اتوار ‘ 21 ؍جمادی الثانی 1441ھ ‘ 16 ؍ فروری 2020 ء
یوریا کھاد سستی ہونے کے بعد غائب‘ بلیک میں مہنگے داموں بکنے لگی
یہ چور بازاری کی درخشاں روایات میں سے ایک ہے کہ جیسے ہی حکومت کوئی چیز سستی کرتی ہے یا اس کا اعلان کرتی ہے۔ ذخیرہ اندوز مافیا پلک جھپکتے ہی وہ چیز بازار سے غائب کر دیتا ہے۔ یوں فلموں کی ٹکٹوں کی طرح وہ چیز بلیک میں فروخت ہونے لگتی ہے اور ذخیرہ اندوز مافیا دونوں ہاتھوں سے نوٹ کماتا ہے۔ اب حکومت نے کھاد کی قیمت میں 400 روپے فی بوری کمی کا جو اعلان کیا اس کے بعد کسان اور کاشتکار ابھی خوش ہو ہی رہے تھے کہ ذخیرہ اندوز مافیا نے روایتی چال چلی اور ان کے چہروں سے خوشی چھین لی۔ یوں ہمارے غریب کسان اور کاشتکار ’’اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے‘‘ کی زندہ مثال بن گئے۔ کھاد بازار سے ’’گدھے کی سر پر سینگ کی طرح غائب ہو گئی۔اب بلیک میں 2500 روپے فی بوری مل رہی ہے۔ کسان مجبور ہیں لٹنے پر۔ یہ سارا کیا دھرا ان لوگوں سے ہے جن پر حکومت کا بس نہیں چلتا۔ اگر ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی اور گرانفروشی کرنے والے ان عوام دشمن عناصر پرآہنی ہاتھ ڈالا جائے ان کو سر عام سزا دی جانے لگے تو کوئی وجہ نہیں کہ عوام کو ‘ کسانوں اور کاشتکاروں کو ارزاں نرخوں پر مطلوبہ شے دستیاب نہ ہو۔ یہ لاتوں کے بھوت ہیں باتوں سے تو انہوں نے ماننا نہیں۔ حکومت قیمتوں میں کمی کا فائدہ بہر صورت عوام تک پہنچائے اور اس کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو مسمار کرے۔ آخر عوام کا بھی حکومت پر اتنا ہی حق ہے جتنا ان ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کا۔
٭…٭…٭
تحریک انصاف سے معاملات طے پا گئے‘ آئندہ ہفتے تمام مطالبات منظور ہو جائیں گے: خالد مقبول
یہ جادوگری تو واقعی ایم کیو ایم والوں کو ہی آتی ہے کہ کسطرح وہ ہر حکومت کو اپنے مخالف ہونے کے باوجود اتحادی بنا لیتی ہے اور گاہے بگاہے اس سے اختلافات کا ہوا کھڑا کر کے من مرضی کے مطالبات بھی منوا لیتی ہے۔اب موجود حکومت کو ہی دیکھ لیں ایم کیو ایم کے علاوہ بھی اس کے اتحادی ہیں۔ ان سے بھی اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے۔ مگر یہ جو نازو انداز والا معاملہ ہے یہ صرف ایم کیو ایم کے ساتھ ہی نظر آتا ہے۔ چند سیٹوں کی یہ بلیک میلنگ کوئی اگر سیکھنا چاہے تو ایم کیو ایم والوں سے سیکھ سکتا ہے۔ جو ایک آدھ وزارت ملنے پر بھی مطمئنن نہیں رہتی اور ھل من مزید کے نعرے لگا لگا کر مزید فوائد سمیٹتی ہے۔کسی کو اس پر بھی اعتراض نہ ہوتا اگر ان میںسے ایک آدھ فائدہ بھی عوام تک پہنچ پاتا۔ عوام بھی اس سے فائدہ اٹھاتے افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ سارا منافع خود ایم کیو ایم اٹھاتی ہے اور عوام کے مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔ کراچی جو ایم کیو ایم کا گڑھ ہے جہاں کامیئر بھی ایم کیو ایم سے ہے، کی حالت دیکھ لیں سارا شہر لاوارث بنا نظر آتا ہے۔ کراچی کا کچرا ‘گندے نالے‘ پانی کی فراہمی و نکاسی کے علاوہ سڑکوں گلیوں کی حالت چیخ چیخ کر اپنے سرپرستوں کی لوٹ مار کہہ لیں یا بے توجہی کا دکھڑا سناتے نظر آتی ہے۔ مگر کیا مجال ہے جو کسی پر اثر ہوں۔ صوبائی حکومت اسے دوسروں کا معاملہ کہہ کر جان چھڑاتی ہے تو ایم کیو ایم کی قیادت صوبائی اور مرکزی حکومتوں کو لتاڑتی ہے۔ یوں سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اور معاملات طے ہوتے رہتے ہیں۔
