پیر سید محمد کبیر علی شاہ گیلانی مجددی (سجادہ نشین آستانہ عالیہ چورہ شریف)
آج پورے عالم اسلام میں رسول ِ رحمت، پیغمبر انسانیت، رُوحِ ایماں، جانِ ایماں، شانِ کائنات، مقصودِ کائنات، فخرِ موجودات، سراپا نور کے پیکر میں ڈھلے ’’نُورعلی نُور‘‘ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشی منائی جا رہی ہے‘ آج عجب سماں ہے، چڑیاں چہچہا رہی ہیں، بہاریں مسکرا رہی ہیں، کلیاں کھِل رہی ہیں، شگوفے پھوٹ رہے ہیں، کوئل کُوکُو کر رہی ہے، آبشاروں کے ترنم سے ’’خوشیاں منائو کملی والا آگیا‘‘ کے نغمے بہار بن کر کائنات میں جلوے بکھیر رہے ہیں، ہر طرف نور کی شعاعیں انوار و تجلیات کا منظر پیش کر رہی ہیں، کائنات کا ذرہ ذرہ‘ صحرا صحرا، قطرہ قطرہ، قُلزم قُلزم رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں جھوم جھوم رہا ہے، چرند پرند، حجر و شجر، پھول و کلیاں، چاند و چاندنی، سورج و کرنیں، ستارے و سیارے، دریا و صحرا، کھیت و کھلیان، زمین و زماں، مکین و مکاں، الفاظ و حروف سمیت اس کائنات میں سوائے ابلیس کے آج سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں، خوشیاں کیوں نہ منائیں؟
12ربیع الاول کو اس کریم ہستی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کائنات کو شرف بخشا جس کے پاکیزہ و مُصفیٰ توسل سے ذلت و رسوائی کی اتھاہ گہرائی میں گری اور فرسودہ رسم و رواج کے شکنجوں میں جکڑی عورت کو شرف و عزت اور آزادی نصیب ہوئی، 12ربیع الاول بیٹی کو باپ کی شفقت کا سایہ، بہن کو بھائی کی چھتر چھائوں، بیوی کو شوہر کی طرف سے حفاظت کی چادر، ماں کو ’’اَلَجنۃُ تحتَ اَقدامِ الاُمھَات‘‘ کا مژدہ جاں فزا، اُستاذ کو ’’اِنَما بُعثِتُ مُعَلمَاََ‘‘ کی خوشخبری اور غلام کو آزادی کا پروانہ نصیب ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سے قبل عورت کو پائوں کی جوتی اور نفرت و گھن کی علامت تصور کیا جاتا تھا مگر جونہی 12ربیع الاول کی پاکیزہ، شفاف شبنمی، اُجلی، نکھری، لطیف و نظیف اور محبت و شفقت کے پیکر میں ڈھلی صُبح صادق طلوع ہوئی تو اسکے ساتھ ہی ہر طرف ظلم و تشدد، جہالت و گمراہی، کثافت و غلاظت، نفرت و تعصب کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غروب ہو گیا۔
12ربیع الاول کی وہ سہانی صُبح کی بابرکت اور بارحمت گھڑی جس صُبح چمکا طیبہ کا چاند، اُن دل افروز ساعتوں پہ لا کھوں، کروڑوں، اربوں نہیں بلکہ کھربوں درودو سلام کے نذرانے اور عقیدت و محبت کے پھول نچھاور کرنے کو دل کرتا ہے کیونکہ رسول ِ رحمت نبی کریم، رئوف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ پاکیزہ اور کائنات میں سب سے زیادہ قیمتی ترین محل جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی اُس کو سجدہ کرنے کیلئے اُس دن محرابِ کعبہ کو بھی جھکنا پڑا اور قیصرو کسریٰ کے محلات پہ جگمگاتے کنگرے، طیبہ طاہرہ مکرمہ محترمہ حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا کے محل سے نکلنے والی نورانی شعاعوں کے سامنے تاب نہ لاتے ہوئے گر پڑے تھے اور ہزاروں سال سے روشن بُت کدہ آناََ فاناََ بُجھ گیا تھا۔
