ہوا کے سامنے سارے چراغ جلتے نہیں
نئی غزل میں احساسات اور کیفیات کے نئے ذائقوں کے ساتھ ساتھ ہمیں بعض شعرا کے ہاں نئی لفظیات بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس تازگی کا سبب یہ ہے کہ لکھنے والے علامتوں ،استعاروں اور تشبیہوں کے نظامِ کہنہ سے بیزار ہیں۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سارے عمل کے پسِ پردہ منفرد ہونے کا احساس کارفرما ہو یا کچھ نیا کر گزرنے کی دھن ،لیکن کئی شعرا کے ہاں اس صورتحال کا سبب نیا احساس اور چیزوں کو مختلف زاویے سے دیکھنا ہے جس کے باعث نئے الفاظ ،نئی علامتیںاور نئے استعارے سامنے آتے چلے جاتے ہیں۔ان نئے شاعروں میں فیصل ریحان بھی شامل ہے جن کی نظموں اور غزلوں کے مجموعے شایع ہو چکے ہیں۔ان کی نظمیں ’’کوئٹہ میں خزاں‘‘ کے نام سے کچھ عرصہ قبل اشاعت پذیر ہوئیں ہیں جبکہ غزلوں کی کتاب’عشق آمیز ‘‘ کے نام سے حال ہی میں چھپی ہے۔ فیصل ریحان کی غزل میں جو چیز چونکانے والی ہے وہ اس کی ایک خاص شعری فضا ہے جس کے پس منظر میں بلوچستان کی سیاسی،سماجی،معاشی اور جغرافیائی صورتحال عکس ریز ہے۔فیصل ریحان شعوری کوشش سے کچھ نئے الفاظ غزل کی فضا میں داخل کیے ہیں ۔ان نئے الفاظ کے ساتھ کچھ خاص مناظر بھی اس کی شاعری کا حصہ بنے ہیں ۔اس انفرادیت کے ساتھ ساتھ فیصل ریحان کی غزل معاصر غزل کی رو میں رواں نظر آتی ہے جس میں تازگی بھی ہے اور خوش کن رنگ و بو بھی۔ روایت سے کسبِ فیض کرتی مگر نئے راستوں اور نئی منزلوں کی بشارتیں دیتی ان غزلوں سے چند قارئین کی نذر ہیں ۔
میں کیا بتائوں؟یہ کیسی دولت ملی ہے مجھ کو
عجب خزانوں کے بھید کھلتے ہیں رتجگوں میں
مجھے مصور کی آنکھ،شاعر کا دل ملا ہے
زمین کو دیکھتا ہوں حیرت کے آئنوں میں
جدائی اس طرح شامل سروسامان میں تھی
شہزادہ دشت میں تھا اور پری مہران میں تھی
سمندر پار پہنچے ہیں شجاعت کے وہ قصے
حکایت جنگ کی لکھی گئی کاہان میں تھی
چمک اٹھا تھا سارا گھر ملائم چاندنی میں
فلک حیران تھا کیا روشنی دالان میں تھی
نظر کو خیرہ کرے سبز روشنی اس کی
اگا ہے دھوپ کے آئینے میں عجیب درخت
اک ایسا گھر ہے میری یاد میں چمکتا ہوا
چہکتے تھے جہاں دن بھر کئی حبیب درخت
یوں شاخ شاخ جو پھیلا ہوں کاک پر فیصل
ہے میری روح میں شاید کوئی مہیب درخت
اب جہاں پہرے دار پھرتے ہوں
جان لو وہ گلی نہیں محفوظ
خوسبو سے دیواریں مہکیں اور پازیب بجے
شام ہوئی تو دن بھر سویا کوٹھا جاگ پڑا
دل کھچا جاتا ہے بولاں کے شغالوں کی طرف
اپنے صحرا کی طرف اپنے غزالوں کی طرف
سب مسافر سے سنا چاہیں گے اھوالِ سفر
کوئی دیکھے گا نہیں پائوں کے چھالوں کی طرف
دفعتاً بڑھنے لگی دھوپ کی شدت کیوں کر
یار پھر کوئی کہیں تازہ خفا لگتا ہے
لوگ ہوں گے تو سیاست بھی ہمیشہ ہوگی
اور کچھ کچھ یہ محبت بھی ہمیشہ ہوگی
ہر چیز منسلک ہے یہاں دوسری کے ساتھ
دریا کے ساتھ ساتھ کنارے چلے گئے
خوشی تو ہے کہ ہم اکیسویں صدی میں ہیں
مگر وہ پہلے سی بے فکر زندگی نہیں ہے
بیتے موسم کہاں گئے وہ چرواہوں کے گیت
یاد آتی ہے صحرائوں کی ٹھنڈی میٹھی چپ
کتنا شور ہے ان شہروں میں ،دل یہ چاہتا ہے
اوڑھ کے سو جائوں صحرا کی ریشم ایسی چپ
ہوا نے لفظ کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں
خیال ومعنی کا خیمہ کہیں پڑا ہوا تھا
بھرا تھا چاند ستاروں سے رات کا دامن
اور اتنی بات پہ سورج کا دل بجھا ہوا تھا
اس کی تصویر دیکھتا تھا میں
چاند بھی آ گیا تھا کھڑکی میں
میرا سارا کلام بے تاثیر
بات اس آنکھ کی خموشی میں
یہ احساس تھا سب کے ہوتے ہوئے بھی کہ کوئی کمی ہے
تم آئے ہو جب سے مری زندگی میں بہار آ گئی ہے
مشینوں کے مابین رہتے ہوئے میرا دل مر چکا ہے
تُو اے زندگی ! شور میں کیا مری چیخ بھی سن سکی ہے؟
مرے دل میں آئے کہ ان کو ترے گیسوئوں میں سجا دوں
یہ رات اپنے آنچل میں جتنے ستارے کھڑی ٹانکتی ہے
بس ایک موج ہی آ کر بہا کے لے جائے
ہم آدمی ہیں ،کوئی ریت کے گھروندے نہیں
کسی کسی میں بغاوت کی خو سی ہوتی ہے
ہوا کے سامنے سارے چراغ جلتے نہیں
تنہا رہنے والو سانجھ کی عادت ڈال کے دیکھو تو
خوشیاں پاس آنے لگتی ہیں درد کنارہ ہو جاتا ہے
بچپن کی طرح آج بھی دل چاہتا ہے پھر
گلیوں کی خاک چھانئیے اور غل مچائیے