خوف کا شکار قیادت اورمقدس ریاستی ادارے تھر تھر کانپ رہے ہیں عالمی تنہائی کے ڈر سے تعجیل کاشکار ہوکر عجلت میں اپنے پاؤں پر وار کئے جارہے ہیں جس شاخ پر آشیانہ قائم دائم ہے اسی کو کاٹے جارہے ہیں۔ حافظ سعید اور دکھی انسانیت کے لئے مصروفِ عمل جماعت الدعوہ پر بھارت نہیں شاہد خاقان عباسی کی حکومت حملے کر رہی ہے۔ عالمی سازشوں سے باخبر ایک باخبر مہربان نے شب گذشتہ استفسار کیا تو علم ہواکہ حالات کس نہج تک پہنچ چکے ہیں وہ پوچھ رہے تھے۔ "لاہور کب جارہے ہو احتیاط کرنا" حافظ سعید سے ذرا دور ہی رہنا ڈرون حملے کا خطرہ ہے" اور اس کالم نگار نے فیصلہ کیا کہ LUMS یونیورسٹی میں آج سے شروع ہونے والی پنجابی کانفرنس میں حاضری کے بعد حافظ سعید کا 'زبردستی' مہمان بنوں گا۔ حکومت پاکستان نے حافظ سعید سے منسوب جماعت الدعوہ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن پر پابندی عائد کرکے اس کی تمام املاک پر قبضہ کرلیاہے۔ دکھی انسانیت کی خدمت میں دن رات مصروف عمل ایمبولینسوں کو بند کردیاگیا ہے مرکز طیبہ مریدکے پر قبضہ کرکے کسی نامعلوم گورنمنٹ اسلامی یونیورسٹی کا بورڈ لگا کر چیف سکریٹری دفتر کے اہلکار رانا ارشد کو ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیاگیا ہے اسی طرح صوبہ پنجاب میں جماعت الدعوہ کے تمام مراکز، ڈسپنسریوں، مدارس وتعلیمی ادارے سرکاری تحویل میں لے کر ایڈمنسٹریٹر مقرر کردئیے ہیں جبکہ صوبہ سندھ نے اس طرح کی کارروائی کرنے سے انکار کردیاہے بلوچستان حکومت نے آگاہ کیاہے صوبے میں جماعت الدعوہ کا کوئی دفتر بروئے کار نہیں ہے۔ خیبر پی کے نے تاحال وفاق کو جواب نہیں دیا۔ سندھ حکومت نے جماعت الدعوہ اور فلاح انسانیت کے فلاحی آپریشنز سنبھالنے سے معذوری ظاہر کر دی۔ ایف آئی ایف نے آواران زلزلے میں کام کیاتھا۔ جواب بند ہے۔ یہ احمقانہ کاروائیاں امریکی دباؤ پر صدارتی آرڈیننس کے تحت کی گئی ہیں جو 'دیدہ و بینا' جہان دیدہ صدر ممنون حسین کے دستخطوں سے جاری ہواہے۔ جماعت الدعوہ کے برادرم یحیٰی مجاہد نے ان کارروائیوں پر قانونی جنگ لڑنے کا اعلان کرکے امریکہ اور اس کے پاکستانی حامیوں کی توقعات پر پانی پھیر دیا ہے۔ جو ان جارحانہ اقدامات کے ردعمل میں گلی کوچوں اور بازاروں میں خون کی ندیاں بہنے کے خواب دیکھ رہے تھے جن کو حافظ سعید اور ان کے پیروکاروں نے مومنانہ بصیرت سے خاک میں ملا دیاہے۔ جماعت الدعوہ کے ترجمان یحی مجاہد کامونکی میںمرحوم اشفاق ساجد کی نماز جنازہ میں مل گئے وہ بتا رہے تھے کہ اصل ہدف پاکستان کا ایٹمی پروگرام'میزائل پروگرام اور خود مختاری ہے شاطر امریکی حافظ سعید کی آڑ میں وسیع تر جنوبی ایشیا کے مکروہ منصوبے کو آگے بڑھا رہے ہیں جس میں چند میڈیا گروپوں کے کارندے شامل ہیں۔ امریکہ نے پاکستان کو دہشت گردوں کا معاون ملک قرار دلانے کی قرارداد فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں پیش کررکھی ہے۔ جس پر آئندہ ہفتے پیرس میں ہونے والے اجلاس میں غور کیاجائے گا۔وزارت داخلہ نے جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت دونوں تنظیموں کو شیڈول ون میں شامل کرنے کا باضابطہ نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا۔ صوبوں کو نئے ترمیمی صدارتی آرڈیننس کے تحت ان تنظیموں کے خلاف کارروائی کی ہدایت کردی گئی۔ اتوار کوجاری کئے جانیوالے صدارتی آرڈیننس پر جمعہ نو فروری کی تاریخ درج ہے۔ یہ آرڈیننس افراتفری میں ایسے موقع پر جاری ہوا جب ایک دن بعد پیر کو سینٹ کا اجلاس شروع ہونے والا تھا جہاں یہ بل پیش کرکے نئی قانون سازی کی جاسکتی تھی۔ اسی آرڈیننس کی بنیاد پر وزارت داخلہ نے دس فروری کو جماعت الدعوہ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن پر پابندی، تمام منقولہ وغیرمنقولہ اثاثے منجمد کرکے سرکاری تحویل میں لینے اور دونوں کے رہنماؤں کی گرفتاری کا مراسلہ جاری کیا۔یحییٰ مجاہد کہتے ہیں کہ حکمران شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔ نیا صدارتی آرڈیننس صرف جماعت الدعوہ ہی نہیں بلکہ ملک کے خلاف سازش ہے۔ ہم نے پہلے بھی حکومت کے غیرآئینی اور غیرقانونی فیصلوں کے خلاف قانونی جنگ لڑی ہے اور آئندہ بھی قانونی طریقے سے اپنا حق لیں گے۔
امریکہ کی پاکستان سے دشمنی کی اصل وجہ بھی سامنے آگئی ہے۔ امریکہ کے انٹیلی جنس اداروں نے ایوان بالا' سینٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کو امریکہ کے تمام خفیہ اداروں کے حوالے سے سالانہ بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان چھوٹے بموں سمیت نئے اقسام کے جوہری ہتھیاروں کے علاوہ سمندر اور فضا سے اہداف پر حملوں کے لئے طویل فاصلے تک مارکرنے والے بیلسٹک کروزمیزائل بنارہا ہے۔ پاکستان میں کسی قسم کی یک طرفہ امریکی کارروائی ریڈلائن ثابت ہوگی۔ جس کا جواب دیاجائے گا۔
پاکستانی قیادت کا اصرار ہے کہ ہمیں امریکہ سے امداد نہیں تجارت کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور افغانستان جغرافیائی لحاظ سے ایک دوسرے سے بندھے ہیں۔ افغانستان میں بدامنی کی قیمت پاکستان چکا رہا ہے۔ امریکہ پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے، افغانستان میں امن پسند نتائج کے حصول میں امریکی ناکامی کا ملبہ ہم پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ امریکہ جنوبی ایشیا اور افغانستان کو بھارت کے بجائے آزادانہ نگاہ سے دیکھے۔