رسول ِ رحمت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک آمد سے لسانی، علاقائی، نسلی اور قومی چوہدراہٹ کے بُت پاش پاش کر دیئے گئے، افتادہ و پسماندہ طبقات کو جتنا تحفظ و احترام رسولِ رحمت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا دنیا کے کسی بھی آئین و قانون میں اسکی نظیر نہیں ملتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہر پہلو روشن، تابندہ، رخشندہ، درخشندہ اور چمکدار نظر آتا ہے‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر بحیثیت باپ کے پیمانے پر دیکھا جائے تو بیٹی کیساتھ شفقت و محبت کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ جب بھی خاتونِ جنت سیدہ طیبہ طاہرہ حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تشریف لاتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُنکے استقبال کیلئے سروقد کھڑے ہو جایا کرتے تھے اور عصمت و طہارت کی حامل پیشانی مبارک پر بوسہ دیکر خاتون ِ جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بیٹھنے کیلئے وہ مبارک چادر ِ تطہیر بچھا دیتے تھے جس کو ربِ ذوالجلال نے ’’یَا اَیُھَا المُزمِل‘‘ کے آفاقی خطاب سے نوازا ہے۔
بحیثیت شوہر اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کیا جائے تو بیوی کیساتھ محبت کا ایسا پاکیزہ انداز پڑھنے کو ملتا ہے کہ جب کائنات کے مومنین کی ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جس برتن سے منہ لگا کر پانی نوش فرماتیں تھیں‘ اُسی برتن میں اُسی جگہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنا منہ مبارک لگا کر پانی نوش فرماتے تھے بیوی کیساتھ محبت و شفقت کا ایسا مثالی و عملی نمونہ پیش کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کائنات پر بسنے والی جمیع انسانیت کو اپنی اپنی بیویوں سے محبت و شفقت کا طریقہ بتا دیا، بحیثیت بھائی اگر کائنات کے سوہنڑے تے من موہنڑے لجپال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مُصفیٰ تے مُزکیٰ صفحات کی ورق گردانی کی جائے تو ہمیں رسول ِ رحمت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی رضاعی بہن جنابِ حضرت شیمارضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پیار و محبت کا ایسا انوکھا انداز پڑھنے کو ملتا ہے جس کو پڑھ کر انسانیت کا سر فخر سے بلند نظر آتا ہے‘ رضاعی بہن سے پیار و احترام کا ایسا پاکیزہ رشتہ انسانیت کو آج تک دیکھنے اور سُننے کو نہیں ملا، بحیثیت آقا اگر دیکھنا ہو تو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اُن دس سالوں کو دیکھا جا سکتا ہے جو رسول ِ رحمت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفیق و کریم بارگاہ ِ عظمت میں بسر ہوئے اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی فرماتے ہیں کہ:
’’ میں نے 10سال اپنے کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں گزارے مگر میرے لجپال کریم و شفیق آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی مجھے جِھڑکا تک نہیں اور یہ تک نہیں فرمایا کہ یہ کام کیوں کیا ہے اور یہ کیوں نہیں کیا‘‘ ۔
یہ تو رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے صرف چند نمونے ہیں‘ اگر سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر قلم لکھنا چاہے تو بالآخر ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ قلم عاجزی کا اظہار کرتا ہوا نظر آتا ہے‘ کائنات میں جگہ جگہ جو حُسن و جمال کے جلوے نظر آرہے ہیں‘ یہ سب میرے کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین پاک کے مبارک تلوئوں کو چھونے والے ذرّوں کی خیرات کا صدقہ ہے کیونکہ قلندر لاہوری ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ نے فرمایا تھا کہ …؎