٭…٭…٭
شمالی کوریا میں کرونا کا شکار سرکاری ملازم کو گولی مار دی گئی
یا الہٰی یہ کونسا علاج ہے جو شمالی کوریا کی ظالم حکومت کو سوجھا ہے۔ اگر یہ سلسلہ چل نکلا تو مستقبل میں ہو سکتا ہے۔ بخار، یرقان، فلو، فالج، بلڈپریشر، کینسر، شوگر اور امراض قلب و نظر کے مریضوں پر بھی یہی نسخہ آزمایا جانے لگے۔ یوں شمالی کوریا میں صرف اور صرف صحت مند افراد ہی رہ جائیں گے باقی سب گولیوں کی نذر ہو جائینگے۔ ویسے غلطی اس سرکاری اہلکار کی اپنی تھی۔ وہ بنا اطلاع کے چین گیا واپسی پر اسے سزا کے طور پر کھیتوں میں مزدوری کیلئے بھیجا گیا جہاں سے مرض کا پتہ چلنے پراسے ہسپتال کے خصوصی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کیا مگر لگتا ہے اسی کے سر پر قضاناچ رہی تھی جس نے وہاں بھی اسے چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ وہ ہسپتال سے بنا بتائے باہر نکلا جس پر اسے پکڑ لیا گیا اور حکام نے سزا کے طور پر اس کا قصہ ہی پاک کرنے کا حکم دیا۔
اب معلوم نہیں اس سرکاری علاج کے بعد عالمی سطح پر انسانی حقوق کی تنظیمیں کیا شور کرتی ہیں یا خوف سے چپ سادھ لیتی ہیں۔ شکر ہے چین والوں کو ابھی تک ایسے آسان علاج کا خیال نہیں آیا ورنہ اب تک دوہان سے جہاں سے یہ مرض شروع ہوا ہے۔ اس مرض سمیت تمام مریضوں کا کب کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔ دروغ برگردن راوی ایسا ہی ایک علاج چین کے افیونیوں کا بھی کیا گیا تھا انہیں سمندر برد کر کے۔ شمالی کوریا والے کچھ خدا کا خوف کریں علاج کو آخری علاج نہ بنائیں۔
٭…٭…٭
یونان میں دوسرے بچے کی پیدائش پر جوڑے کو 2 ہزار یورو کا انعام
واہ بھئی واہ کیا بات ہے قسمت کے الٹ پھیر کی۔ کہاں ایشیا کی حکومتیں جو دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے والوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر جرمانے کرتی ہیں۔ انہیں قدم قدم پر خاندانی منصوبہ بندی کی اہمیت پر لیکچر دیئے جاتے ہیں۔ کہاں یورپ والے کہ دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر انعامات کی بارش کرتے ہیں۔ اب کیا کہا جائے کہ یورپ والے خود ہی بچے کم پیدا کر کے اپنی آبادی کم کرتے پھر رہے ہیں۔ وہاں کوئی زیادہ بچے پیدا کر کے اپنے کو جھنجھٹ میں ڈالنے کو تیار نہیں ہوتا۔وہاں کی حکومتیں خود پر کشش انعامات دے کر مراعات دے کر لوگوں کو کثرت اولاد کی ترغیب دیتی ہیں۔ حالانکہ وہاں بچوں کو انکے والدین کو ہر قسم کی سہولتیں دی جاتی ہیں تعلیم، علاج مفت ملتا ہے۔ ا س لئے وہ کثرت اولاد کا مطالبہ کرتے سجتے بھی ہیں۔ اس کے برعکس ایشیائی و افریقی ممالک میں دیکھ لیں نہ روٹی نہ پانی نہ علاج نہ تعلیم۔ دھڑا دھڑ یہاں کے لوگ بچے پر بچے پیدا کرتے پھرتے ہیں۔ پھر روتے ہیں بیماری، بے روزگاری، بھوک، غربت اور ناخواندگی پر۔ اگر ہم بھی پہلے یورپ کی طرح کثرت اولاد کیلئے مناسب ماحول بنا لیں تو پھر کوئی نہیں روکے گا شرح پیدائش میں اضافے پر۔ ہاں البتہ اگر یہی بھوکے ننگے بیمار بچے پیدا کرنے ہیں تو پھر لائن لگاتے جائیں اور نتیجہ بھی خود بھگتیں۔ اسلئے ہمیں پہلے بہبود آبادی یا کنٹرول آبادی پر عمل کرنا ہو گا۔پھر کثرت اولاد کی روایت پر۔