درگاہ سیہون شریف پر دہشت گردی، ایک سال بیت گیا
گزشتہ سال آج ہی کے دن درگاہ حضرت لعل شہباز قلندر ؒ سیہون شریف اس وقت ایک زوردار دھماکے سے لرز اٹھی جب درگاہ کے اندر زائرین دھمال ڈال رہے تھے، یہ جمعرات کا دن تھا اور اس دن درگاہ پر غیر معمولی رش ہوتا ہے، خودکش حملہ آور درگاہ کے اندر داخل ہوا اور خود کو زوردار دھماکے سے اڑا لیا۔ دھماکے کے نتیجے میں 76 افراد شہید ہوئے اور تین سو سے زائد افراد زخمی ہوئے، کچھ ہی دنوں میں مزید 14 زخمی بھی جان کی بازی ہار گئے اور شہید ہونے والوں کی تعداد 90 ہو گئی تھی، ان شہید ہونے والے افراد میں 21 بچے بھی شامل تھے۔ خودکش حملہ آور کا تعلق افغانستان سے بتایا جاتا ہے اور اس کا تعلق جس تنظیم سے تھا اس نے حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔ وہ حملہ آور کس طرح خودکش جیکٹ پہنے ہوئے اور ہینڈ گرنیڈ لے کر درگاہ کی سکیورٹی کو عبور کرتا ہوا درگاہ میں داخل ہو گیا یہ سوال ابھی تک حل طلب ہے، کن کن سہولت کاروں نے اس کی مدد کی وہ کہاں آ کر ٹھہرا اور سکیورٹی نظام اتنا ناقص کیسے ہوگیا تھا؟ ایک سال گزرنے کے بعد بھی کوئی مفصل رپورٹ سامنے نہیں آ سکی۔
حضرت لعل شہباز قلندر ؒ نے مروند شریف سے آ کر سیہون شریف سندھ کو اپنا تبلیغی و علمی مرکز قرار دیا اور 650ھ کو اسی مقام پر دنیا سے پردہ فرمایا۔ آپ کا مزار گزشتہ آٹھ صدیوں سے مرجع خلائق ہے، آپ نے اور تمام تر صوفیائے کرام نے محبت، امن، بھائی چارے اور رواداری کا پیغام عام کیا، لوگوں کو باہمی برداشت اور سلوک کا درس دیا، قرآن اور خاتم النبیینؐ کا آفاقی پیغام لوگوں تک پہنچایا، تمام تر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنے پاس بٹھایا۔ یہ بات نہایت افسوس کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ انہی اولیاء کی درگاہوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ حضرت لعل شہباز قلندر ؒ کی درگاہ کے علاوہ درگاہ حضرت شاہ نورانیؒ، درگاہ حضرت عبداﷲ شاہ غازیؒ، درگاہ حضرت بری امام سرکار ؒ اور درگاہ حضرت داتا علی ہجویریؒ کو بھی مختلف اوقات میں دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا، اس کے علاوہ کئی مساجد، امام بارگاہوں، سکولوں کو بھی دہشت گردوں نے اپنے نشانے پر لیا، یہ بات ثابت ہو چکی کہ یہ دہشت گرد امن، محبت و یگانگت، تعلیم، شعور اور ملکی نظام کے خلاف ہیں۔
آج کی صورتحال یہ ہے کہ سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ پاکستان سے تمام تر دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ دہشت گرد صرف افغان مہاجرین کی آڑ لیکر یا پاکستان اور افغانستان کے درمیان باقاعدہ اور مضبوط سرحد نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ایسا کرنا یقیناً پاک فوج کا بہت بڑا کارنامہ ہے لیکن گزشتہ سال تک مختلف مقامات خاص طور پر اولیاء کرام کی درگاہوں کو نشانہ بنا کر دہشت گردوں نے سینکڑوں بے گناہ افراد کو شہید کر کے اور سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کو زخمی کر کے ملک کو ایک امتحان سے گزارا۔ ہم کبھی بھی ان شہداء اور زخمیوں کی قربانیوں کو فراموش نہیں کریں گے اور علم، امن، آگہی اور محبت کا وہ مشن ہمیشہ جاری رہے گا جس کی خاطر اولیاء کرام نے اپنی زندگیاں وقف کیں۔ عوام کے حوصلے کبھی بھی پست نہیں ہو سکتے۔ مجھے یاد ہے کہ پچھلے سال درگاہ حضرت لعل شہباز قلندرؒ پر جس روز دھماکہ ہوا اس کے عین اگلے دن درگاہ پر صبح سویرے درگاہ کے خادموں نے درگاہ کا گھنٹہ بجایا، نوبت بجائی گئی اور دھمال بھی ڈالی گئی تاکہ اس عزم کا اعادہ کیا جائے کہ ہم لوگ اولیاء کرام کے پیغام محبت کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور دہشت گرد ہمارے حوصلے پست نہیں کر سکتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی درگاہ لعل شہباز قلندر ؒ پہنچ کر دھمال ڈالی، ان میں فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد خصوصی طور پر شامل تھے اور اولیاء کے مشن سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا اور دہشت گردی کے خلاف صف آرائی کا اظہار بھی کیا۔
آج کا دن ان شہداء سے عقیدت کے اظہار کا دن ہے جنہوں نے درگاہوں پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، ان کا خون رائیگاں نہیں جائے گا اور ہم اس ملک سے دہشت گردی کو نکال پھینکنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ آج بھی درگاہ پر ڈلنے والی دھمال اس بات کا مظہر ہے کہ اولیاء کا مشن جاری ہے اور ان کا پیغام محبت آفاقی اور دائمی ہے اور وہ پیغام دہشت گردی سے رکنے والا نہیں ہے۔