ذکر و فکر و علم و عرفانم توئی
کشتی و دریا و طوفانم توئی
جس کی اذیت کو رب تعالیٰ اپنی اذیت قرار دے فرمایا ’’بے شک جو اذیت دیتے ہیں اللہ اور اُسکے رسول کو اُن پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے اُن کیلئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے (سورۃ الا حزاب، آیت 57)
جس کی بارگاہ میں حاضری کی سعادت حاصل کرنے کے آداب خود ربِ ذوالجلال کی طرف سے عطاہوئے ہوں کہ:
’’اے ایمان والو! اپنی آوازیں اونچی نہ کیا کرو‘ اس (غیب بتانے والے ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اور نہ انکے حضور چلا کر نہ کہو، جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال اکارت نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو‘‘ (سورۃ الحجرات، آیت 2)
ادب گاہے زیست آسمان از عرش نازک تر
نفس گُم کردہ می آید جنیدؒ و با یزید ؒ اینجا
جس کے بارے میں بریلی کے کچے کوٹھے میں ٹوٹی چٹائی پر بیٹھے پکے عقیدے کی حامل شخصیت امام احمد رضا خاں بریلوی ؒ نے کیا خوب فرمایا کہ …؎
اللہ کی سرتا بقدم شان ہیں یہ
اِن سا نہیں اِنسان وہ اِنسان ہیں یہ
قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں
ایمان یہ کہتا ہے میری جان ہیں یہ
وہ شہر مقدس جس کی پابوسی کا شرف عرش بریں بھی حاصل کرنا اپنے لیے اعزاز سمجھتا ہو، یقیناً اس شہر کو یہ اعزاز و اکرام قیامت تک ملتا رہے گا کیونکہ اس کی آغوش میں تاقیامت رسولِ رحمت ﷺ آرام فرما ہیں، یہ شہر کبھی ’’یثرب‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا لیکن رسولِ رحمت، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے جلوئوں کی وجہ سے ’’مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ بنا دیا یہی تو وہ مبارک اور مقدس شہر ہے جہاں تعظیم کی خاطر آنکھیں بے اختیار جھُک اور گردنیں بے ساختہ خَم ہوجاتی ہیں‘ ناچیز نے دنیا بھر میں تبلیغی سفر کیے ہیں، بلند قامت، عالیشان ‘ پرشکوہ عمارات کو قریب سے دیکھا ہے، ایوانِ صدر بھی گیا، کئی سو ایکڑ رقبے پر پھیلے وزیر اعظم ہائوس کا وزٹ بھی کیا ہے، گورنر ہائوس جانے کا بھی اتفاق ہوا‘ ان تمام تر کارپیٹڈ اور فرنشڈ عمارات کو عقیدت و محبت سے نہیں دیکھا کیونکہ درِ مصطفے ﷺ کے گدا ان تمام چیزوں کو پرِکاہ کی حیثیت بھی نہیں دیتے …؎
بستر لگا ہو جن کا تیری گلی میں آقا ﷺ
تخت سکندری پہ وہ تھو کتے بھی نہیں
مگر جونہی پر خطا نگا ہیں عالم کائنات کے محور و مرکز ’’گنبدِ خضرائ‘‘ کی سنہری سنہری جالیوں پر پڑتی ہیں تو روح کے دریچوں میں ایک سرشاری سی پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ پرشکوہ عمارات میں بچھے اٹلی، سوئٹرزلینڈ، ملائیشیا کے کارپٹس کی قیمت اس بوسیدہ چٹائی کے تنکے کے برابر بھی نہیں ہے‘ جہاں پر میرے اور آپ سب کے کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما رہے ہونگے‘ لہٰذا آج کے مقدس اور بابرکت دن کی مناسبت سے یہ ضروری ہے کہ بحیثیت اُمتی ہماری ہر ہر ادا میں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس نظر آنا چاہیے تب جشن ولادت رسول صلی اللہ علیہ وسلم منانے کا مقصد بھی پورا ہوتا ہے۔
