ہفتہ‘10؍ جمادی الثانی 1440ھ‘ 16 ؍ فروری 2019ء
5 روپے کا کرنسی نوٹ
ایک ہزارروپے میں فروخت
پاکستان میں پانچ روپے کے کرنسی نوٹ کو بند ہوئے ایک مدت ہو چکی ہے۔ پانچ کا نوٹ اپنی ویلیو میں ٹِکے ٹوکری ہوا تو اسے بند کر دیا گیا تھا۔ زرداری دور میں اس کی آخری جھلکیں نظر آتی تھیں۔ اب اس نوٹ کو نوادرات کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نوادرات اکٹھے کرنے کا جنوں کی حد تک شوق ہوتا ہے۔ سکے اور ٹکٹیں حتیٰ کہ پرانے ادوار کی ماچس اور سگریٹ کی ڈبیاں بھی لوگ جمع کرتے دیکھے گئے ہیں۔ کسی دور میں ’’دَمڑی‘‘ بھی سکہ رائج الوقت تھا بنیئے کنجوسی بلکہ بخل میں بڑی شہرت رکھتے ہیں، ان کے بارے میں مشہور ہے چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے۔ کنجوسی اور بخل میں بڑا فرق ہے۔ کنجوس کسی کو پیسہ دینے کا روادار نہیں ہوتا جبکہ بخیل اپنی ذات پر بھی خرچ نہیں کرتا۔ بہرحال پانچ کا نوٹ ایک آن لائن ویب سائٹ پر ایک ہزار روپے میں فروخت کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ یہ ویب سائٹ ایسے نوٹوں کی خریدار نہیں ہے۔ آپ ایسے نوٹ فروخت کرنے جائیں تو کوئی فائدہ نہیں، ہوسکتا ہے ویب سائٹ انتظامیہ کہے یہ تو بے کار ہیں انہیں کوڑے دان میں پھینک دو، ادھر آپ یہ نادر نوٹ پھینکیں اُدھر آپ کے دوسری طرف مڑتے ہی ان کا بندہ اٹھا کر ایک ہزار روپے میں فروخت کے لیے ویب سائٹ پر چڑھا دے۔ پانچ ہی نہیں ایک اور دو روپے کے نوٹ اور تمام سکے جو رائج رہے ہیں وہ بھی نوادرات میں آتے ہیں جن کی مانگ آپ کو کسی بھی وقت ہزار پتی اور لکھ پتی بنا سکتی ہے، انہیں سنبھال کر رکھیں ۔
٭٭٭٭٭٭
دبئی میں پی ایس ایل کا رنگا رنگ میلہ
سج گیا سٹے باز بھی میدان میں آ گئے
نیا سال ہویا کرکٹ کے کسی بھی فارمیٹ کاکپ ہو سٹے باز اور رنگ باز پابندیوں اور پولیس کی دھمکیوں کے باوجود اپنی دنیا آباد کر لیتے ہیں۔ کھابے شرابوں سمیت چلتے ہیں۔ پولیس کے لیے بھی چار پیسے بنانے کا یہی نادر موقع ہوتا ہے۔ یوں مجرم اور محافظ باہم شیرو شکر نظر آتے ہیں۔ چھاپے پڑتے ہیں گرفتاریاں ہوتی ہیں پولیس کو انعام بھی دئیے جاتے ہیں مگر ایسی خباثتوں کا خاتمہ نہیں ہوتا۔ اگلے ایونٹس پر پھر رونقیں لگی ہوتی ہیں۔ ایساکیوں ہوتا ہے یہ کوئی معمہ نہیں ہے۔ شادی ہالوں میں ون ڈش اور ٹائمنگ کی پابندی ہوا کرتی تھی اب بھی ہے۔ کچھ نواب ذہنیت کے لوگ اپنا شملہ اونچا رکھنے کے لیے دو تین ڈشیں بھی بنوا لیتے ہیں۔ شادی ہال والوں کو چھاپوں کے بارے میں آگاہی ہوتی ہے بعض صورتوں میں تو خود مخبری بھی کر دیتے ہیں۔ قصہ مختصر بکنگ کے وقت ہال مینجر ڈشوں کے بارے میں پوچھتا اور ساتھ ہی دُلہا کے ابا کی پیشکش بھی کر دیتا ۔ اس کے الگ چارجز ہوتے ۔ قانون کی خلاف ورزی پر دلہا کے والد کو گرفتار کیا جاتا تھا۔ چھاپہ مار ٹیم آتی تو شادی ہال والے اپنا ایک ملازم دلہا کے والد کے طور پر گرفتار کرا دیتے۔ اب پولیس سٹے بازوں کے خلاف کریک ڈائون بھی اسی طرز پر کرتی ہے اوپر سے زیادہ پریشر پڑے تو چند افراد کو کارروائی ڈالنے کے لئے ’’عبوری‘‘ طور پر ہی پکڑ لیا جاتا ہے۔ ان کو دیہاڑی سٹے باز اور رنگ باز ادا کر دیتے ہیں۔ چلیں سب کی روٹی لگی ہوئی ہے آخر جواریوں ، سٹے بازوں اور پولیس نے حلال کی روٹی جو کھانی ہوتی ہے۔ پی ایس ایل کے بانیوں میں نجم سیٹھی کا شمار ہوتا ہے۔ یہ ایونٹ ان کے نام سے ساتھ 35’’ پنکچروں‘‘ کی طرح جڑا رہے گا۔ انہوں نے دو باتیں کیں۔ ایک تو کہا کہ پی ایس ایل فور سے 2 ارب کی آمدنی متوقع ہے اس پر مولوی صاحب کی بپتا سنائی جا سکتی ہے۔ ایک شاگرد نے کہا حضرت کھیر آئی ہے۔ حضرت نے کہا، مجھے کیا۔ شاگرد بولا استاد جی آپ کے لئے آئی ہے تو پھرتجھے کیا۔ مولوی صاحب نے ترت جواب دیا۔ نجم سیٹھی صاحب کی دوسری بات میں شکوہ ہے کہ انہیں میچ دیکھنے کی دعوت نہیں ملی۔ بورڈ کواپنے تازہ ترین ریٹائر ہونے والے چیئرمین کے ساتھ ایسا ہر جائی والا سلوک نہیں کرنا چاہئے۔ یہ عہدے منصب ایک چھائو ںہے جو آج کسی پر تو کل کسی اور پر ہو سکتی ہے۔ سیٹھی صاحب دل چھوٹا نہ کریں۔ خود ٹکٹ خریدیں اور میچ دیکھیں شاید بورڈ کو حیا آ جائے۔ ادھر میچز کے دورن سیاسی بینرز اور نعرے روکنے کی حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے۔ اس کی کیا ضرورت ہے۔ سیاست ویسے بھی اکھاڑہ ہی ہے۔ یہ کھیل کے میدان میں ہو گی تو میدان مزید سجے رہیں گے۔
٭٭٭٭٭٭
اسد عمرنے سعودی فرمانروا سے ملنے والے تحائف سرکاری توشہ خانے میں جمع کرا دئیے۔
پیار محبت سے دئیے گئے تحفے حسین لمحات کی یادگار ہوتے ہیں۔ ایسی یادیں نہاں خانوں میںسجا کے رکھی جاتی اور تحفے دیواروں اور میزوں پر آویزاں کئے جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی یادگار تحائف جو ان کو بطور وزیر خارجہ ملے، توشہ خانے میں جمع کرائے تھے۔ وزیراعظم اور وزیر مشیر سطح کے عہدیداروں کو ایسے تحائف ان کے نامور منصبوں پرتعینات ہونے کے باعث ہی ملتے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے ان کو یہ مقام نہ ملتا تو نہ ہوتا بانس بجتی بانسری۔ اللہ نے جن کو اپنے کرم سے نوازا ان میں سے کئی نے پاکستان کا بینڈ بجانے میں بھی کسر نہ چھوڑی تو قدرت نے ان کی بھی مت مار کے رکھ دی۔ اسد عمراور شاہ محمود قریشی کا بڑا پن ہے کہ انہوں نے تحائف قومی خزانے میں جمع کرا دئیے۔ حکومتی عہدیداروں کے لئے ایک آپشن موجود ہے کہ وہ خود کو ملنے والے گفٹ مناسب ادائیگی پر اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ آپشن استعمال نہیں کیا۔ ہمارے ایک ایسے وزیراعظم بھی رہے جن کی اہلیہ سیلاب زدگان کی امداد کے لئے ترک رہنما اردوان کی اہلیہ کی طرف سے دیا جانے والا نکلس دبا گئی تھیں جو بڑی مشکل اور ’’عزت افزائی ‘‘ کے بعد بازیاب کرایا جا سکا تھا۔ ایک گفٹ خزانے میں جمع کرانے اور دوسرے دبانے والے موجود ہیں۔
٭٭٭٭٭٭