تعلیم صحت اور پانی
سرفراز ڈوگر
اس میں کوئی شک نہیں کہ پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور صاف پانی کی عدم فراہمی کی وجہ سے بیماریاں جنم لے رہی ہیں،جبکہ پینے کا صاف پانی ہی سنگین مسئلہ بن چُکا ہے ،جس کے بغیر کوئی بھی جاندار زندہ نہیں رہ سکتا لیکن رواں دور میں پانی کے ساتھ ساتھ تعلیم اور صحت بھی انسان کی بنیادی اور اشد ضرورت بن چُکی ہے۔وہ وقت گئے جب بغیر پڑھا لکھا انسان بھی معاشرے کا کارآمد شہری کہلاتا تھا،بے شک تعلیم کی ہر دور میں اہمیت رہی ہے لیکن ماضی میں پڑھائی کو اتنی ترجیح واہمیت نہیں دی جاتی تھی بلکہ لڑکیوں کو زیادہ پڑھانا بڑامایوب سمجھا جاتا تھا اِدھر لڑکی نے پانچ جماعتیں پاس کی وہ گھر کے کام کاج میں مصروف ہو گئی زیادہ سے زیادہ مڈل پاس کیا تو اس کے ہاتھ پیلے کر دیئے ،اگر لڑکی مزید پڑھنے کا اظہار کرتی تو یہ کہہ کر اسے خاموش کروا دیا جاتا کہ تُم نے کون سی ملازمت کرنی ہے،لیکن اب وہ وقت نہیں رہا۔یہی حال صحت کا ہے ماضی میں اتنی بیماریاں نہ ہو تی تھیں جوں جوں آبادی میں اضافہ ہو تا گیا نت نئی بیماریاں جنم لیتی رہیں گو کہ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ،بیماری اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے ،وقت کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت کی طرف سے صحت کے مراکز قائم کئے جا رہے ہیں اور اگر قدر منزلت کے لخاظ سے دیکھا جائے تو پڑھائی کو اولین ترجیح دی گئی ہے۔ جبکہ یہ بھی ثابت ہو چُکا ہے کہ مضبوط معاشی اور علمی بنیاد کے بغیر کوئی قوم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل نہیں ہو سکتی۔ ہمارے قابل اور باصلاحیت نوجوان دنیا کی بڑھتی ہوئی معاشی ترقی میں اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کرنے کے لیے کوشاں ہیں،لیکن پڑھائی کے اخراجات حد سے زیدہ بڑھتے جا رہے ہیں۔ عالمگیریت کے اس دور میں ہمارے لیے ترقی کے امکانات تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور انشااللہ ہم اپنے اس مقاصد میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ ہمیں شعوری طور پر تیزی سے وقوع پذیر ہونے والی ان تبدیلیوں کے لیے تیار ہونا ہے اور سائنس اور معاشی ترقی کے فوائد کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافتی اور اخلاقی اقدار کو بھی مضبوط کرنے کی کوشش کرنا ہو گی۔ طلبا وطالبات کی دن رات محنت رائیگاں نہیں جائے گی طلبا کو چاہیے کہ اپنی نجی اور قومی ذمہ داریوں کو اپنی صلاحیتوں کے بہترین استعمال سے پورا کریں۔ عہد حاضر کے مسائل کے حل پر سنجیدگی سے غور وفکر کریں اوراُن کے حل کے لیے لائحہ عمل تیار کریں۔ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اپنے علم اور شعور کے ذریعے وسائل کا منصفانہ استعمال کرتے ہوئے اپنے معاشرے اور دنیا کو امن کا گہوارا بنائیں۔ہمارے ہاں نوجوانوں میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں صلاحیتوں سے مالا مال طُلبہ دیکھ کر دلی اطمینان محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا مستقبل محفوظ اور روشن ہے۔ ہمارے تعلیمی اِدارے ایک نعمت سے کم نہیں ہیں اور اصل نعمت پاکستان ہے ، جس کی دولت ہمارے نوجوان ہیں اور جس کی بدولت ہماری پہچان ہماری شناخت ہے پاکستان نے ہمیں بہت کچھ دیا۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے پاکستان کو کیا دیا؟
کیا حکومت نے نوجوانوں کی ترقی اور اُنہیں جدید علوم سے آراستہ کرنے کے لیے نئے ادارے ،کالجز اور یونیورسٹیاں بنائی ہیں؟ اس مقصد کے حصول کے لیے جنوبی پنجاب کوترجیح دی گئی ہے۔ ہمارے تعلیمی اِداروں میں طلبہ خصوصاً طالبات کے تحفظ کے لیے بھی واضح پالیسی بنائی جار ہی ہے جو خوش آئند ہے۔اسی طرح حکومتی قانون نافذکرنے والے اِداروں کے اشتراک سے دہشت گردی کا خاتمہ کر کے محفوظ اور پُر امن تعلیمی ماحول بنا نے کی بھرپور کوشش جاری ہے۔ اساتذہ کو بھی قوم کا معمار قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا،وہ بھرپور لگن اور محنت سے بہترین تربیت یافتہ اور ہنر مند نوجوان تیارکررہے ہیں اپنے فکر وعمل سے طلبہ وطالبات کے روشن مستقبل کے لئے کوشاں ہیں۔یہاں یہ بات بھی قابل امر ہے کہ اس سلسلہ میں کالجز اور یونیوسٹیوں کابھی اہم کردار ہونا چاہئے انکا ’’اتوار بازار‘‘ ہونا چاہئے تاکہ کوئی طالب علم پڑھائی سے محروم نہ رہے اور سکولوں کی طرح فری کتب اور بغیر فیس کالجز اور یونیوسٹیاں ہونی چاہئیں،اس وقت بے شمار طلبہ وطالبات ایسے ہیں جو اعلیٰ پوزیشن کے ساتھ یہاں تک پہنچے ہیں لیکن پرائیویٹ کالجز یونیوسٹیوں کی بھاری فیس کی ادائیگی ان کے لئے وبال جان بنی ہوئی ہے یہ ادائیگی ان طلبہ و طالبات کے لئے مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں ایسے طلبا وطالبات ہیں جو صرف اور صرف اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے پڑھائی کو خیر باد کہہ گئے ہیں جو پڑھنا تو چاہتے ہیں لیکن مالی وسائل نہ ہو نے کی وجہ سے ملازمت کرنے پر مجبور ہیں۔تعلیم اور صحت ہر انسان کا بنیادی مسئلہ ہے اور اس مسئلے کو اولین ترجیح دینی چاہئے۔ تحقیقی عملی میدان میں نئی یونیورسٹیوں اور کالجز کی تعمیر کو اولین ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