آج پورے عالم اسلام میں رسول ِ رحمت، پیغمبر انسانیت، رُوحِ ایماں، جانِ ایماں، شانِ کائنات، مقصودِ کائنات، فخرِ موجودات، سراپا نور کے پیکر میں ڈھلے ’’نُورعلی نُور‘‘ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشی منائی جا رہی ہے‘ آج عجب سماں ہے، چڑیاں چہچہا رہی ہیں، بہاریں مسکرا رہی ہیں، کلیاں کھِل رہی ہیں، شگوفے پھوٹ رہے ہیں، کوئل کُوکُو کر رہی ہے، آبشاروں کے ترنم سے ’’خوشیاں منائو کملی والا آگیا‘‘ کے نغمے بہار بن کر کائنات میں جلوے بکھیر رہے ہیں، ہر طرف نور کی شعاعیں انوار و تجلیات کا منظر پیش کر رہی ہیں، کائنات کا ذرہ ذرہ‘ صحرا صحرا، قطرہ قطرہ، قُلزم قُلزم رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں جھوم جھوم رہا ہے، چرند پرند، حجر و شجر، پھول و کلیاں، چاند و چاندنی، سورج و کرنیں، ستارے و سیارے، دریا و صحرا، کھیت و کھلیان، زمین و زماں، مکین و مکاں، الفاظ و حروف سمیت اس کائنات میں سوائے ابلیس کے آج سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں، خوشیاں کیوں نہ منائیں؟
12ربیع الاول کو اس کریم ہستی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کائنات کو شرف بخشا جس کے پاکیزہ و مُصفیٰ توسل سے ذلت و رسوائی کی اتھاہ گہرائی میں گری اور فرسودہ رسم و رواج کے شکنجوں میں جکڑی عورت کو شرف و عزت اور آزادی نصیب ہوئی، 12ربیع الاول بیٹی کو باپ کی شفقت کا سایہ، بہن کو بھائی کی چھتر چھائوں، بیوی کو شوہر کی طرف سے حفاظت کی چادر، ماں کو ’’اَلَجنۃُ تحتَ اَقدامِ الاُمھَات‘‘ کا مژدہ جاں فزا، اُستاذ کو ’’اِنَما بُعثِتُ مُعَلمَاََ‘‘ کی خوشخبری اور غلام کو آزادی کا پروانہ نصیب ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سے قبل عورت کو پائوں کی جوتی اور نفرت و گھن کی علامت تصور کیا جاتا تھا مگر جونہی 12ربیع الاول کی پاکیزہ، شفاف شبنمی، اُجلی، نکھری، لطیف و نظیف اور محبت و شفقت کے پیکر میں ڈھلی صُبح صادق طلوع ہوئی تو اسکے ساتھ ہی ہر طرف ظلم و تشدد، جہالت و گمراہی، کثافت و غلاظت، نفرت و تعصب کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غروب ہو گیا۔
12ربیع الاول کی وہ سہانی صُبح کی بابرکت اور بارحمت گھڑی جس صُبح چمکا طیبہ کا چاند، اُن دل افروز ساعتوں پہ لا کھوں، کروڑوں، اربوں نہیں بلکہ کھربوں درودو سلام کے نذرانے اور عقیدت و محبت کے پھول نچھاور کرنے کو دل کرتا ہے کیونکہ رسول ِ رحمت نبی کریم، رئوف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ پاکیزہ اور کائنات میں سب سے زیادہ قیمتی ترین محل جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی اُس کو سجدہ کرنے کیلئے اُس دن محرابِ کعبہ کو بھی جھکنا پڑا اور قیصرو کسریٰ کے محلات پہ جگمگاتے کنگرے، طیبہ طاہرہ مکرمہ محترمہ حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا کے محل سے نکلنے والی نورانی شعاعوں کے سامنے تاب نہ لاتے ہوئے گر پڑے تھے اور ہزاروں سال سے روشن بُت کدہ آناََ فاناََ بُجھ گیا تھا۔
