بیرون ملک سے رقوم کی واپسی کیلئے قوانین ہیں نہ 2011 سے پہلے کی سرمایہ کاری پر تحقیقات کی اجازت
اسلام آباد (آئی این پی) فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے سپریم کورٹ میں پاکستانی شہریوں کے بیرون ملک اکاﺅنٹس ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران رقم واپس منتقل کرنے میں بے بسی کا اظہار کر تے ہوئے کہا ہے کہ مختلف قانونی پیچیدگیوں کے سبب رقم کی واپسی اور احتساب کے مطلوبہ نتائج کی راہ میں قدغن حائل ہے، پانامہ اور دیگر لیکس میں آنے والے 444 افراد کے خلاف تحقیقات جاری ہیں، یکم جولائی 2011 سے پہلے کی سرمایہ کاری پر تحقیقات کی اجازت نہیں۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پاکستانی شہریوں کے بیرون ملک اکا ﺅ نٹس ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی جس میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے عدالت کو بتایا کہ پاناما اور دیگر لیکس میں آنے والے 444 افراد کے خلاف تحقیقات جاری ہیں تاہم عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیرون ملک معلومات کی فراہمی کا لیگل فریم ورک موجود نہیں ہیں اس قدغن کو قانون میں ترمیم سے دور کیا جاسکتا ہے۔ لیگل فریم ورک کی رکاوٹیں دور کرنے کےلئے ٹریٹیز کر رہے ہیں۔ ایف بی آر کو یکم جولائی 2011 سے پہلے کی سرمایہ کاری پرتحقیقات کی اجازت نہیں۔ نان ریذیڈنٹ سے آمدن کے ذرائع نہیں پوچھ سکتے۔ ایف بی آر کی رپورٹ میں کہا گیا پیشہ ورانہ رویے اور خلوص نیت سے تحقیقات کررہے ہیں۔ قومی دولت کے ضیاع کا احساس ہے تاہم مختلف وجوہات کی بناپرمطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکتے۔ ایف بی آر نے ان تک کی کارروائی کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ یواے ای اتھارٹیزسے55 پاکستانیوں کی جائیدادوں کی تفصیلات حاصل کرلیں۔ 29 پاکستانی ایف بی آرمیں سالانہ گوشوارے جمع کرا رہے ہیں جن میں سے صرف پانچ نے متحدہ عرب امارات کی جائیدادیں گوشواروں میں ظاہر کی ہیں۔ پانامالیکس میں 444 پاکستانیوں کے نام آئے ہیں جن میں سے 366 افراد کو نوٹس جاری کیے جاچکے ہیں 78 افراد کے موجودہ پتے نہیں ملے جس کے سبب انہیں تاحال نوٹس نہیں بھیجے گئے ہیں۔ پانامالیکس کے61 نان فائلرز میں سے 47 نے گوشوارے جمع کرادیئے جبکہ پیراڈائز لیکس کے 38 افراد میں سے 18 ٹیکس فائلر ہیں۔
ایف بی آر