آج کل پورے ملک میں لودھراں کے ضمنی انتخاب کے نتائج کے حوالے سے ایک بحث کا آغاز ہو چکا ہے۔ شاید پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک ایسا فیصلہ رقم ہوا ہے جو جمہوری قدروں کی سربلندی کا مرہونِ منت ہے۔ ایک طرف جہانگیر ترین صاحب جو کہ نہ صرف معروف سیاست دان ہیں بلکہ بہت امیر کبیر صنعت کار اور جاگیر دار ہیں اور ان کی ایک خاص پہچان ان کامنفرد طرزِ رہائش ہے۔ اتنے صاحبِ حیثیت ہیں کہ وہ عام سفر کے لئے بھی ہیلی کاپٹر استعمال کرتے ہیں۔ ان کی نااہلی کے بعد ان کے نوجوان صاحبزادے علی ترین کو ٹکٹ دیا گیا اور اس کے لئے تحریک انصاف نے دن رات ایک کر دیا۔ عمران خان صاحب نے خود جلسوں میں خطاب کیا اور ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ لوگ جواب میں اس طرح کا ری ایکشن ظاہر کریں گے۔ یہ ایک طرح سے جیتی جتائی سیٹ تھی کیوں کہ اس سے پہلے اس پر جہانگیر ترین منتخب ہو چکے تھے۔ اب اس نتیجے کے حوالے سے بہت سارے لوگ کریڈٹ لیتے نظر آ رہے ہیں۔ کوئی اسے نواز شریف صاحب کی جیت قرار دے رہا ہے تو کوئی عدالتی فیصلے کا ری ایکشن۔ لیکن اصل معاملہ کوئی اور ہے۔ اصل وجہ یہ ہے کہ اب لوگ امیری اور غریبی کے درمیان فرق کرنے اور سوچنا شروع ہو گئے ہیں۔ کچھ لوگ جنہیں دو وقت کی روٹی نصیب نہیں اسی علاقے کے لوگ جو زمین پر پائوں رکھنا برداشت نہیں کرتے کے درمیان دولت کی ریل پیل ایک سوال بن گئی ہے۔ جیتنے والا فرد ایک عام انسان ہے جس نے ایک دوست کی گاڑی میں کیمپیئن چلائی جو زندگی کے گرم سرد سے خود بھی واقف ہے اور لوگوں کی مشکلات سے بھی آگاہ ہے۔ پہلے لوگ اپنے جیسے لوگوں کو منتخب نہیں کرتے تھے بلکہ امارت اور شان و شوکت سے مرعوب ہوتے تھے لیکن اب حالات بدل گئے ہیں۔ اب لوگ فیصلے کی طاقت ان ہاتھوں میں دینا چاہتے ہیں جو عام لوگوں کے دکھوں سے واقف ہیں اور جن کی زندگی اس ملک کی اکثریتی سفید پوش آبادی کے رہن سہن کے مطابق ہے۔ پھر دوسری وجہ یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے صوبے میں جن اصلاحات کا آغاز کیا ہے خادمِ پنجاب نے نظر انداز اور پسماندہ علاقوں کو ترقی کی دوڑ میں لانے کے لئے ہر شعبے کی مثالی ترقی کو ممکن بنا کر لوگوں کو شعور عطا کیا ہے اور ان کے اندر سوچنے سمجھنے اور تفریق کرنے کی صلاحیت پیدا کی ہے یہ سب کچھ تقریروں کی بدولت نہیں بلکہ عملی کاموں کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ جب آپ کے اردگرد عملی نمونے موجود ہوں گے تو پھر عوام کسی بھی ہیرو کی کسی تقریر پر یقین نہیں کرے گی بلکہ اپنے حق میں فیصلہ کرے گی۔ یہ کہنے میں کوئی دو رائے نہیں کہ لودھراں میں لوگوں نے اپنے حقوق کی مانگ کرتے ہوئے اپنے حق میں فیصلہ کیا ہے۔ ایک ایسے انسان کو منتخب کیا ہے جو ان کے ساتھ چارپائی پر بیٹھ کر روکھی سوکھی کھا سکتا ہے، پیدل چل سکتا ہے، دکھوں میں ان کی آواز بن سکتا ہے۔ اگر جمہوریت کا تسلسل رہے تو ایسی بہت ساری مثالیں سامنے آتی رہیں گی۔ دوسری طرف تحریک انصاف کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ اب صرف باتوں سے کام نہیں چلے گا۔ آپ کے پاس ایک پورا صوبہ تھا، آپ کے پاس بھی پورا وقت تھا آپ کو چاہئے کہ آپ وہاں ایسی مثالیں قائم کرتے جن کو دیکھ کر پنجاب کے لوگ بھی آپ کی پذیرائی کرتے مگر اب تو یہ عالم ہے کہ کے پی کے والے شہباز شریف جیسے رہنما کی خواہش کر رہے ہیں۔ اب سیاست صرف گپ شپ اور جذباتی نعروں کا نام نہیں رہی۔ لوگ شخصیت سے مرعوب ہونے کی بجائے عوامی مفاد کے منصوبوں کو اہمیت دیتے ہیںاس لئے قول و فعل کا تضاد 2018ء کے الیکشن میں تحریک انصاف پر بری طرح اثرانداز ہو گا۔ کیا ہی اچھا ہوتا وہ بھی مسلم لیگ (ن) کی طرح لودھراں میں کسی عام ورکر کو یہ سیٹ دیتے جس سے عوام میں ان کی حکمت عملی کی پذیرائی بھی ہوتی اور انہیں کامیابی بھی ملتی لیکن ان کی نظر میں جاگیر داروں اور وڈیروں کی زیادہ اہمیت ہے اور عام کارکنوں کی حیثیت صرف ووٹ دینے تک محدود ہے۔ پوری پارٹی کا یہی عالم ہے اور اسی کو طاقت سمجھ کر آگے بڑھنے والوں کو لودھراں کے روشن ضمیر لوگوں نے ایک پیغام دیا ہے جو صرف ایک حلقے تک محدود نہیں ہے بلکہ پورے پاکستان کے سیاستدانوں اور فیصلہ سازوں کے لئے ہے کہ اب حالات بدل چکے ہیں اس لئے وہ بھی روایتی ہتھکنڈوں سے آگے بڑھ کر جمہوری قدروں کے مطابق فیصلے کریں اور کارکنوں کو صرف نعرے لگانے تک محدود رکھنے کی بجائے انہیں اسمبلیوں میں بھی لے کر آئیں۔ جب عام لوگ اسمبلیوں میں آئیں گے تب ہی اس ملک کی ترقی ممکن ہو گی۔ سیاسی تجزیہ نگار اور ماہرین کا خیال ہے کہ خادمِ پنجاب کی صوبے کے لئے کی گئی کاوشیں مدنظر رکھتے ہوئے پاکستانی عوام کی بڑی تعداد انہیں مستقبل کا وزیراعظم دیکھنا چاہتی ہے تا کہ پورا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ ملک کو ایک ایسے رہنما کی ضرورت ہے جو کمٹمنٹ کا پکا ہو اور منصوبوں کی تکمیل کے لئے دن رات ایک کر دے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38