رسول ِ رحمت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک آمد سے لسانی، علاقائی، نسلی اور قومی چوہدراہٹ کے بُت پاش پاش کر دیئے گئے، افتادہ و پسماندہ طبقات کو جتنا تحفظ و احترام رسولِ رحمت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا دنیا کے کسی بھی آئین و قانون میں اسکی نظیر نہیں ملتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہر پہلو روشن، تابندہ، رخشندہ، درخشندہ اور چمکدار نظر آتا ہے‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر بحیثیت باپ کے پیمانے پر دیکھا جائے تو بیٹی کیساتھ شفقت و محبت کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ جب بھی خاتونِ جنت سیدہ طیبہ طاہرہ حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تشریف لاتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُنکے استقبال کیلئے سروقد کھڑے ہو جایا کرتے تھے اور عصمت و طہارت کی حامل پیشانی مبارک پر بوسہ دیکر خاتون ِ جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بیٹھنے کیلئے وہ مبارک چادر ِ تطہیر بچھا دیتے تھے جس کو ربِ ذوالجلال نے ’’یَا اَیُھَا المُزمِل‘‘ کے آفاقی خطاب سے نوازا ہے۔
بحیثیت شوہر اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کیا جائے تو بیوی کیساتھ محبت کا ایسا پاکیزہ انداز پڑھنے کو ملتا ہے کہ جب کائنات کے مومنین کی ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جس برتن سے منہ لگا کر پانی نوش فرماتیں تھیں‘ اُسی برتن میں اُسی جگہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنا منہ مبارک لگا کر پانی نوش فرماتے تھے بیوی کیساتھ محبت و شفقت کا ایسا مثالی و عملی نمونہ پیش کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کائنات پر بسنے والی جمیع انسانیت کو اپنی اپنی بیویوں سے محبت و شفقت کا طریقہ بتا دیا، بحیثیت بھائی اگر کائنات کے سوہنڑے تے من موہنڑے لجپال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مُصفیٰ تے مُزکیٰ صفحات کی ورق گردانی کی جائے تو ہمیں رسول ِ رحمت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی رضاعی بہن جنابِ حضرت شیمارضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پیار و محبت کا ایسا انوکھا انداز پڑھنے کو ملتا ہے جس کو پڑھ کر انسانیت کا سر فخر سے بلند نظر آتا ہے‘ رضاعی بہن سے پیار و احترام کا ایسا پاکیزہ رشتہ انسانیت کو آج تک دیکھنے اور سُننے کو نہیں ملا، بحیثیت آقا اگر دیکھنا ہو تو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اُن دس سالوں کو دیکھا جا سکتا ہے جو رسول ِ رحمت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفیق و کریم بارگاہ ِ عظمت میں بسر ہوئے اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی فرماتے ہیں کہ:
’’ میں نے 10سال اپنے کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں گزارے مگر میرے لجپال کریم و شفیق آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی مجھے جِھڑکا تک نہیں اور یہ تک نہیں فرمایا کہ یہ کام کیوں کیا ہے اور یہ کیوں نہیں کیا‘‘ ۔
یہ تو رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے صرف چند نمونے ہیں‘ اگر سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر قلم لکھنا چاہے تو بالآخر ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ قلم عاجزی کا اظہار کرتا ہوا نظر آتا ہے‘ کائنات میں جگہ جگہ جو حُسن و جمال کے جلوے نظر آرہے ہیں‘ یہ سب میرے کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین پاک کے مبارک تلوئوں کو چھونے والے ذرّوں کی خیرات کا صدقہ ہے کیونکہ قلندر لاہوری ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ نے فرمایا تھا کہ …؎
