بر صغیر کے مسلم اکثریت والے علاقوں پر مشتمل ایک آزاد، علیحدہ اور خود مختار ریاست کے قیام کا تصور اور خواب دیکھنے والے علامہ اقبال اور اس خواب کی بظاہر نا ممکن تعبیر کے لئے 9 کروڑ مسلمانوں کی قائد اعظم کی ولولہ انگیز، جرأت مند، نڈر، بے خوف اور مدبرانہ قیادت کے ساتھ، زبردست جدوجہد کے نتیجے میں بالا آخر د نیا کے نقشے پر اگست 1947 میں ایک نئی مملکت کا ظہور ہوا جو خالصۃََ کلمہ توحید کی بنیاد پر وجود میں آئی کیونکہ پاکستان اور اسلام ایک ہی حقیقت کے دورخ ہیں۔قیام پاکستان کا خواب دیکھنے والی آنکھوں میں ایک ایسے خطے کا وجود تھا۔ جہاں امن، مساوات، اخوت، انصاف، رواداری، قانون کی حاکمیت اور انصاف عوام کی فلاح و بہبود، جمہوریت، اظہار آزادی رائے، تحمل و برداشت، غرض قرآن وسنت کے رہنما اصولوں اور تعلیمات کے مطابق ایک مثالی ریاست ہو گی جو خلفائے راشدین کے طرز حکمرانی کی یاد تازہ کرے گی اور پاکستان دنیائے اسلام کا قلعہ اور عالم اسلام کا سب سے مضبوط اور مستحکم مرکز ہو گا جس کی روحانی بنیادیں مکہ اور مدینہ میں ہوں گی۔ اس تصور خواب اور امید کو تقویت یوں ملی کہ اس فردوس بریں یعنی پاکستان میں پہاڑوں، دریاؤں، سمندروں، صحراؤں جنگلوں، معدنیات، زرخیز زمین، چار موسموں اور افرادی قوت کی شکل میں اللہ نے جو نعمتیں ارزانی کی تھیں تو ان وسائل اور نعائم کو بروئے کار لا کر یہ نو خیز ملک اقوام عالم میں ایک باوقار، محترم، با عزت، طاقتور، محکم اور عظیم ملک کا مقام حاصل کرے گا کہ یہ ملک اس کی پوری اہلیت، صلاحیت اور امکانات رکھتا تھا۔ بقول منیر نیازی
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
ملک پر آسیب کا سایہ ہی تھا کہ ایک مستند اور محقق رپورٹ کے مطابق بانی پاکستان، ان کی ہمشیر د مادر ملت اور قائد ملت لیاقت علی خان کو غیر طبعی موت سے ہمکنار کیا گیا اور اس کی بعد پاکستان کے ایوان ہائے اقتدار میں خود غرضیوں، مفاد پرستیوں، وطن دشمنی، اقرباء پروری، بد عنوانی، عیاشیوں، بیرونی سازشوں قومی خزانے کی لوٹ کھسوٹ، ہوس اقتدار اور حصول اقتدار کی اندھی دوڑ، لسانی، مذہبی اور معاشرتی طبقہ بندیوں اور فرقہ پرستیوں، جاگیر داروں، وڈیروں اور اشرافیہ کی موروثی سیاست، اغیار کی معاشی، معاشرتی اور اخلاقی غلامی، قیادت کی بے حسی، نااہلیت، ناعاقبت اندیشی، ذہنی اور فکری محکومی، معاشی دست نگری، پاکستان کی نظریاتی اساس اور نظریہ پاکستان سے رو گردانی، آئین کی بے توقیری، طالع آزماؤں کی قسمت آزمائی اور سب سے بڑھ کر قرآن وسنت سے دوری اور شریعت کے نفاذ میں تاخیر اور لیت و لعل سے ملک نحوست، بے برکتی، اور آسیب کی دلدل میں دھنستا چلا گیا اور آج تک اس دلدل سے نکل نہیں سکا۔ 60 کی دہائی میں سنگاپور اور کوریا کے لئے رول ماڈل بننے والا یہ ملک، اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق دنیا کے 5 غریب ترین ممالک میں شامل ہے جس کی 40 فی صد آبادی خط غربت سے نیچے ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ انسانوں کے لئے بد ترین چیز مایوسی ہے ممکن ہے اس شر سے خیر کی روشنی نکلے اور ظلمت، جہالت، نا انصافی، بدامنی، دہشت گردی، بے یقینی، ظلم و جبر لا قانونیت، غلامی، مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کی اس آماجگاہ میں نور کی کوئی کرن پھوٹے اور اللہ ایسے صالح، با صلاحیت، محب وطن اور مجاہد بندوں کی کوئی جماعت بھیج دے جن کی برکت وقیادت سے پاکستان میں ایک پاکیزہ نورانی اور منزہ صبح طلوع ہو… پاکستان کے سیاسی کلچر کی بد ترین قباحتوں اور لعنتوں میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ مقتدر سیاسی قوتوں کے مابین ہم آہنگی، یگانگت احترام، لحاظ، برداشت اور تحمل کا شدید فقدان ہے۔ ایک سیاسی جماعت بر سر اقتدار آکر جو عوامی منصوبے اور سکیمیں شروع کرتی ہے اس کی مخالف جماعت اقتدار میں آکر ان منصوبوں کو سبوتاڑ کر دیتی ہے اور یا تو ان منصوبوں کو ختم کر دیا جاتا ہے یا کھٹائی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ سیاسی مخالفتوں یا مصلحتوں کا نقصان عوام الناس کو ہوتا ہے۔ سیاسی مخاصمت اور مخالفت کی وجہ سے عوام ایک اچھے منصوبے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم کا عظیم الشان منصوبہ سیاسی مخالفتوں یا سیاسی مصلحتوں کی نذر ہو گیا اور نہ آج پاکستان میں بجلی اتنی وافر اور سستی ہوئی کہ عوام کو موجود ہ بجلی کی قیمتوں میں ہو شربا اور اذیت عذاب نہ سہنا پڑتا۔آج میں جس اہم معاملے کی طرف حکام اور صاحبان اختیار واقتدار (خصوصاً وزیر اعلی پنجاب) کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں وہ راولپنڈی شہر کی گنجان آبادی عید گاہ روڈ پر واقع زچہ بچہ ہسپتال کی تعمیر ہے جو ایک بہترین عوامی فلاحی منصوبہ ہے۔ اس ہسپتال کی تکمیل سے راولپنڈی کے غریب اور متوسط طبقے کی خواتین کو علاج معالجے کی سستی اور معیاری سہولیات میسر آسکتی تھیں۔ لیکن اس ہسپتال کا عمارتی ڈھانچہ کھڑا کرنے کی بعد کافی عرصے سے اس کا کام رکا ہوا ہے۔ نہیں معلوم کہ اس کی تعمیر و تکمیل میں کون سی رکاوٹیں دامن گیر ہیں۔ ہسپتال کا بنیادی کام ہو چکا ہے لیکن عرصہ دراز سے اس پر کام نہ ہونے کی وجہ اس کا سریا اور دو سر اعمارتی میٹیریل، نشہ بازوں کی ضروریات پوری کر رہا ہے اور یہی صور تحال رہی تو یہ ہسپتال کسی کھنڈر میں تبدیل ہو جائے گا۔ میں جب بھی اس ہسپتال کے سامنے سے گزرتا ہوں تو اس کی حالت زار اور ملکی سرمائے کے زیاں اور ایک قومی اثاثے کے ممکنہ انہدام کے خدشے سے دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اس ہسپتال پر اب تک کئے جانے والے اخراجات کے اکارت جانے کے علاوہ اس کی عدم تکمیل سے راولپنڈی کے عوام کو بڑی مایوسی اور احساس محرومی ہوگا۔ پنجاب کے وزیر اعلی اگر اب بھی اس منصوبے میں ذاتی اور خصوصی دلچسپی لیں اور خود اس کا معائنہ کریں اور ترجیحی بنیادوں پر اس کی جلد از جلد تکمیل کے لئے احکامات صادر کریں تو نہ صرف راولپنڈی کے عوام کو علاج معالجے کی ایک بڑی سہولت میسر آجائے گی بلکہ اس کی تعمیر سے حکومت کو سیاسی فائدہ بھی ہو گا اور اس کے ووٹ بنک میں اضافہ ہو گا۔ وزیر اعلی پنجاب سے دردمندانہ درخواست ہے کہ ایک خاتون ہونے کے ناطے سے وہ خواتین کے اس فلاحی منصوبے کی اہمیت اور افادیت کونہ صرف محسوس کریں بلکہ عملی اقدامات کر کے اس کی فوری تکمیل کی ہدایات جاری کریں اور راولپنڈی کی غریب اور متوسط طبقے کی عورتوں کی دعائیںلے کر اپنی عاقبت سنواریں۔
حکومت پنجاب سے عرض ہے !!
Dec 16, 2024