ایک مشہور واقعہ ہے کہ حضرت عیٰسی کوہ زیتون سے ہو کر عبادت گاہ میں گئے تو بہت سارے لوگ ایک گناہگار عورت کو پکڑ کر لائے ہوئے تھے۔ لوگوں نے حضرت عیٰسی سے کہا کہ موسیٰ اور اس کا قانون کہتا ہے اسے سنگسار کیا جائے۔ حضرت عیٰسی کہنے لگے آپ درست کہہ رہے ہیں ایسا ہی ہونا چاہئے اور اب تم میں سے جو گناہ گار نہیں ہے۔ وہ پہلا پتھر مارے چونکہ اس زمانے کے لوگ بھی آج کل کے زمانے سے مختلف تھے۔ لہذا لوگ اپنے اپنے ضمیر کے مجرم بن کر ادھر ادھر ہو گئے۔ حضرت عیٰسی نے مڑ کر اس عورت کو دیکھا اور کہنے لگے۔ ’’میں تمہیں کچھ اور نہیں کہتا۔
اب جائو اور مزید گناہ نہ کرو‘‘ اس قصے میں دو باتیں اہم ہیں۔ ایک تو مجمع اپنے اپنے ضمیر کے سامنے مجرم بن کر ادھر ادھر ہو گیا۔ اور دوسری یہ بات اہم ہے کہ حضرت عیٰسی نے اس عورت کو کوئی بڑا اعزاز دیئے بغیر یا مزید تنقید کئے بغیر یہ کہہ دیا کہ ’’ مزید گناہ نہ کرو‘‘۔ آج اپنے ضمیر کا مجرم لوگوں کو خود بنتا ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ مزید گناہ کرنے کی گنجائش ہی موجود نہیں ہے۔ آج کل یہ تنقید سامنے آ رہی ہے۔ کہ اداروں کو اپنی حد میں رہ کر کام کرنا چاہئے اور اپنی حدوں سے آگے نہیں بڑھنا چاہئے۔ لیکن اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کہ عدلیہ یا فوج کا کردار حکمرانوں کے کردار ادا کرنے کے بعد آتا ہے۔
اگر حکمران اپنی حدیں توڑنے کا عمل نہ کریں تو اداروں کو بھی حد میں رہنا آتا ہے لیکن بدقسمتی سے جب حکمران تمام حدیں توڑ کر من مانی کرتے چلے جائیں۔ اور من مانی بھی ایسی کہ جس میں اداروں کی تباہی سے لے کر ملکی معیشت اور سلامتی تک کو دائو پر لگا دیا جائے تو پھر یہ نوبت آتی ہے کہ حکمرانوں کے سامنے دیگر اداروں کو ایسے اقدامات کرنے پڑتے ہیں۔ جس میں لگام کھینچ کر رکھنے کی ضرورت پیش آنے لگتی ہے۔ لہذا کہیں نہ کہیں عدلیہ اور فوج کے کردار کو تنقید کا نشانہ بنانے سے پہلے اس بات کا ادراک کرنا ہو گا کہ حکمرانوں کو اپنے ضمیر کا مجرم بن کر سوچنا چاہئے کہ وہ اقتدار کے دوران ایسی غلطیاں کیوں کرتے ہیں اور اپنی حد بندی کا خیال کیوں نہیں کرتے کہ جس کے بعد بڑے بڑے مقدس اداروں کو بھی تنقید کا نشانہ بننا پڑ جاتا ہے اور یہ رویہ اداروں کے بعد شخصیات پر بھی آ جاتا ہے کہ حکمرانوں کی اندھا دھند نوازشات نے بھی بعض شخصیات کو بدنامی کے گڑھے میں پھینک دیا ہے اور انہیں سخت تنقید کا نشانہ بننا پڑتا ہے دیکھا جائے تو اب قصور بدنام ہو جانے والے افراد کا بھی ہے کہ جنہوں نے دونوں ہاتھوں سے بڑے بڑے اداروں یا ذاتی حیثیت سے پیسہ لوٹا اور اپنے ضمیر کے جوابدہ نہ ہوئے بلکہ ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے چلے گئے اور یہ دیکھنے کی زحمت گوارہ نہیں کی کہ وہ اس بے جا ترقی اور نوازشات کے حصول پر میرٹ کے ذریعے آ رہے ہیں یا پھر ان کی پشت پر ایک بڑا ہاتھ موجود ہے۔
بدقسمتی سے حکمرانوں کی غلط آشیر باد سے ملک میں شخصیات اتنی اہم کر دی جاتی ہیں کہ ادارے ان کے ہاتھوں کھلونا ہوتے ہیں اور عام لوگ ’’شخصیت پرستی‘‘ کے رحجان میں مبتلا ہو کر مفادات کا کھیل بھی کھیلتے ہیں اور خوشامد بھی کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ ایسے میں باقی کے لوگ وقتی طور پر خسارے میں دکھائی دیتے ہیں ۔لیکن علیحدہ بات کہ رسوائی ان کا مقدر بنتی ہے جنہوں نے اپنے ضمیر کی طرف سے آنکھیں بند کیسے رکھی ہوئی ہیں ہمارے ملک میں جس طرح اداروں کی حد بندی کے ذکر میں حکمرانوں کی غلطیوں کی وجہ سے ان اداروں کے تقدس کو مجروع ہونا پڑا ہے اور گلی بازاروں میں تنقید کا نشانہ بنا کر ان کی اہمیت کا تصور عوام کے ذہنوں میں خراب کیا جانے لگا ہے اسی طرح ملک کی بعض شخصیات بھی ایسی سامنے آئیں جن کی ملک کے لئے کچھ نہ کچھ خدمات ہونے کے باوجود حکمرانوں کی سرپرستی ان کے لئے بدنامی کا باعث بنتی ہے اور انہیں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے مگر یہ بھی سچ ہے۔ کہ ایسا کوئی بھی پاک صاف نہیں ہے جو گناہ گار قرار دیئے جانے والوں کو پتھر مارے لیکن پھر یہ بھی سچ ہے کہ اس طرح کے مزید گناہوں کی بھی گنجائش موجود نہیں ہے اور مزید گناہوں میں ایک دو باتیں اور بھی شامل ہو رہی ہیں کہ ایک تو جہاں بھی انسانی حقوق کی بات ہو وہاں یہ تاثر دیا جاتا رہا ہے کہ اسلام میں اس کی گنجائش موجود نہیں ہے اور یہ مغربی تنظیموں اور فنڈز کے بغیر ممکن نہیں ہے حالانکہ انسانی حقوق کا پہلا تصور اسلام میں ہی پایا جاتا ہے۔ باقی کے لوگوں نے فائدہ اٹھایا اور ہم ’’فلاحی‘‘ کام میں مغرب کی آشیر باد کے بغیر چلنے سے قاصر ہوتے چلے گئے اور اس نام پر این جی اوز بھی سامنے آتی رہیں۔
ظاہر ہے کہ انسانی حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری حکمران یا خود ریاست کے افراد کے ذمے نہیں ہو گی تو پھر باہر کے لوگ ہی یہ کام کرنے آئیں گے اور جب باہر سے لوگ آ کر ہمارے سماج کے لوگوں کو انسانی حقوق دلائیں گے تو ان کے ساتھ کام کرنے والوں کو کسی حد تک ان کی کچھ باتوں یا ایجنڈا کو تسلیم کرکے اس کی ترویج بھی کرنا پڑے گی اور یہی وہ نقطہ ہے کہ جہاں ’’ختم نبوتؐ‘‘ کا بنیادی اصول تک سڑکوں پر بحث کے لئے سامنے آ جاتا ہے۔ دراصل قرآن اور تفسیر کے تمدنی تقاضوں کے مطابق ہونے یا پھر جدیدی پیرائے میں مرتب ہونے کے لئے کسی بڑے فقیہہ یا سکالر کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کام انسانی حقوق پر کام کرنے والے یا پھر ہمارے جیسے شعر پڑھنے یا کالم لکھنے والے لوگ نہیں کر سکتے ہیں۔ کیونکہ اگر روشن خیالی کے ساتھ بھی سوچا جائے تو نظریات میں فرق ہو سکتا ہے اور نظریات کے فرق پر تنقید برداشت کرنا اور مکالمہ کرنا بھی ضروری ہے اور ایک دوسرے کی علیحدگی کا یہ مطلب ہرگز نہیں لیا جا سکتا ہے کہ انسانی حقوق کے نام پر کام کرنے والوں کے ضمیر کے مطابق قانون سازی کی جائے اور معاشرہ تخلیق کیا جائے کیونکہ یہ سب کچھ عوام کے ضمیر کے مطابق ہونا چاہئے مثلاً ہم صدیوں کی اسلامی روحانیت کے سفر سے سیکھا ہوا سب کچھ مسمار کرکے صرف ان لوگوں کے کہنے پر نہیں چل سکتے جو ہماری طرح نوکریاں کر رہے ہیں اور پھر پیسہ بھی کما رہے ہیں جنہوں نے بڑے بڑے گھر اور فارم ہائوسز بنائے ہوئے ہیں اور بدقسمتی سے اسی قسم کے کام اگر حکمران ریاست یا مذہبی سکالرز نہیں کریں گے تو پھر ہمارے جیسے لوگ بھی نازک معاملات اور ہر وہ معاملات جو ہماری عمروں کا اثاثہ اور حاصل زندگی میں ان کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں اور ناتجربہ کاری یا نااہلیت کی وجہ سے ہونے والے نقصانات ناقابل تلافی ہوا کرتے ہیں لہذا اپنے سماج کی بہتری کے لئے حکمران اگر نہیں کر سکتے تو یہ کام پاکستان کی عام عوام کو خود کرنا چاہئے اور اپنے گلی ‘ محلوں اور گھر کے اندر موجود مسائل جس کا حل آسانی سے ہو سکتا ہے ان کو اٹھا کر انٹرنیشنل فورم سے پہلے حل کر لینا چاہئے کیونکہ وہاں تک رسائی ایلیٹ اور اپر کلاس کی ہوتی ہے لہذا عام آدمی جو کام کر رہا ہوتا ہے اس کی حوصلہ افزائی کی بجائے یہاں بھی فائدہ ’’ایلیٹ‘‘ کلاس کو ہوتا ہے مثلاً بہت سارے لوگ اس ملک اور سماج کی بہتری کے لئے کر رہے ہیں جن کا کوئی اور ایجنڈا نہیں ہے۔ آج حکمران سوال کرتے ہیں مجھے کیوں نکالا؟…
مگر یہی حکمران اپنی حدوں میں رہ کر عوام کی خدمت کرتے تو دیگر اداروں کو اپنی حدوں سے باہر نہ نکلنا پڑتا اور ان بڑے بڑے اداروں کو نوازشات کا شکار ہونے والے چند افراد کی طرح تنقید کا نشانہ نہ بنایا جا سکتا کیونکہ دونوں رویوں میں فرق بڑا تھا اور مزید گناہوں کی گنجائش بھی موجود نہیں ہے۔ اپنا خیال رکھیئے گا!