یومِ کشمیر کے موقع پر مظفرآباد کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے جناب نواز شریف نے فرمایا تھا کہ میں پاکستان میں نااہل ہوں۔کشمیر میں تو نااہل نہیں، سو میری ڈیوٹی ادھر ہی کہیں لگا دیں، کشمیریوں کی خدمت کروں گا۔ اسکی مثال بالکل ایسے ہی ہے کہ مغل شہنشاہ اورنگ زیب نے جب اپنے باپ شاہجہان کو آگرہ کے قلعہ میں قید کیا، تو معزول بادشاہ نے کہا تھا کہ سارا دِن فارغ ہوتا ہوں، محل کے بچے پڑھنے کیلئے بھیج دیا کرو۔ اورنگزیب نے درخواست رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’بوئے شاہی از دماغش نہ رفتہ‘‘ یعنی قبلہ کے دماغ سے ابھی بادشاہی کی بو نہیں گئی۔ وہی حال میاں صاحب کا ہے کہ اقتدار ہونا چاہئے، پاکستان کا نہ سہی، کشمیر کا سہی۔ خیر یہ تو ایک ہلکی پھلکی بات تھی مگر بدقسمتی سے حقائق بہت تلخ ہیں۔ قوم کنفیوژن کا شکار، ریاست غیر مستحکم اور دہشت گردی پھر سے سر اٹھا رہی ہے جن گھروں میں شہداء کے لاشے جاتے ہیں، انہیں سیاست نہیں سوجھتی انکے مسائل اور طرح کے ہوتے ہیں 20/22 برس کے جگر گوشوں کے جنازے اٹھانا سہل نہیں یہ ان سے پوچھیں جن پر یہ قیامت گزرتی ہے یہ شہادتیں کیوں ہو رہی ہیں؟ یہ چاند چہرے زمین تلے کیوں چھپتے جارہے ہیں؟ کہیں اسلئے تو نہیں کہ ہم سیاست کے نام پر لایعنی قسم کے تماشوں میں مصروف ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ بڑے میاں صاحب کے تو اس ملک میں کوئی سٹیکس ہی نہیں۔ انکے بچے باہر ، کاروبار باہر، اثاثے باہر، انکی تو نسلوں کا مستقبل محفوظ ہے۔ اس ملک کے اصل سٹیک ہولڈر تو ہم ہیں، جن کا جینا مرنا پاکستان کیلئے ہے اور دھرتی کو مسلسل اپنے خون سے سیراب کرتے آئے ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ میاں صاحب آخر کس راہ پر ہیں؟ 35 برس کی بادشاہی کے بعد بھی انہیں قوم سے گلہ ہے؟ آخر وہ چاہتے کیا ہیں؟ اتنی محنت آپ نے اگر کسی مثبت کاز کیلئے کی ہوتی تو انقلاب برپا ہوچکا ہوتا۔ جیسے دہشت گردی کیخلاف جدوجہد کا یہ بہترین موقع تھا۔ اقتدار تو لایعنی چیز ہے، جس کے بارے میں اللہ کے نبیؐ کا فرمان کہ اسکی خواہش نہ کرو تو پھر پوری قوم کو کاہے کو یرغمال بنا رکھا ہے؟ جناب میاں صاحب اور دختر نیک اختر کسی شام اکٹھے بیٹھ کر یہ سوچیں کہ ان کا مشن ہے کیا؟ 22 کروڑ عوام اگر اسے سمجھ نہیں پائے، تو اس میں کوئی بنیادی نقص ضرور ہے۔ جناب نواز شریف یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ناگزیر کوئی بھی نہیں ہوتا اور دنیا بھر کے قبرستان ناگزیر ہڈیوں سے بھرے پڑے ہیں۔
تخت نشینی کی جنگ بہت خوفناک ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں کے اس سارے ہنگامے میں بھی تخت نشینی کی جنگ کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ 35 برس سے مقتدر شریفین پاکستان بھی مغلوں کی راہ پر ہیں اور اقتدار میں رہنے والے حربے بھی اُنہیں جیسے۔فرق صرف اتنا ہے کہ تب کھلے عام خون بہایا جاتا تھا اور اب ارمانوں کا خون کیا جاتا ہے۔ جناب نواز شریف متعدد بار برادرخورد کی جانشینی کا اعلان کرچکے کہ 2018 ء کے الیکشن کے بعد جناب شہباز شریف وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہونگے اور وہ بھی ذمہ داری کیلئے آمادہ یہ بھی شنید ہے کہ سعودیہ اور یو اے ای کی کوششوں سے بیتے دسمبر اسٹیبشلمنٹ اور شریف خاندان کے مابین معاملات طے پا گئے تھے کہ وزارت عظمیٰ کیلئے پارٹی امیدوار جناب شہباز شریف ہونگے۔ نواز شریف صاحب پارٹی صدر رہ سکتے ہیں اور اگر معاملات مزید سدھر گئے، تو انہیں صدر مملکت بنانے کا بھی سوچا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ ن لیگ اور اس کی قیادت کے ساتھ ٹکراؤ نہیں چاہتی اور غیر ملکی میڈیا نے بھی اس بندوبست کی تصدیق کی تھی۔ ایسے میں ذہنی اذیت میں مبتلا قوم بڑے میاں صاحب سے جاننا چاہتی ہے کہ کیا اوپر بیان کی گئی کہانی درست ہے؟ کیا وہ یہ ساری تگ و دو چھوٹے بھائی کیلئے کررہے ہیں یا پھر اپنی چوتھی ٹرم پکی کر رہے ہیں؟ بہرحال حالات و واقعات کا تقاضا یہی ہے کہ اگلی ٹرم کیلئے ایوان وزیراعظم کا باسی شہباز شریف ہو جس کے بارے میں 2015ء میں ’’دی اکانومسٹ‘‘ نے اپنے ایک شمارے میں لکھا تھا کہ پنجاب کی ترقی کیلئے اس نے رات دن دیوانوں کی طرح کام کیا ہے۔ کارکنوں اور حکام کی ٹیم کو بھگا بھگا کر ادھ موا کرنے کی شہرت رکھنے والے شہباز شریف کی محنت، صلاحیت، اخلاص اور رفتار کے معترف غیر ملکی بھی ہیں۔ اپریل 2017ء میں پنجاب وزٹ پر آنیوالے ایک اعلیٰ سطحی چینی وفد نے کہا تھا کہ میگا پراجیکٹس کے حوالے سے شہباز شریف کی سپیڈ، شفافیت اور کوالٹی لائق تحسین ہے۔ چین میں کارکردگی کے اس پیکیج کیلئے شَین زن سپیڈ Shenzhen Speed کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی، جسے اب ہم نے بدل کر پنجاب سپیڈ کا نام دے دیا ہے۔ لاہور میں تین برس (2013-16) تک متعین رہنے والے امریکی کونسل جنرل ہرکن رائیڈر نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اس سارے عرصے میں شہباز شریف کی کارکردگی کو میں نے نہایت قریب سے دیکھا ہے ان کی جنّاتی کارکردگی کا راز دو باتوں میں ہے اوّل یہ کہ انہیں اپنی منزل کا خوب علم ہوتا ہے، اور دوئم وہاں تک کیسے پہنچنا ہے، اس میں بھی کوئی کنفیوژن نہیں ہوتا۔ امریکہ کی تاریخ سے اگر مجھے شہباز شریف کی مثال ڈھونڈنا ہو تو ذہن میں بے مثل انجینئر اور پلانر رابرٹ موسس آتے ہیں، نیویارک کی تعمیر و ترقی میں جن کا بڑا نام ہے۔ جرمن بے حد محنتی قوم ، اور محنت کرنیوالوں کی قدر دان بھی، خواہ ان کا تعلق کسی رنگ و نسل سے ہو۔انرجی بحران سے نمٹنے کیلئے جھنگ کے قریب حویلی بہادرشاہ میں 1263 میگاواٹ کے پاور پلانٹ کا سنگ بنیاد رکھنے کے تقریب کے موقعہ پر پاکستان میں جرمنی کے سفیر مارٹن کوبلر نے شہباز شریف کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا تھا، جس کا اسلام آباد کی سفارتی برادری نے سنجیدگی سے نوٹس لیا تھا۔ اگلے روز ایک مغربی سفارتکار کے ساتھ نشست تھی۔ موصوف نے شہباز شریف کی کارکردگی کو جنون قرار دیا، اور کہا کہ وہ ہر پراجیکٹ کو لے کر یوں آگے چلتے ہیں کہ گویا اس میں ان کا سب کچھ داؤ پر لگا ہو، اور اگر کہیں کوئی کسر رہ گئی تو ان کی بہت سبکی ہوگی، اورنج ٹرین پراجیکٹ ڈمپ ہو جانے کے بعد شہباز شریف کی زندگی گویا ویران ہوگئی تھی اور کیفیت یہ تھی کہ now what? اَب کیا کروں؟ اور پھر عدالتی اجازت نامہ نے ان کی مشکل آسان کردی تھی۔ مرکز میں ایسے شخص کی خدمات سے فائدہ نہ اٹھانا، قوم کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ خانگی سیاست ایک طرف، حقدار کو حق ملنا چاہئے۔ قوم پنجاب سپیڈ کو اب پاکستان سپیڈ کی شکل میں دیکھنا چاہتی ہے۔ اقدار و روایات کا امین بھائی زندگی بھر گول کے قریب پہنچ کر گیند بڑے بھائی کو دیتا رہا، کہ کامیابی اسکے نام ہو۔ یقیناً اس کی محبتوں اور خدمتوں کا قرض چکانے کا وقت آچکا۔ نواز شریف صاحب! اَب پیچھے ہرگز نہ ہٹے گا۔ عملی سیاست بہت کرلی، اَب آپ کا کردار رہبر ورہنما کا ہونا چاہیئے اور سٹیرنگ ایک ایسے آدمی کے ہاتھ میں ہو جو بہت کچھ نیا کرنے کی اُمنگ اور صلاحیت رکھتا ہو۔