ذکر و فکر و علم و عرفانم توئی
کشتی و دریا و طوفانم توئی
جس کی اذیت کو رب تعالیٰ اپنی اذیت قرار دے فرمایا ’’بے شک جو اذیت دیتے ہیں اللہ اور اُسکے رسول کو اُن پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے اُن کیلئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے (سورۃ الا حزاب، آیت 57)
جس کی بارگاہ میں حاضری کی سعادت حاصل کرنے کے آداب خود ربِ ذوالجلال کی طرف سے عطاہوئے ہوں کہ:
’’اے ایمان والو! اپنی آوازیں اونچی نہ کیا کرو‘ اس (غیب بتانے والے ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اور نہ انکے حضور چلا کر نہ کہو، جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال اکارت نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو‘‘ (سورۃ الحجرات، آیت 2)
ادب گاہے زیست آسمان از عرش نازک تر
نفس گُم کردہ می آید جنیدؒ و با یزید ؒ اینجا
جس کے بارے میں بریلی کے کچے کوٹھے میں ٹوٹی چٹائی پر بیٹھے پکے عقیدے کی حامل شخصیت امام احمد رضا خاں بریلوی ؒ نے کیا خوب فرمایا کہ …؎
اللہ کی سرتا بقدم شان ہیں یہ
اِن سا نہیں اِنسان وہ اِنسان ہیں یہ
قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں
ایمان یہ کہتا ہے میری جان ہیں یہ
وہ شہر مقدس جس کی پابوسی کا شرف عرش بریں بھی حاصل کرنا اپنے لیے اعزاز سمجھتا ہو، یقیناً اس شہر کو یہ اعزاز و اکرام قیامت تک ملتا رہے گا کیونکہ اس کی آغوش میں تاقیامت رسولِ رحمت ﷺ آرام فرما ہیں، یہ شہر کبھی ’’یثرب‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا لیکن رسولِ رحمت، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے جلوئوں کی وجہ سے ’’مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ بنا دیا یہی تو وہ مبارک اور مقدس شہر ہے جہاں تعظیم کی خاطر آنکھیں بے اختیار جھُک اور گردنیں بے ساختہ خَم ہوجاتی ہیں‘ ناچیز نے دنیا بھر میں تبلیغی سفر کیے ہیں، بلند قامت، عالیشان ‘ پرشکوہ عمارات کو قریب سے دیکھا ہے، ایوانِ صدر بھی گیا، کئی سو ایکڑ رقبے پر پھیلے وزیر اعظم ہائوس کا وزٹ بھی کیا ہے، گورنر ہائوس جانے کا بھی اتفاق ہوا‘ ان تمام تر کارپیٹڈ اور فرنشڈ عمارات کو عقیدت و محبت سے نہیں دیکھا کیونکہ درِ مصطفے ﷺ کے گدا ان تمام چیزوں کو پرِکاہ کی حیثیت بھی نہیں دیتے …؎
بستر لگا ہو جن کا تیری گلی میں آقا ﷺ
تخت سکندری پہ وہ تھو کتے بھی نہیں
مگر جونہی پر خطا نگا ہیں عالم کائنات کے محور و مرکز ’’گنبدِ خضرائ‘‘ کی سنہری سنہری جالیوں پر پڑتی ہیں تو روح کے دریچوں میں ایک سرشاری سی پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ پرشکوہ عمارات میں بچھے اٹلی، سوئٹرزلینڈ، ملائیشیا کے کارپٹس کی قیمت اس بوسیدہ چٹائی کے تنکے کے برابر بھی نہیں ہے‘ جہاں پر میرے اور آپ سب کے کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما رہے ہونگے‘ لہٰذا آج کے مقدس اور بابرکت دن کی مناسبت سے یہ ضروری ہے کہ بحیثیت اُمتی ہماری ہر ہر ادا میں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس نظر آنا چاہیے تب جشن ولادت رسول صلی اللہ علیہ وسلم منانے کا مقصد بھی پورا ہوتا ہے۔