ہمیں قدرت نے ساٹھ کی دہائی میں پیدا ہونے کا موقع فراہم کیا۔ تب مختلف الفاظ آزمائے جانے کے بعد باپ کو ’’ابا‘‘ کہنے پر گاؤں کے قریباً سبھی بچوں کا غیر مشروط اتفاق ہو چکا تھا، البتہ متمول اور پڑھے لکھے اِکّا دْکّا گھرانوں کے بچے ابا کے ساتھ ’’جی‘‘ کا لاحقہ لگا لیا کرتے تھے۔ آگہی کی ابتدائی زینے طے کرتے ہوئے جب ہمیں اپنے ہم عصر بچوں کے ابوں اور ان کے رویوں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا تو ہمیں یہ راز پانے میں ذرا دیر نہیں لگی کہ ابوں کی شکلوں، عقلوں، عادتوں اور جبلتوں میں تفاوت و تفریق ہونے کے باوجود ایک قدر بہرحال مشترک تھی کہ ماؤں کے بے پایاں پیار کے برخلاف وہ اپنی تیزیِ طبع میں رْعب و داب کے عنصر کو ضرورت سے زیادہ داخل کر لیا کرتے تھے۔ ہر بچے کے ابے کی سلطنت کم و بیش پانچ سے سات بچوں پر مشتمل ہوتی تھی۔ چار سے کم بچوں کے باپ کو کارآمد ابا خیال نہیں کیا جاتا تھا۔ نرینہ اولاد، زرعی زمین اور مال مویشیوں کی فراوانی کے سبب ابا خود کو سقراطی، بقراطی، ارسطوی، اور افلاطونی مکاتبِ فکر سے جوڑے رکھتا تھا۔
اْس زمانے میں بچے اپنی ماں کو ’’بی بی‘‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ چند گھروں میں لفظ اماں بھی مستعمل تھا۔ ابا کے برعکس، ہر بی بی، مِہر و مْحَبت اور التفات و عنایت کا پرتو ہوا کرتی تھی۔ جب بچے اْس کو حد سے زیادہ تنگ کرتے تو اْس کی اولین کوشش ابا کا ’ڈراوا‘ دے کر اْن کو ڈسپلن میں لانا ہوتا تھا۔ گویا ابا ایک ایسی ہستی تھا جس کا خوف بی بی اپنے بچوں کے ذہنی خلیوں میں گھسیڑ کر انہیں اپنے بس میں رکھنے کے لئے بطور ہتھیار استعمال کیا کرتی تھی۔ بچے جب بی بی کو حد سے زیادہ زچ کرتے تو اْس کو الفت کے تقاضے نبھانے میں دشواریاں پیش آتیں۔ اْسکے ذہن کی جودت شور برپا کرتے یا باہم لڑتے بچوں کو غیر ذبیحہ پالتو چوپاؤں اور جنگل میں ’’آنیاں جانیاں‘‘ دکھانے والوں سے جوڑنے پر مجبور کرتی۔ بعض اوقات تو وہ اْن کو اْس جنگلی جانور کے نام سے بھی بہ بلند آواز پکارتی۔
اِس retaliation کے بعد تمام بچے یوں شانت حالت میں بی بی کے جلو میں رونق افروز ہوتے جیسے تھوڑی دیر پہلے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ ہر بچہ بی بی کے اِن حملوں پر ابا کو کچھ نہ بتانے کی شرط لگا کر ہتھیار ڈال دیا کرتا تھا۔ بی بی نمناک آنکھوں سے پٹنے والے بچوں سے ’لاڈیاں‘ کرکے فطرتِ ممتا کے فطری تقاضے پورے کیا کرتی۔ ابا اکثر پہلوٹھی کے بیٹے کو مشاورتی عمل میں بھی شریک کرتا۔ وہ ابا سے اِس قربت پر بہت نازاں ہوا کرتا تھا جبکہ بڑی بیٹی بی بی کی رازدان ہونے کی وجہ سے خود کو گھر کی پردھان سمجھا کرتی تھی۔
ابا سال میں بمشکل تین چار دفعہ شہر کا رْخ کر پاتا۔ یہ دورہ عموماً بچوں کی قلم دوات، کاپیاں کتابیں، کَپڑے لَتَّے اور سودا سلف لانے کے لئے کیا جاتا۔ جس بچے کو ابا سائیکل پر بٹھا کر اپنے ساتھ شہر لے جاتا وہ خود کو گھر کا خوش قسمت ترین فرد سمجھتا۔ واپسی پر وہ سفر نامے کی تفصیلات حرف بہ حرف سنا کر دم لیتا۔ بتاشے، گچک، پْھلیاں، مچھیاں، پودینے کی ٹکیاں اور بوندی ماں کے حوالے کرکے وہ اپنے بہن بھائیوں کو زیرِ بارِ احسان کرنے کی کوشش کرتا اور اپنے اِس کارنامے پر کئی دنوں تک اتراتا رہتا۔ گاؤں میں سالانہ میلہ لگتا تو ابا گھر کے دیسی گھی سے جلیبی، لڈو اور برفی تیار کروا کر بچوں کی خوشیوں کو دوچند کرتا۔ ابا مقامی موچی سے خام چمڑے کی نوکدار جْوتی سائی پر تیار کرواتا۔ یہ جْوتی پہننے کے ساتھ ساتھ نرینہ اولاد کی جسمانی تربیت اور اصلاحِ کردار و اعمال کیلئے بھی بوقتِ ضرورت استعمال ہوتی رہتی۔ ابا سکول ماسٹر اور امام مسجد کا مداح ہوا کرتا تھا۔ گاؤں کا نائی ہفتے میں ایک دفعہ گھر آ کر اْس کی داڑھی مونڈھتا، مونچھوں کی نوک پلک سنوارتا اور ناخن تراشتا۔
