عالمِ اسلام اور گریٹ گیم
دوسری جنگ عظیم جہاں ہولناک تباہیوں کا سبب بنی، لاکھوں بے گناہ انسان جان سے مارے گئے وہاں اس نے مستقبل کی عالمی تاریخ کا رخ بھی بدل دیا۔ اس جنگ کا خاتمہ مختلف انداز میں اقوامِ عالم پر اثرانداز ہوا۔ سب سے پہلی چیز جو سامنے آئی وہ مغرب کی استعماریت کیخلاف جذبہ آزادی تھا۔ اہل مغرب نے دنیا میں مختلف ممالک اور مختلف اقوام کو اپنا غلام بنا رکھا تھا جہاں آزادی کی تحریکوں نے جنم لیا۔ اہل مغرب اس جنگ کے نتیجے میں اتنے کمزور ہو چکے تھے کہ ان اقوام پر اپنا قبضہ برقرار نہ رکھ سکے لہٰذا ایک ایک کر کے تمام غلام ممالک آزاد ہو گئے جس میں پاک و ہند بھی شامل تھے۔ اس جنگ کا دوسرا بڑا نتیجہ یہ تھا کہ عالمی قیادت اہل یورپ سے نکل کر امریکہ منتقل ہو گئی اور امریکہ اپنی ٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت نام نہاد آزاد دنیا کا لیڈربن کر ابھرا جو آج تک ہے۔ تاریخ عالم پر اپنی خواہش کے مطابق اثرانداز ہو رہا ہے۔ تیسری دنیا کے بہت سے ممالک امریکی چودھراہٹ کی سر پرستی میں زندہ رہنے پر مجبور ہیں۔ جنگ کے تیسرے بڑے نتیجہ کے طور پرایٹم بم ایک طاقتور ہتھیار کے طور پر سامنے آیا اور ایٹمی توانائی مستقبل کی طاقت قرار پائی۔ نتیجتاً تمام اہم ممالک نے ایٹمی توانائی کا حصول ضروری سمجھا اور آج تقریباً ایک درجن ممالک کے پاس ظاہری یا باطنی طور پر یہ ٹیکنالوجی موجود ہے۔ مستقبل کی جنگوں میں ایٹمی طاقت اہم کردار ادا کریگی اور بے پناہ انسانی تباہی کا موجب بن سکتی ہے۔
آج کی دنیا میں صرف امریکہ کے پاس اتنے ایٹم بم موجود ہیں کہ موجودہ دنیا کو کئی بار تباہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر خدانخواستہ مستقبل میں کہیں بھی ایٹمی جنگ ہوئی تو کئی ممالک صفحہ ہستی سے مٹ جائینگے اور شاید قیامت اسی کا نام ہے۔
جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں بہت سے غلام ممالک جن پر یورپی اقوام قابض تھیں آہستہ آہستہ آزاد ہو گئے۔ ان میں زیادہ تر مسلمان ممالک تھے۔ دورِ غلامی میں ان غلام مسلمان ممالک کے تمام تر معدنی وسائل قابض اقوام کے زیراستعمال تھے جن سے انکی انڈسٹریز چل رہی تھیں اور وہ ملک خوشحال تھے۔ آزادی کے بعد سے ان یورپی ممالک کیلئے مسلمان آزاد ممالک کے وسائل تک دسترس مشکل ہو گئی۔ امریکہ کو بھی اپنی ترقی کیلئے معدنی وسائل کی سخت ضرورت تھی۔ ان میں سر فہرست تیل کی دولت تھی جس سے کچھ مسلمان ممالک مالا مال تھے بلکہ دنیا کا آدھے سے زیادہ تیل محض چار مسلمان ممالک میں موجود تھا اور یہ تھے ایران، سعودی عرب، عراق اور لیبیا… لہٰذا تیل کے حصول کیلئے مغربی ممالک اور امریکہ نے مل کر اُس ’’گریٹ گیم‘‘ کی منصوبہ بندی کی جو آج تک جاری ہے۔ صرف وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ مسلمانوں کی بدقسمتی یہ تھی کہ انکی زمین کے نیچے اللہ تعالیٰ نے یقیناً خزانے دفن کر رکھے تھے لیکن وہ ان سے مستفید ہونے کیلئے مطلوبہ علم اور ٹیکنالوجی سے محروم تھے لہٰذا ان ممالک کو ٹیکنالوجی کے نام پر بلیک میل کر کے انکے وسائل پر قبضہ کیا گیا۔ دوسرا مشرق وسطیٰ کو مستقل طور پر زیرتسلط رکھنے کیلئے عربوں کے سینے میں چھرا گھونپ کر اسرائیل کی یہودی سلطنت قائم کی گئی جسے امریکہ کا ناجائز بچہ بھی کہا جاتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی اتنی مدد کی گئی کہ وہ مشرق وسطٰی کی سپر پاور بن گیا۔ اس نے اپنے اردگرد کے تمام مسلمان ممالک کو جنگ میں شکست دیکر اپنی برتری قائم کر لی اور یہی اسکے قیام کا مقصد تھا۔ اب کسی مسلمان ملک کو اسرائیل کے سامنے کھڑا ہونے کی جرأت نہیں۔ ’’گریٹ گیم‘‘ میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ مسلمان ممالک کو اتنا کمزور کر دیا جائے کہ یہ کسی کے سامنے سر نہ اٹھا سکیں اور اس کیلئے اسرائیل کی جنگی کامیابیوں کے علاوہ کئی حربے استعمال کئے گئے۔ سب سے بڑا حربہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑایا جائے اور دوسرا اقوام متحدہ کے ذریعے انہیں تقسیم کر دیا جائے۔ اسکے نتیجے میں ایران، عراق جنگ شروع ہوئی حالانکہ دونوں اہل تشیع ممالک ہیں۔ دونوں ممالک لڑنے کیلئے ہتھیار انہی طاقتوں سے حاصل کرتے رہے جو انہیں لڑانے کی ذمہ دار تھیں۔آپس میں لڑ لڑ کر دونوں ممالک کمزور اور تباہ و برباد ہوئے۔ سوڈان اچھا بھلا خوشحال ملک تھا۔ اس میں پہلے فوجی انقلاب لائے گئے اور پھر اسے تقسیم کر کے جنوبی سوڈان عیسائیوں کیلئے علیحدہ کر دیا گیا اور تیل کا علاقہ انہیں دے دیا۔ اسی طرح انڈونیشیا کا آپریشن کر کے اس میں سے مشرقی تیمور علیحٰدہ کیا گیا۔ بعد میں عراق سے کویت پر حملہ کرا کے اس پر تباہ کن ہتھیار رکھنے کا الزام لگا کر خود امریکہ نے حملہ کر دیا۔ جن مسلمان لیڈروں نے اس ’’گریٹ گیم‘‘ کو سمجھ لیا تھا انہوں نے امریکی چنگل سے نکلنے کی پوری کوشش کی لیکن انہیں نشان عبرت بنا دیا گیا۔ ان میں ایران کے وزیراعظم ڈاکٹر مصدق، سعودی عرب کے شاہ فیصل، پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور لیبیا کے صدر معمر قذافی شامل ہیں۔
اس ’’گریٹ گیم‘‘ میں اگلے قدم کے طور پر تین اہم اقدامات اٹھائے گئے۔ اول: مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور جنوبی ایشیا میں بھارت کو امریکہ کے نزدیکی سٹریٹیجک پارٹنر قرار دیکر انہیں اتنا مضبوط کیا جا رہا ہے کہ وہ بھی امریکن طاقت کے نمائندوں کے طور پر علاقے کی سربراہی کریں۔ مشرق وسطیٰ کے مسلمان ممالک اسرائیل کی سرپرستی قبول کرینگے اور جنوبی ایشین ممالک بھارت کی۔ مشرق وسطیٰ میں عراق و شام کسی حد تک مستحکم ملک تھے انہیں جنگ سے تباہ کر دیا گیا ہے۔ وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہے۔ مصر مضبوط ملک سمجھا جاتا تھا، وہ بھی اسرائیلی تابعداری قبول کر چکا ہے اور یہ تابعداری یہاں تک ہے کہ صحرائے سینا میں جو کچھ عرصہ پہلے خودکش حملہ ہوا تھا۔ ان پر فضائی بمباری اسرائیلی جہاز اور ہیلی کاپٹرز کررہے ہیں اور یہ سب کچھ مصری صدر السیسی کی مرضی اور خواہش کے مطابق کیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب اس علاقے کی دوسری بڑی طاقت ہے، وہ بھی خفیہ طور پر اسرائیل کی تابعداری قبول کر چکا ہے، خفیہ طور پر اسرائیل سے تعلقات بھی قائم کررکھے ہیں۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے وہ بھی کافی حد تک اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکا ہے۔ چین سے وہ اپنے تعلقات بہتر بنانے کیلئے کوشاں ہے۔ وسط ایشیا کے تمام ممالک سے بہترین تعلقات ہیں۔ افغانستان اسکی گود میں ہے اور وہ افغانستان کو ساتھ ملا کر پاکستان سے جنگ لڑ رہا ہے۔ ایران میں پانچ سو ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ ایران کی چاہ بہار بندرگاہ چالو کی ہے لہٰذا ایران سے بھی بہتر تعلقات ہیں۔ ہمارے برادر مسلم ممالک سعودی عرب اور عرب ریاستیں ہماری نسبت بھارت سے زیادہ قریبی تعلقات رکھتی ہیں۔ پاکستان کو اقوام عالم میں بھارت تنہا کر چکا ہے۔ اب پاکستان ایک ’’دہشت گرد‘‘ ملک کے طور پر جانا جاتا ہے، پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کر کے توڑنے کیلئے کوشاں ہے۔ امریکہ سے ہماری سلامتی کیخلاف مسلسل دھمکیاں دلا رہا ہے لہٰذا عالمِ اسلام کو مغرب کی فریب کاریاں سمجھ کر متحدہ منصوبہ بندی کی سخت ضرورت ہے۔