
چند دن ہوئے بھارت اور چین کے درمیان ایک سرحدی جھڑپ کا بہت چرچا ہوا۔ یہ جھڑپ اروناچل پردیش کی سرحد پر ہوئی۔ چینی فوج کا ایک دستہ بھارتی علاقے میں آنکلا تھا۔ جھڑپ میں 37 بھارتی فوجیوں کے زخمی ہونے کی اطلاع آئی۔ بعدازاں چینی فوجی واپس اپنے علاقے میں چلے گئے۔
کل اس جھڑپ کی پوری کیمرہ فوٹیج سامنے آئی جو دیکھنے والوں کیلئے تفریح طبع کا باعث بنی۔ پتہ چلا کہ جھڑپ سرے سے ہوئی ہی نہیں تھی بلکہ یہ دوطرفہ لاٹھی چارج کا مقابلہ تھا اور لاٹھی چارج بھی ایسا کہ بھیا بچ بچا کے‘ دیکھنا کہیں کسی کا سر نہ پھوٹ جائے۔ سو سے کچھ کم بھارتی فوجی تھے اور اتنے ہی چینی فوجی۔ لاٹھی چارج کی پہل بھارتی فوجیوں نے کی۔ جواب میں چینیوں نے بھی لاٹھیاں چلائیں اور کچھ ہی دیر بعد اپنے کمانڈر کے کہنے پر قطار کی صورت واپس اپنے علاقے میں چلے گئے۔ یہ بھی پتہ چلا کہ کوئی بھی فوجی افسر ادھر سے نہ ادھر سے زخمی ہوا۔ لاٹھیوں کی چوٹ البتہ کئی کو آئی۔ لاٹھی کی چوٹ اور زخم میں فرق ہوتا ہے۔ بھارتی فوجی سبھی پنجابی تھے جو پنجابی زبان میں گالیاں دے رہے تھے اور خاصی فراخدلی سے دے رہے تھے۔ چینی فوجی کیمرہ سے دور تھے‘ ان کی لاٹھیوں کی آواز سنائی نہیں دی۔
اصولاً اس جھڑپ کو قابل تعریف سمجھنا چاہئے۔ کاش سب دنیا کی فوجیں بندوق تلوار چھوڑ کر لاٹھیوں سے مسلح ہو جائیں۔ جنگ کا فیصلہ بارود کی آگ سے نہیں‘ لاٹھی کی چوٹ سے ہو۔ جو زیادہ لاٹھیاں برسائے‘ وہ جیت جائے۔ میدان جنگ میں لاشوں کے ڈھیر نہ لگیں بلکہ ٹوٹی لاٹھیوں کے انبار نظرآئیں۔ جانیں بچیں گی‘ گھر نہیں اجڑیں گے اور توپ بندوق‘ راکٹ میزائل پر ہر ملک کو جو کھرب ہا کھرب روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں‘ وہ سڑکوں‘ سکولوں‘ ہسپتالوں پر خرچ ہوں۔ سپر طاقت کا پیمانہ لاٹھیوں کی تعداد ہو۔ امریکہ نمبر ون سپر پاور ہے‘ اس کے پاس 50 لاکھ لاٹھیاں ہیں‘ کارخانوں میں مزید 5 لاکھ ’’زیرتعمیر‘‘ ہیں۔
…………
اروناچل پردیش بھارت کے شمال مشرق کا آخری کونہ ہے۔ پہلے اسے نیفا کہا جاتا تھا‘ انگریزوں نے متحدہ ہندوستان کے دو کونوں میں بے نام سرحدی صوبے بنائے تھے۔ ایک شمال مشرق میں نارتھ ایسٹرن فرنٹیئر ایجنسی (نیفا) اور دوسرا شمال مغرب میں نارتھ ویسٹرن فرنٹیئر پراونس یعنی این ڈبلیو ایف پی اور عرف عام میں فرنٹیئر۔
نیفا میں 1962ء کے سال جھڑپ ہوئی تھی جس میں بھارت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اس صوبے کے کچھ رقبے پر چین کا قبضہ ہو گیا۔ اس کے فوراً بعد بھارت نے اس صوبے کو اورناچل پردیش کا نام دیا۔
دراصل یہ بھارت کے اس شمال مشرقی علاقے کا ایک حصہ ہے جو نہ تو بھارت کا حصہ ہے نہ چین کا۔ نسلی اورلسانی اعتبار سے اس پورے خطے کا بھارت سے کچھ لینا دینا ہے نہ چین سے بلکہ اس کا زیادہ قرب برما اور تھائی لینڈ یا یوں کہئے کہ انڈو چائنا سے ہے۔ یہ سارا علاقہ بہت کم آباد ہے اور نسلوں اور قبیلوں کے اعتبار سے سات صوبوں میں منقسم ہے۔ یعنی اروناچل پردیش‘ آسام‘ میگھالے‘ منی پور‘ تری پورہ‘ میزورام اور ناگا لینڈ۔ ان میں واحد آسام ایسا ہے جسے صوبہ کہا جا سکتا ہے جس کی آبادی ساڑھے تین کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ باقی چھ کے چھ صوبے محض اضلاع کہے جا سکتے ہیں‘ کسی کی آبادی دس لاکھ ہے‘ کسی کی پندرہ تو کسی کی 20 لاکھ۔ اروناچل پردیش رقبے کے اعتبار سے قدرے بڑا صوبہ ہے‘ لیکن آبادی محض بارہ چودہ لاکھ ہے۔ یعنی لاہور شہر کے دسویں حصے سے بھی کم‘ لیکن بہت ہی انوکھی بات کچھ اور ہے۔ وہ یہ کہ یہ بارہ چودہ لاکھ آبادی کسی ایک نسل پر مشتمل نہیں ہے بلکہ یہاں 17 نسلیں یا قومیں آباد ہیں اور اتنی ہی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ دنیا کا کوئی اور ملک یا علاقہ اتنی کم آبادی میں اتنی نسلوں اور زبانوں کی مثال پیش نہیں کر سکتا۔ سب سے بڑی زبان فی شی ہے جس کے بولنے والے 20 فیصد یعنی لگ بھگ اڑھائی تین لاکھ۔ عیسائی سب سے زیادہ یعنی 30 فیصد اور مسلمان محض 2 فیصد ہیں۔
پورا صوبہ نہایت سرسبز شاداب گھنے جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے۔ ہاتھی‘ شیر‘ گینڈا اور وہ سارے دوسرے جانور اس صوبے میں کثرت سے پائے جاتے ہیں جو پورے بھارت میں موجودہیں‘ لیکن کچھ جانور ایسے ہیں جو صرف اسی صوبے میں ہیں اور کہیں نہیں۔ مثلاً نہایت کم یاب سرخ پانڈا‘ دیوتامت گلہریاں‘ سنگ مر مر سے گویا بنی ہوئی پہاڑی بلی‘ اڑنے والی بڑے قد کی لومڑیاں (دراصل گلہری سے ملتا جلتا جانور۔)
یہ سارا علاقہ باقی بھارت (مین لینڈ) سے محض ایک تنگ سے خالی راستے کے ذریعے ملا ہوا ہے جس کے نیچے بنگلہ دیش‘ اوپر بھوٹان ہے۔ اس راہداری (یا کاریڈور) کو سلی گوری راہداری کہا جاتا ہے‘ لیکن زیادہ مشہور نام چوزے کی گردن ہے۔ یعنی بہت ہی پتلی راہگزر‘ اس کی چوڑائی کہیں سے بارہ کہیں سے چودہ کلومیٹر ہے۔ چین جب چاہے اس چوزے کی گردن کو دبوچ کر بھارت کا رابطہ شمالی مشرقی کونے سے کاٹ سکتا ہے۔ محض ایک ریلوے لائن اس ’’گراں‘‘ سے گزر کر تمام مشرقی صوبوں کا بھارت سے رابطہ ملاتی ہے۔
…………
یہ ساتوں ریاستیں بھارت یا برصغیر کا حصہ ہیں۔ انگریزوں نے کم و بیش اس سارے علاقے پر قبضہ کیا اور بھارت کو یہ قبضہ ورثے میں ملا۔ انکو بار کے جزائر انڈونیشیا (جاوا سماٹرا) کا حصہ تھے۔ انگریزوں نے اس پر قبضہ کیا اور یہ بھی بھارت کو مل گئے جس نے انہیں انڈیمان (کالا پانی) سے ملحق کرکے ایک نیا صوبہ بنا دیا۔
آسام کے سواباقی تمام چھ صوبے ننھے منے ہیں اور مزاحمت کی سکت نہیں رکھتے۔ میزورام اور ناگا لینڈ میں معمولی درجے کی مزاحمت کچھ عرصہ ہوتی رہی جو بالآخر ختم ہو گئی۔کچھ طاقت کے زور پر‘ کچھ مراعات کے بل پر بھارت نے یہاں قابو پا لیا۔ اگر اور جب کبھی موقع ملا (تاریخ غیر متوقع موقعوں سے بھری پڑی ہے) تو یہ چھوٹے چھ صوبے بھارت سے علیحدگی میں ایک پل کی دیر بھی نہیں لگائیں گے۔ یہاں یہ بھی ذہن میں رہے کہ سابق مشرقی پاکستان کے اضلاع سلہٹ اور چاٹگام بھی برصغیر کا حصہ نہیں‘ یہ اسی شمال مشرقی علاقے کا جزو رہے ہیں۔
آسام کا مسئلہ الگ نوعیت کا ہے۔ وہاں تحریک مزاحمت موجود ہے‘ لیکن یہ بھارت سے کبھی الگ نہیں ہوگا جس کی وجہ اس کی بدلی ہوئی ڈیموگرافی ہے۔ آسام میں تین بڑے گروہ آباد ہیں۔ علیحدگی پسند آسامی بالخصوص بوڈر اور دیگر قبائل۔ ان کی بھاری اکثریت ہندو ہے۔ بھارتی نسل کے ہندو اور مسلمان۔ مسلمانوں کی آبادی ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ بھارتی نسل کے ہندو (ہندی‘ بنگالی اور دیگر) کبھی بھارت سے علیحدگی نہیں چاہیں گے۔ کیونکہ وہ تو خود ’’بھارت‘‘ ہیں مسلمان اس لئے علیحدگی نہیں چاہیں گے کہ نئی آسامی حکومت انہیں نکال باہر کرے گی یا مار ڈالے گی۔ علیحدگی پسند اس کا اعلان کر چکے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو کسی صورت آسام میں نہیں رہنے دیں گے۔