے نہ خاندانی وجاہت و حشمت ۔ ایک نظریاتی کارکن اور معرکہ آراءفتح ، حضرت قائداعظم کے سبق یقین اتحاد تنظیم پر عمل کا ثمر ہے جس پر کاربند ہو کر اسلم زار نے زندگی کی کامیابیاں سمیٹیں بلاشبہ حضرت قائد کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کو ایک جدید فلاحی جمہوری اور اسلامی ریاست بنایا جاسکتا ہے۔