’’سحر انصاری جیسی علمی و ادبی شخصیت پر الزام ہماری اقدار پر طما نچہ ہے‘‘
کراچی (کلچرل رپو رٹر)ایک عہد ساز ادبی شخصیت کے اعزاز میں ہونے والی تقریب کو روکا جا رہا ہے۔ اگر یہ سیاسی جلسہ ہوتا تو کیا اسے شفٹ کیا جاتا؟ یہ تو خالص ادبی جلسہ ہے اور دیکھ لیں اسے کتنی پذیرائی ملی ہے۔ ان خیالات کا اظہار تنظیم اساتذۂ سند ھ (تاس) کی جانب سے معروف ادبی و علمی شخصیت پروفیسر سحر انصاری کی پچاس سالہ علمی و ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے تقریب پذیرائی کے موقع پر محمود شام نے اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ سحر انصاری نے اپنے گھر کی نہیں پورے معاشرے کی علم و ادب کے ذریعے خدمت کی ہے وہ اکیلے ہی اپنا کارواں لے کر چل رہے ہیںیہ سحر انصاری پر الزام نہیں بلکہ ہماری تمام اقدار پر طمانچے کے نشان ہیں۔ صاحبِ اعزاز پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ ادبی محفلوں میں جانا اور اظہارِ خیال کرنا میرے لیے کبھی مشکل مرحلہ نہیں رہا لیکن آج یہاں جو احباب آئے ہیں، وہ سب اپنی جگہ انجمن ہیں آپ سب کی محبت اور حمایت میں، میں نہ ہارا، نہ پسپا بلکہ میرا حوصلہ بڑھا ہے اور قوّت ملی ہے۔تاہم انھوں نے کہا کہ ایک سازشی ٹولہ میری جان کے درپے ہے، اگر مجھے کچھ ہوا تو اس کے ذمے دار یہ سازشی افراد ہوں گے۔تقریب سے فاطمہ حسن،مظہر جمیل، مبین مرزا اورصابر ظفرنے بھی سحر انصاری کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ تقریب سے صدرِ انجمن ذوالقرنین جمیل‘ تنظیم اساتذۂ اُردو سندھ کے صدر پروفیسر ہارون رشید شبی فاروقی، شاہدہ حسن،صابر ظفر، غزل انصاری، خالد معین، اوجِ کمال، راحت سعید، ریحانہ روحی، اویس ادیب انصاری،نسیم نازش، رخسانہ صبا، ریحانہ احسان، پروین حیدر، صبیح رحمانی، روبینہ تحسین بینا، صائمہ، اور دیگر نے بھی خطاب کیا اور سحر انصاری کو پھول پیش کئے۔ صبیح رحمانی نے اپنی جانب سے پروفیسر سحر انصاری اور اُن کی بیگم کو عمرے کی ادائیگی کے لیے ٹکٹ کا اعلان کیا۔