گاؤں میں کسی مسلے پر پنچایت بلائی جاتی تو ابا وہاں فریقین کی حمایت یا مخالفت کرنے کی بجائے حق سچ کا ساتھ دیا کرتا۔ مخالف کی بیٹی سامنے آ جاتی تو اْس کے سر پر ہاتھ پھیر کر ڈھیر ساری دعائیں دیتا۔ یوں وہ اِس مقولے پر کہ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں، من و عن پہرہ دیتا۔ وہ ترنگ میں آ کر کبھی کبھی ’’دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے سجناں وی مر جاناں‘‘ اپنے مخصوص انداز میں گنگناتا۔ اگر اْسکے مخالف کی موت واقع ہو جاتی تو اْس کے جنازے کو کندھا دیتا اور آگے بڑھ کر میت کو لحد میں اتارتا۔ وہ دشمن کے سینے پر وار کرنے کا قائل تھا۔ پیٹھ پیچھے وار کرنا اور شازشیں کرنا اْسے قطعی طور پر ناپسند تھا۔ رفاہِ عامہ کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا اور اپنے حصے کی ڈھال واش دینے میں کبھی پس و پیش سے کام نہ لیتا۔
یوں تو ابا کی تفریح کا بڑا ذریعہ بچے پیدا کرنا تھا، اِسکے باوجود وہ موسم گرما کے طویل دنوں میں دوستوں کے ساتھ تاش کی بازی لگاتا۔ تاش کے علاوہ چِھکڑی، اڈا کھڈا اور باراں ٹاہی کھیلنا بھی اْسے پسند تھا۔ جوانی کے ایام میں وہ کبڈی اور والی بال شوق سے کھیلا کرتا تھا۔ اْسے حقہ پینا بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ اپنے لئے اچھی قسم کا کڑوا تمباکو کاشت کرتا۔ اْس کو خوش رہنا بھی بہت بھاتا تھا۔ دو موقعوں پر اْسکی خوشی دیدنی ہوا کرتی تھی۔ ایک تب جب اْس کے ہاں بیٹا پیدا ہوتا اور دوسرا جس دن وہ کٹائی اور گہائی کے تکلیف دہ عمل کے بعد بیل گڈے پر گندم ڈال کر گھر لاتا۔ سانپوں اور چوروں کے واقعات اور کہانیاں سنانا بھی اْس کا من پسند شغل تھا۔ وہ نسلی جانور پالتا اور نسلی بندے سے میل جول رکھتا۔ ابا بڑے دل گردے کا مالک ہوا کرتا تھا۔ وہ رنج و الم و اندوہ و حرماں کو اپنی کشادہ دلی، اعلٰی ظرفی اور مثالی ضبط کی وجہ سے اپنے سینے جذب کر لیا کرتا تھا۔
لکیر کے فقیر ابا کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ وقت سدا ایک سا نہیں رہتا۔ جوان بیٹوں اور جائیداد پر فخر کرنے والی ابا کی روایتی سوچ بیٹوں کی شادیاں ہونے تک پوری آن بان اور طنطناہٹ کے ساتھ برقرار رہتی۔ پھر اْسے گھر کا منظر نامہ بدلا بدلا سا لگتا۔ اْسے اپنے راج و عروج کے رنگ تیزی سے پھیکے پڑتے دکھائی دیتے۔ جب اْس کے قابلِ فخر جانشین جائیداد کے بٹوارے پر اصرار کرتے اور اْس کی ایک نہ سنتے تب اْس کی طَبِیعَت کی جَولانِی ہوا ہو جاتی اور دل خون کے آنسو روتا۔ سوچوں کے گہرے سمندر میں ڈوبا ابا حقے سے اپنی رغبت مزید بڑھا دیتا۔ پانچ وقت باجماعت نماز ادا کرتا۔ کبھی کبھار وہ اپنے مربعے سے ملحق رڑی میں گھنٹوں بیٹھ کر خود کلامی کرتا رہتا۔ اب تو اْس کی آنکھیں بھی ساون کی گھٹاؤں کی طرح برسنا سیکھ گئی تھیں۔
٭…٭…٭
ساٹھ کی دہائی کا ابا
Feb 16, 2025