تاریخ کا ایک اہم ورق … بہاری مسلمان

فروری71ء میں الیکشن ہوئے‘ جس میں عوامی لیگ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی‘ جس کے بعد جلسے اور جلوس کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ آئے دن ہڑتال ہوتی اور تمام بازار بند ہو جاتے۔ فوج میں بغاوت ہو گئی۔ اب آئے دن گولیاں چلنے کی آوازیں آتیں اور سڑکوں پر ملٹری کی گاڑی جس میں ای پی آر (ایسٹ پاکستان رجمنٹ) کے بنگالی سپاہی بندوقیں تانیں کھڑے ہوتے۔ دیناج پور کے علاقے میں آتے اور جو بہاری نظر آتا‘ پکڑ کر لے جاتے اور قتل کر دیتے تھے۔ اس مرتبہ23مارچ کو کسی گھر میں پاکستانی جھنڈا نہیں لہرایا‘ سوائے ایک گھر کے‘ یہ گھر چاچانور الدین کا تھا۔ دو روز بعد25مارچ کو اکثر گھروں پر بنگلہ دیش کا جھنڈا پہلی مرتبہ لہرایا گیا۔ ایک روز صبح سات آٹھ بجے کے قریب گولیوں کے چلنے کی آوازیں آنے لگیں۔ والدہ نے ہم بچوں کو کمرے میں پلنگ کے نیچے چھپا دیا۔میرے والد‘ بھائی اور چچا پہلے ہی کسی اور کے گھر چھپے ہوئے تھے۔ دوپہر تک گولیاں چلتی رہیں۔ لوگ گھروں میں اذان دے رہے تھے۔ میں بھی اذان دینے کیلئے صحن میں نکل آیا۔ ابھی اذان شروع ہی کی تھی کہ ایک گولی امردہ کے درخت کی ٹہنی پر لگی اور ٹہنی میرے سامنے آ گری۔ میں اذان چھوڑ کر کمرے کی طرف بھاگا۔ تھوڑی دیر بعد میرے چچا آئے اور ہمیں یہاں سے بھاگنے کیلئے کہا۔ ہم سب گھر سے نکل پڑے اور گولیوں کی بوچھاڑ میں بھاگتے ہوئے ایک مکان میں گھس گئے‘ جہاں پہلے ہی بہت سے لوگ جمع تھے‘ جن میں عورتیں اور بچے تھے۔ مرد ایک جگہ لاٹھیاں‘ چھریاں اور تلوار لیے کھڑے تھے۔ عورتیں اور بچے آیت کریمہ کا ورد کر رہے تھے۔ کچھ عورتیں قرآن پڑھ رہی تھیں۔ موت ہمارے بالکل قریب تھی۔ اگلے روز صبح سویرے بہت سی عورتیں‘ جن میں کچھ زخمی حالت میں تھیں‘ جس علاقے میں ہم رہتے تھے‘ وہاں سے روتی پیٹتی ہوئی آئیں۔ انہوں نے بتایاکہ رات ان کے تمام مردوں اور لڑکوں کو قتل کر دیا گیا ہے۔ عصر کے بعد اچانک دھماکوں کی آوازیں آنے لگیں۔ سب لوگ سہم گئے۔ کچھ دیر بعد اچانک ایک شور بلند ہوا کہ فوج آ گئی‘ فوج آ گئی۔ یہ سننا تھا‘ لوگ گھروں سے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہوئے نکل پڑے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے۔ کچھ رو رہے تھے کچھ شکرانے کے نفل پڑھنے میں مصروف تھے۔ صبح ہوتے ہی سب اپنے گھروں کو چل پڑے۔ ہمارے گھر کا تالا ٹوٹا ہوا تھا‘ سارا سامان بکھرا ہوا۔ جن گھروں میں لوگ قتل ہوئے تھے‘ وہاں ان کی لاشیں ابھی تک پڑی تھیں‘ جنہیں دفنانا بہت بڑا مسئلہ تھا۔ سینکڑوں کی تعداد میں لاشوں کو دفنانے کیلئے ایک میدان میں بڑے بڑے گڑے کھودے گئے‘ اس واقعے کے چند ماہ بعد اگست کا مہینہ آ گیا۔ اس مرتبہ پہلے سے زیادہ جوش وخروش پایا جاتا تھا۔ 14اگست کے دن تمام گھروں اور دکانوںپر جھنڈا لہرا رہا تھا۔ بعض دکان داروں نے اپنی دکان کے آگے گیٹ بنائے تھے اور دکان کو جھنڈیوں سے سجایا تھا۔ میں ٹہلتا ہوا اس میدان کی طرف چل پڑا‘ جہاں مرنے والوں کی اجتماعی قبریں تھیں۔ میں نے دیکھا کہ یہاں بھی بانسوں اور پتوں کی مدد سے گیٹ بنایا گیا تھا اور چاروں طرف رنگ برنگی جھنڈیاں لگی تھیں اور گیٹ کے پاس پاکستانی پرچم لہرا رہا تھا۔ دس گیارہ بجے کے قریب ایک ٹرک آیا‘ جس پر سوار کچھ لوگ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ ٹرک رکا تو بہت سے بچے اس پر سوار ہو گئے‘ ان میں‘ میں بھی شامل تھا۔ شام تک ٹرک شہر کا چکر لگاتا رہا۔ شام کومیں واپس آ رہا تھا کہ راستے میں بارش شروع ہو گئی۔ میں بھیگتا ہوا گھر پہنچا اور یوں مشرقی پاکستان میں آخری یوم آزادی کا سورج غروب ہو گیا۔ اس دفعہ 14اگست کو سب بچوں نے چاچا نورالدین کی کمی شدت سے محسوس کی۔ چاچا نورالدین بنگالی تھا۔ وہ اکیلا ایک کرائے کے مکان میں رہتا تھا‘ اس کا آگے پیچھے کوئی نہ تھا۔ ہر سال 14 اگست کو بچے صبح سویرے ہی چاچانورالدین کے گھر جمع ہو جاتے تھے۔ وہ بچوںکو لے کر جلوس کی شکل میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتا ہوا گلیوں کے چکر لگایا کرتا تھا۔ لوگ ا س کی اس حرکت پر ہنستے تھے‘ کوئی کہتا کہ یہ پاگل ہے‘ جب کہ کسی کی رائے یہ تھی کہ یہ جاسوس ہے لیکن چاچا نورالدین ان باتوں سے بے خبر اپنے کام میں مگن رہتا۔ جلوس واپس اس کے گھر آ کر ختم ہوتا۔ اس کے بعد وہ بچوں کو ایک ایک آنہ اور قائداعظم کی ایک ایک تصویر دیا کرتا تھا۔ چاچا نورالدین واحد بنگالی تھا‘ جو عوامی لیگ کا مخالف تھا۔ جب کوئی بنگالی نوجوان پاکستان کے خلاف بولتا‘ تو وہ اسے سمجھانے کی کوشش کرتا۔ایک روز عوامی لیگ کے چند غنڈے چاچا نورالدین کے گھر آئے۔ انہیں گھر سے نکالا اور ان پر لاتوں‘ گھونسوں کی بارش کر دی اور اسے گھسیٹتے ہوئے لے گئے۔ وہ باربار یہی کہہ رہا تھا‘ بھائیو‘ میں تو بنگالی ہوں‘ لیکن غنڈے یہی کہتے رہے کہ تو پاکستان کا ایجنٹ ہے۔ اگلے روز اس کی لاش جھاڑیوں سے ملی‘ لیکن کسی میں اس لاش کو اٹھانے یا دفنانے کی ہمت نہیں تھی۔ حالات بہتر ہونے پر بچے اس کے گھر میں داخل ہوئے‘ تو دیکھا اس کے صحن میں پرانے کپڑے‘ کھانے کے برتن‘ چند کتابیں اور قائداعظم محمد علی جناح ؒ‘ فاطمہ جناح‘ مولوی فضل حق اور نواب سراج الدولہ کی تصاویر بکھری پڑی تھیں۔ بچوں نے وہ تصویریں اٹھائیں اور پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہوئے اس کے گھر سے نکل پڑے۔