پاکستان ایک معجزہ
اہل مغرب ہم سے اصرار کرتے ہیں کہ یہاں جمہوری نظام میں رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں وہ یہاں اس نظام کی اتنی پر زور حمایت کیوں کرتے ہیں اس کا جواب بہت طوالت اختیار کرجائے گا۔ اختصار کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ عالم اسلام سے زخم خوردہ اہل مغرب صلیبی جنگوں سے سبق حاصل کرنے کے بعد اسلام کو اپنا سب سے بڑا حریف جان کر اس کے خلاف صف آرا ہوگئے۔ خلافت عثمانیہ کی تباہی کے بعد ان کا راستہ تقریباً صاف ہوچکا تھا۔ چنانچہCovert اورOvert سازشوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ زور پکڑگیا پھر سیکولر ازم متعارف ہوا جوابتداء میں چرچ سے آزادی کے لئے استعمال ہوا لیکن اب اس کا ہدف صرف اسلام ہے اگر تمام مذاہب اس کا ہدف ہوتے تو اس سے اسرائیل اور بھارت بھی ضرور متاثر ہوتا۔ بلکہ اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل میں صیہونیت اور بھارت میں ہندو توا تو اپنے عروج پر ہے۔ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد جارج بش سینئر نے اسلام کو سب سے بڑا خطرہ قراردیا تھا۔ نیو ورلڈ آرڈر کے باضابطہ اعلان کے بعد کسی قوم پر سب سے زیادہ افتاد پڑی کونسا مذہب اس کا نشانہ بنا؟ ظاہر ہے اسلام کے علاوہ اور کونسا مذہب ہوسکتا تھا۔ بش نے عراق پر حملہ کے بعد اس کو صلیبی جنگوں کا تسلسل کہا تھا اگرچہ بعد میں اس نے اس کی تردید کی۔ اصل میں اس کا بیان کوئی اتفاق نہیں تھا بلکہ یہ اسٹیٹ پالیسی تھی جو آج29 سال بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل میں ہمارے سامنے کھل کر آگئی ہے۔ آج کا ماڈرن دور ماضی کی طرح طاقت کے زور پر دوسرے ملکوں پر کھلے عام لشکر کشی کا نہیں رہا بلکہ اس کے لئے دیگر آپشنز کے علاوہ جنریشن وارفیئرز کی اصطلاحات وضع کی گئیں اور آج تمام امت مسلمہ خصوصاً پاکستانFifth Generation Warfare کی زد میں ہے اگرچہ دور جاہلیت اور دور جدید میں آج بھی کوئی فرق نہیں کیونکہ طاقت کے بل پر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا فارمولا اس تہذیب یافتہ دور میں بھی اسی شد و مد کے ساتھ چل رہا ہے صرف ملک گیری کا طریقہ کار تبدیل ہوگیا ورنہ ملکوں پر قبضے آج بھی ہورہے ہیں انہی طریقوں میں کچھ نعرے کچھ نظام اور کچھ الفاظ گھڑے جاتے ہیں تاکہ اس کے سہارے دیگر اقوام کو اپنا غلام بنایا جاسکے۔ سیکولر ازم‘ لبرل ازم‘ جمہوریت ‘ دہشت گردی‘ انتہا پسندی اور نان اسٹیٹ ایکٹرز جیسے الفاظ اور نظام آج کے جدید دور کے ہتھیار ہیں جس کی دنیا بھر میں منظم تشہیر کرکے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کئے جارہے ہیں اس کا سرخیل امریکہ اور اسرائیل‘ یورپ‘ بھارت اور کچھ ممالک اس کے معاون ہیں۔ دہشت گردی اوور انتہا پسندی کی تعریف وہ خود وضع کرتا ہے۔ بقیہ دنیا بلاچوں و چرا اس کا وظیفہ پڑھتی ہے۔ دوسرے ملکوں پراپنی مرضی کے حکمران مسلط کرکے انہیں اپنا تابع بنانا اس دور کا چلن ہے۔ جو ملک یا حکمران قابو میں نہ آسکیں انہیں یا تو دہشت گرد قرار دیدو وہاںدہشت گردی کراکے عدم استحکام اور انارکی کے ذریعہ انقلاب پیدا کردو تاکہ خود کی مرضی کے حکمران وہاں مسلط کردیئے جائیں۔ افغانستان‘ مصر اور لیبیا اس کی مثال ہیں شام‘ ترکی اور ایران میں اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ پاکستان میں اس کے پٹھو حکمران پر ستر سال بعد کھٹن وقت آنا پڑا یہ ریاست اب اپنی بقاء کے لئے کھڑی ہوگئی ہے یہاں روایتی طاقت کا مرکز اب شفٹ ہوتا نظر آرہا ہے۔ بھٹو کے بعد نام نہاد جمہوری نظام نے جو گل کھلائے اس سے ریاست کھوکھلی۔ ادارے تباہ اور عوام بے حال ہوگئے ہیں‘ اس کی معیشت آئی ایم ایف کے ہاتھوں گروی رکھ دی گئی اس کے برعکس دونوں بڑی پارٹیوں کے حکمران اقرباء اور حمایتی جماعتیں طاقتور ترین بن گئیں۔بیشتر سیاستدان ارب پتی سے کھربوں پتی بن گئے۔ نتیجے میں ریاست پاکستان کنگال ہوگئی۔ یہ سب کچھ امریکی ایجنڈے کے تحت کیا گیا۔ جو ڈھال استعمال کی گئی وہ جمہوری نظام کی تھی جس کی برکات سے ریاست پاکستان اور اس کی عوام کے علاوہ سب فیض اٹھاتے رہے۔ دنیا بھر میں دو طرح کا جمہوری نظام رائج ہے۔ ایک پارلیمانی دوسرا صدارتی۔ لیکن پاکستان میں انوکھا جمہوری نظام رائج ہے جو نہ صدارتی ہے او ر نہ پارلیمانی ہے بلکعہ یہ ون مین شو نظام ہے۔ جمہوری نظام کو آمرانہ نظام(مارشل لائ) کی ضد سمجھا جاتا ہے۔ مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہOne Man show والا جمہوری نظام مارشل لاء سے زیادہ ہلاکت خیز ثابت ہوا۔ مارشل لائوں کے دور میں عوام کو ریلیف ملتا رہا۔ معیشت پھلتی پھولتی رہی اور ملک بھی ترقی کرتا رہا۔مثلاً ایوب خان کے دور میں پاکستان کی معیشت نے مثالی ترقی کی تھی جس کی دنیا بھر میں مثالیں دی جاتی تھیں۔ دو بڑے ڈیم بھی انہی کے دور میں بنے۔ اس کے علاوہ ایوب ہی کے دور میں گدو بیراج کا1963ء میں سنگ بنیاد رکھا گیا پھر2 اکتوبر1960ء میں راول ڈیم کی تعمیر مکمل ہوئی۔ نیز27 جنوری1961ء کو صدر ایوب نے وارسک ڈیم کا افتتاح کیا تھا یہ ایک آمر کے کارنامے تھے۔2008ء سے 2018ء تک ان دونوں جمہوری چیمپئنز نے ملک و قوم کا جو حشر کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ اہل مغرب خصوصاً امریکہ کا پاکستان میں اس شرمناک جمہوریت پر اصرار کیوں رہتا ہے؟ کیا انہیں نہیں معلوم کہ جس طرز کی کرپٹ ترین حکومتیں یہاں نظام حکومت چلارہی ہیں اس کا مغربی طرز جمہوریت سے کیا موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ پچھلے دس سالوں میں پورے پاکستان میں حکومت عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں بری طرح ناکام۔ اگر کوئی چیز عروج پر ہے تو وہ کرپشن ہے جس کو سرکار کی سرپرستی حاصل ہے۔ اہل مغرب ایسے حکمران اور ایسی جمہوریت کی پشت پناہی کرتے ہیں تو ہم ان سے کہتے ہیں کہ ایسی جمہوریت اورایسے حکمران براہ کرم اپنے اپنے ممالک میں باری باری مسلط کرلیں۔ ہمیں یقین ہے نصف صدی سے بھی کم عرصے میں یا تو ان ممالک کا نام و نشان مٹ جائے گا یا اہل مغرب آپس میں لڑ لڑ کے مرجائیں گے جس طرح چند صدیاں قبل یہ کیا کرتے تھے۔ یہ توپاکستانی قوم کا حوصلہ ہے جوایسے غیر فطری حالات میں بھی جی رہے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اس مملکت خداداد پر بھی کچھ اللہ کا خاص کرم ہے جس کی بناء پر یہ اپنی جگہ پر قائم و دائم ہے ورنہ ہم نے تو کوئی کسر نہ چھوڑی تھی اور دشمن بھی اس پر گھات لگائے عرصہ سے بیٹھے ہیں پھر بھی اس سے کئی گنا بڑا دشمن خائف رہتا ہے۔یقیناً پاکستان ایک معجزہ سے کم نہیں۔