کسی لاڈلے کو آج کے دور میں بر سر قتدار لانا بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ اور آج کی پاکستانی قوم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے نہیں بیٹھی ہے۔ اب بر سر اقتدار آنے کیلئے صاف اور شفاف الیکشن ناگزیر ہیں۔ جو یقیناً 2018ء کے وسط میں منعقد ہوں گے۔چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کا یہ آخری سال ہے۔ وہ بڑی محنت اور ریاضت سے شب و روز عدلیہ کے وقار میں اضافے کی کوشش میں فعال اور متحرک ہیں۔ اتوار کا خوبصورت اور دلکش سکون و آرام ترک کر دینا بڑی ہمت کا کام ہے۔ بجا طور پر جناب چیف جسٹس سے امید اور توقع وابستہ کی جا سکتی ہے کہ وہ حالیہ دور میں عدلیہ کے حوالے سے معاملات کا جائزہ لیں اور اس بات کا بھی کہ عدلیہ پر تنقید کے کیا محرکات ہو سکتے ہیں اور ان میں کس حد تک وزن ہے۔
اگر سیاسی معاملات میں عدلیہ کی دلچسپی کے بعض نتائج اور اثرات غیر معمولی ہیں تو ان پر بھی صدق دل اور غیر جانبداری سے غور وفکر میں مضائقہ نہیں ہے۔ جناب ثاقب نثار، درد مند، سنجیدہ اور پاکباز اور دیانتدار شخصیت ہیں۔ انکے رفقائے کار بھی اعلیٰ درجے کی شخصیات ہیں۔ چیف آف آرمی سٹاف نے حد درجہ ذہانت ، متانت اور تدبر کا ثبوت دیا ہے۔ جناب چیف جسٹس بھی حب الوطنی کے جذبے سے سر شار ہیں۔ چند روز پہلے جناب نواز شریف کیخلاف ان پٹیشنز کی تاریخ تھی جن میں انکی پارٹی صدارت کو چیلنج کیا گیا ہے۔ مسلم لیگ کے اکابرین موجود تھے راجہ ظفر الحق ، پرویز رشید، سعد رفیق، خواجہ آصف وغیرہ انہوں نے تاریخ لی۔ جواب فروری میں رکھی گئی ہے۔ مارچ میں سینٹ الیکشن ہیں۔ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا یہ عدالت کا کام ہے۔ہمارا کام محض حالات کے غور و فکر کے نتیجے میں سیاسی تجزیہ ہے۔ اندیشہ موجود ہے کہ عدالت ، جناب نواز شریف کو صدارت سے محروم کر سکتی ہے۔ اب یہ مسلم لیگ کے اکابرین اور قائدین کی دانائی اور دور اندیشی پر منحصر ہے کہ وہ اپنے اقدامات کرتے رہیں دو تجاویز پر غور ہو سکتا ہے۔ 1۔ جناب نواز شریف کو صدر کے ساتھ تا حیات پارٹی کا بانی قائد مقرر کر دیا جائے اور یہ کہ معاملات پر ان کا فیصلہ حتمی ہو گا۔2۔ پارٹی کا نام ہمیشہ مسلم لیگ نواز ہو گا۔ جسے تبدیل نہیں کیا جائیگا۔
صدارت چلی بھی گئی تو کام چلتا رہے گا مسلم لیگ میں Insideان دنوں حالات انگریزی کے محاوے جیسے ہیں۔
’’So mony cooks in the Kitchen spoil the food‘‘ اور یہی ہو رہا ہے۔ نفسا نفسی کا عالم ہے۔ عالم خوف ہے، دور اندیشی کا فقدان ہے۔ سیاسی جماعتوں کو کبھی کبھی مصائب ’’ اور مشکل ‘‘ صورتحال سے گزرنا پڑتا ہے۔ صبر و تحمل برداشت اور حوصلہ مندی کے علاوہ ذہانت سے حالات کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ اپنے لیڈر نواز شریف اور مریم نواز کی حفاظت کارکنوں کا فرض ہے۔
نواز شریف نے سیاست کے نشیب و فراز دیکھے ہیں، وہ بہت گہرے سیاستدان ہیں۔ انکی دانائی نے ہی انہیں تین بار وزیر اعظم پاکستان کے منصب پر فائز کیا اب وہ نئی اننگ کھیل رہے ہیں۔ کامیاب اور سرخرو ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ مسلم لیگ کے اکابرین اور قائدین کی سمجھ میں اتنی سی بات نہیں آتی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مقتول بھٹو کی ’’ روح‘‘ اگر پی پی میں جان ڈالی سکتی ہے تو زندہ و جاوید نواز شریف کے زیر سایہ پارٹی پر کونسی قیامت آ جائیگی؟ بیشک یہ بات طے ہے آزما کر دیکھ لیں کہ پارٹی وہ ہی چلے گی، جسے نواز شریف کی سپورٹ اور تعاون اور حمایت حاصل ہو گی۔ ایسی کسی مسلم لیگ کا پھلنا پھولنا ممکن نہیں ہے جسے نواز شریف کی شفقت حاصل نہ ہو۔پارٹی صدارت کے علاوہ مسلم لیگ ن کو نواز شریف اور مریم نواز کے حوالے سے سزا کا بھی معاملہ در پیش ہے۔ سیاستدانوں پر مخالف طاقتور حلقے خود یا کسی کی امداد اور تعاون سے مقدمات بھی قائم کرتے ہیں اور سزا دلوانے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ تو پھر وہ ہی بات ہے So What یہ سب Routineکی باتیں ہیں۔ یہ سب مخالفین کرتے رہے ہیں اور سب حکمرانوں کے ساتھ ہوتا رہتا ہے۔ سزا ، حوصلہ مند رہنمائوں کو پریشان نہیں کرتی۔ خود جناب نواز شریف کو پرویز مشرف کا دور رستم اچھی طرح یاد ہے۔ کیا سزا نہیں ہوئی تھی کیا جیل نہیں گئے تھے ہتھکڑی نہیں پہنائی گئی تھی۔ کیا جلا وطنی نہیں ہوئی تھی۔ پھر کیا ہوا۔ تقدیر نیا رخ بھی بذریعہ ’’ دعا‘‘ اختیار کر لیتی ہے۔پارٹی اس دور میں کونسی متحد تھی اب ہو گی چودھری شجاعت اور شیخ رشید اس دور کے بھگوڑے تو ہیں۔ اب بھی معمولی ٹوٹ پھوٹ سے قیامت نہیں آ جائیگی۔ نہایت عاجزی کے ساتھ ہمارا دعویٰ ہے کہ مستقبل کی پاکستانی سیاست بھی نواز شریف کی شخصیت کے زیر اثر رہے گی۔ ناکامی عمران خان کا مقدر بن چکی ہے اور آصف زرداری ، شدید مایوسی کا شکار ہونگے گو وہ حالیہ سازشوں میں کامیاب رہے ہیں۔
آج کے عوام بہت با شعور ہیں۔ وہ فیصلوں کو سمجھ بھی لیتے ہیں انکے اثرات کو بھی اس سوال کا کسی کے پاس جواب ہے کہ نواز شریف نے دو تین جلسے جو بھی کئے ہیں ان میں عوام کا سمندر کس بات کا ثبوت ہے؟ جس کے ساتھ عوام کی قوت ہو گی وہ ہی کامران رہے گا۔ اداروں اور شخصیات کے حوالے سے فیصلہ تاریخ صادر کرتی ہے۔ آج کوئی بھی جنرل یحییٰ، جسٹس انوار الحق ، جسٹس مشتاق کا ثنا خوان نہیں ہے۔