تاریخ اسلام کا ایک بڑا سانحہ

دسمبر 1971ء کا دن پاکستان کی تاریخ کے ایک بہت بڑے سانحہ کا دن ہے۔ قیام پاکستان کے صرف 24سال بعد سرزمین پاکستان دولخت ہو گئی۔ اب تک تجزیہ کار اور لکھنے والے صرف اس نکتے پر اظہار خیال کرتے چلے آئے ہیں کہ اس سانحہ کا اصل ذمہ دار کون کون تھا۔ بظاہر فوجی حکمران جنرل آغا محمد یحییٰ خان، شیخ مجیب الرحمن، ذوالفقار علی بھٹو اور انڈین پرائم منسٹر اندرا گاندھی کے الگ الگ کردار پر بحث کی جاتی رہی ہے تاہم یہ حادثہ حکومت اور سیاستدانوں کی عاقبت نااندیشی 1970ء کے انتخابات کے بعد ایک سال تک قومی اسمبلی کے اجلاس کا انعقاد پذیر نہ ہونا، انتقال اقتدار کا نہ ہونا، مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن، مکتی باہنی کا کردار اور بھارت کی طرف سے غیر قانونی طور پر اپنی افواج کا مشرقی پاکستان میں داخلہ اس سانحہ کے فوری محرکات تھے۔ 1948ء میں قائداعظم محمد علی جناحؒ نے ڈھاکہ میں اپنے خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو اور صرف اردو ہوگی۔ اس پر مشرقی پاکستان میں بنگالی زبان کے حوالے سے تحریک شروع کی گئی کہ اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی کو بھی قومی زبان کا درجہ دیا جائے۔ مشرقی پاکستان میں یونیورسٹیوں اور کالجوں کے اساتذہ بھی اپنے نوجوان طالب علموں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے رہے کہ مغربی پاکستان کی طرف سے مشرقی پاکستان کے حقوق سلب کئے جا رہے ہیں اور مغربی پاکستان کے سیاستدان اور بیوروکریسی پاکستان کے مشرقی حصے کی فلاح و بہبود اور ترقی کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔
قیام پاکستان کے وقت مشرقی پاکستان کی آبادی ملک کا 56فیصد تھی جبکہ 1956ء میں نافذ کئے گئے پہلے دستور پاکستان میں ملک کے دونوں حصوں کے حقوق کو برابری کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا۔ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے وزرائے اعظم کو یکے بعد دیگرے مغربی پاکستان کی حکومت اور سیاستدانوں کے ایماء پر وزارت عظمیٰ سے سبکدوش کیا گیا جس کی وجہ سے 1954ء تک مشرقی پاکستان کے بڑے اور مقتدر سیاسی رہنما عوامی لیگ کے پلیٹ فارم سے مشرقی پاکستان کے حقوق کیلئے سرگرم عمل ہو گئے۔ مسلمانانِ برصغیر نے اپنی سیاسی جدوجہد اور ازاں بعد مکمل آزادی کیلئے 1906ء میں مسلم لیگ کے نام پر ایک بڑی سیاسی جماعت قائم کی تھی اس جماعت کا قیام ڈھاکہ میں عمل میں آیا تھا۔ اسی طرح 1940ء میں قرارداد پاکستان کے حوالے سے مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں قرارداد پیش کرنے کا اعزاز بھی مولوی اے کے فضل حق کو حاصل ہوا جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔
1958ء سے 1969ء تک فیلڈ مارشل ایوب خان کی آمریت رہی جس کی وجہ سے سیاسی اداروں کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوا اور ملک میں ایک گھٹن کی فضا رہی۔ 1969ء میں جنرل یحییٰ خان نے ایوب خان سے اقتدار چھین کر ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔ خدا خدا کرکے ملک میں 1970ء کے انتخابات کا انعقاد عمل میں آیا تو مشرقی پاکستان میں 98فیصد نشستیں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے حاصل کیں جبکہ مغربی پاکستان میں اکثریت پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو حاصل ہوئی۔ شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات کے پیش نظر ذوالفقار علی بھٹو اس خیال کے حامی تھے کہ انہیں متحدہ پاکستان کا وزیراعظم نہیں ہونا چاہیے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا اثر و رسوخ جنرل یحییٰ خان پر زیادہ تھا اس لئے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کئے جانے کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پارٹی کے اراکین کو ڈھاکہ جانے سے روک دیا اس موقع پر کسی اخبار کی یہ شہ سرخی بہت مشہور ہوئی کہ بھٹو نے ’’اِدھر ہم، اُدھر تم‘‘ کا نعرہ دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ جو اراکین اجلاس میں شرکت کریں گے، ان کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ اسی دوران 25مارچ 1971ء کو مشرقی پاکستان میں ’’آپریشن سرچ لائٹ‘‘ کے نام سے فوجی آپریشن شروع کیا گیا۔ اس آپریشن کی نگرانی جنرل ٹکا خان کے سپرد کی گئی۔ اس دوران مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے خلاف تعصب اور نفرت کی ایک مہم شروع کی گئی اور مشرقی پاکستان کے ہزاروں لاکھوں افراد نے بھارت کی طرف مہاجرت شروع کر دی۔ بھارتی ذرائع کے مطابق ان مہاجرین کی تعداد 30لاکھ سے زائد تھی۔ وزیراعظم بھارت اندرا گاندھی مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کیلئے ہتھکنڈے اور سازشیں شروع کر چکی تھیں اور اس ضمن میں بھارتی فوج کو بھی مشرقی پاکستان میں آپریشن کیلئے تیار کیا جا رہا تھا۔
جہاں تک1971ء کے زمانے اور واقعات کا تعلق ہے پاکستان میں اب تک سوائے اس بحث کے کسی نے آج تک کوئی اور سبق نہیں سیکھا کہ سقوطِ ڈھاکہ کی ذمہ داری کس کس پر عائد ہوتی ہے۔ مشرقی پاکستان ہمارا وہ بازو تھا جس کی وجہ سے قیام پاکستان ممکن ہو سکا۔ اگر ہم نے اپنے اس بھائی سے حسن سلوک نہیں کرنا تھا تو ہمارا وجود کیسے برقرار رہ سکتا تھا۔ گزشتہ کچھ عرصے سے سیاسی میدان میں جو گہما گہمی نظر آ رہی ہے اور جس طرح سیاست دان ایک دوسرے پر ہر قسم کی الزام تراشی کر رہے ہیں تقریباً تمام اداروں کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ احتسابی عمل جس کے بے شمار تقاضے تھے، اُس کی شفافیت پر حرف آ رہا ہے۔ سیاست دانوںنے نہ صرف یہ کہ ماضی سے کچھ نہیں سیکھا، بلکہ سقوط ڈھاکہ جیسے عظیم قومی سانحے سے بھی کچھ سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