ٹریفک قوانین کی سب سے زیادہ خلاف ورزی ٹریفک پولیس کرتی ہے۔ راقم نے دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی سیاحت کی ہے جس میں امریکہ، کینڈا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، سپین، افغانستان، انڈیا اور مڈل ایسٹ کے بیشتر ممالک شامل ہیں اور مین نے اپنی کتابوں عالمی سفرنامہ جرمنی جیدار لوگوں کی سرزمین اور اخبارات و رسائل میں شائع ہونیوالے سفرناموں میں زیادہ تر ذکر ان ممالک کی ٹریفک کی صورت حال اور وہاں کے عام کی طرف سے ٹریفک رولز کی سختی سے پابندی کا کیا ہے۔ بیشتر ممالک میں جہاں ٹریفک سگنل یا اشارے نصب ہوتے ہیں وہاں کوئی پولیس والا، ٹریفک کا سپاہی یا سارجنٹ میں موجود نہیں ہوتا، لوگ خود بخود ٹریفک کے اشاروں کی پابندی کرتے ہوئے رکتے یا روانہ ہوتے ہیں۔ رش آوریا کسی وی آئی وی کی آمدورفت سب کو ٹریفک کے اشاروں کی پابندی کرنی پڑتی ہے۔ اگر کوئی دیدہ دانستہ یا بھول چوک سے بھی اشارے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اگلے روز اسکی گاڑی کی تصویر سمیت جرمانے کی پرچی اسکے گھر پہنچ جاتی ہے۔ چونکہ ثبوت موجود ہوتا ہے اس لئے کسی کوچوں چراں کرنے کی جرأت نہیں ہوتی اور آئندہ کے لئے محتاط ہونا پڑتا ہے۔
ہمارے لاہور شہر کے معروف چوکوں میں ہماری ٹریفک پولیس نے عجیب تماشہ لگا رکھا ہوتا ہے۔ ہر چوک چار چار چھ چھ اہلکار موجود ہوتے ہیں۔ وہ ٹریفک سگنل بند کر کے ہاتھ کے اشاروں سے ٹریفک کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ کبھی وہ ایک طرف کی ٹریفک کو زیادہ دیر تک روکے رکھتے ہیں، کبھی دوسری طرف کی ٹریفک کو، اسکے نتیجے میں ہر طرف لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں۔ ہارن پر ہارن بج رہے ہوتے ہیں۔ اور عجیب ہڑ بونگ مچی ہوتی ہے، کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، موٹر سائیکلوں والے فٹ پاتھوں پر اپنی موٹر سائیکلیں دوڑا رہے ہوتے ہیں۔ وہ ٹریفک اہلکاروں کے ہاتھوں کے اشاروں کی پابندی کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اگر ٹریفک سگنل معمول کے مطابق کام کر رہے ہوں تو ٹریفک اہلکار اور سارجنٹ اپنی پوری توجہ ان قانون شکن اور ٹریفک رولز کی دھجیاں اڑانے والے عناصر کی سرکوبی پر دے سکتے ہیں جنہوں نے سڑکوں پر اودھم مچا رکھا ہے۔حکومت پنجاب نے ٹریفک پولیس کو بہترین نظام مواصلات، تیز رفتار اور مضبوط موٹر سائیکلیں اور کاریں دے رکھی ہیں۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی قانون شکن ایک چوک کا اشارہ توڑ کر نکل جاتے تو اگلے چوک میں پکڑا نہ جاسکے۔ قانون کا خوف ہی ٹریفک رولز کی پابندی کی ضامن ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کو اپنی توانائیاں ہاتھ کے اشاروں سے ٹریفک کو چلانے کی بجائے اشاروں کی پابندی کرانے پر صرف کرنی چاہیں اور کسی صورت بھی ٹریفک سگنل بند نہیں کرنے چائیں، ’’وی آئی پی موومنٹ‘‘ کے نام پر بھی نہیں۔ہم ہر روز اخبارات میں ٹریفک پولیس کی تصویر کے درشن بھی کرتے رہتے ہیں اور انکے نئے نئے اعلانات بھی پڑھتے رہتے ہیں لیکن عملی طور پر صورتحال یہ ہے 50 فیصدی گاڑیوں کی نہ نمبر پلیٹیں مقرر معیار کی ہیں۔ یہ ویگنوں، بسوں اور رکشوں میں پریشر ہارن اور ریکارڈنگ ختم ہوئی ہے نہ اوورلوڈنگ میں بہتری نظر آتی ہے۔ رکشوں کے پیچھے اشتہارات کی بھرمار ہے جو صریحاً ٹریفک ورلز کی خلاف ورزی ہے اور سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ چنگ جی موٹر سائیکل رکشوں کے آگے پیچھے کوئی نمبر پلیٹ ہی نہیں ہوتی۔ ٹانگے، ریڑھے اور گدھا گاڑیاں ویسے ہی مادر پدر آزاد ہیں، انکے ٹریفک میں رکاوٹ بننے، گاڑیوں کو سائیڈ مارنے،گوبر اور لید کی صورت میں سڑکوں پر گندگی پھیلانے پر کسی قانون کا اطلاق ہوتا ہی نہیں ہے۔ رات کے وقت اس سست رفتار ٹریفک کے پیچھے لائٹ، بتی یا روشنی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
آج سے چند سال پہلے تک لاہور میں چلنے والی ہر گاڑی، خواہ وہ ہتھ ریڑھی ہی نہ ہو، کارپوریشن کی طرف سے جاری کر دہ رجسٹریشن اور نمبر پلیٹ لگی ہوتی تھی۔ سر شام اور ریڑھے کے نیچے لالٹین لٹکائے رکھتے تھے۔ حتیٰ کہ سائیکل کے پیچھے ’’ری فلیکٹر‘‘ کا ہونا لازمی ہوتا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے تقریباً 50 فیصد موٹر سائیکل اور رکشوں کی پچھلی بتیاں روشن نہیں، تقریباً 10 فیصد کی اگلی پچھلی دونوں لائٹیں غائب ہوتی ہیں سڑکوں پر حادثوں کی بھرمار ہیں لیکن رات کے وقت ٹریفک ویسے ہی سڑکوں سے غائب ہوتی ہے۔
اللہ کے فضل سے لاہور کی سڑکوں پر کاروں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوچکی ہے۔ جو مجھے اپنی سیاحت کے دوران نیویارک، واشنگٹن، لندن، پیرس، فرینکفرٹ اور برلن وغیرہ جیسے بڑے شہروں میں بھی نظر نہیں آئی۔ موٹر سائیکل اور موبائل فون دنیا میں سب سے زیادہ پاکستان میں ہیں۔ لیکن ٹریفک قوانین رولز کی پابندی کہیں دور دور تک نظر نہیں آتی۔ وعظ و نصیحت اور اپیلوں سے اب یہ مسئلہ حل ہونیوالا نہیں۔ اب ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر بے رحم احتساب، بھاری جرمانوں اور قید و بند کی سزائوں کے بغیر یہ صورت حال ٹھیک ہونیوالی نہیں۔ لہٰذا ٹریفک پولیس کیلئے لازم ہے کہ ٹریفک کو سگنل کے مطابق چلنے دے، اشارہ کاٹنے والوں کی سختی سے سرکوبی کرے اور لائن اور لین کی پابندی کرائے اور گاڑیوں کی نمبر پلیٹیں ایک مقررہ مدت کے اندر ٹریفک رولز کے مطابق درست کرائے اور چنگ جی رکشوں اور سست رفتار ٹریفک ختم کرے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024