بھارت کی سازش
مجید غنی
16 دسمبر 1971ء کو پاکستان کو دولخت کر دیا گیا۔ اس دن پاکستانی قوم کو ایسا زخم لگا جو شائد صدیوں تک مُندمِل نہ ہو سکے۔ اپنوں کی نالائقیوں، ہوسِ اقتدار اور مشرقی حصے کو نظرانداز کرنے کی پالیسی کے ساتھ ساتھ ازلی دشمن بھارت نے اس سانحے میں جو کردار ادا کیا وہ اظہر من الشمس ہے ۔تحریک پاکستان کے دوران ہندوئوں اور انگریزوں کا گٹھ جور اپنے عروج پر رہا ۔وزیراعظم برطانیہ نے بالآخرجب ہندوستان چھوڑنے کے فیصلے کا اعلان کیا تو لارڈ ویول کی جگہ لارڈ مائونٹ بیٹن کو وائسرائے مقرر کر دیا جس نے بعد میں کانگریس سے مل کر مسلمانوں کے ساتھ تقسیم ہند کے معاملات میں دھوکہ کیا ۔ قدرت اللہ شہاب اپنی مشہور کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ سارے ہندوستان کی حکومت کا مرکزِ اعصاب جو دہلی تھاکو بھارت کے حوالے کر دیا۔ تقسیم کے وقت حکومتِ ہند کے پاس چار ارب روپے کا کیش تھا بڑی تکرار، حجت او مول تول کے بعد پاکسان کو 75 کروڑ روپیہ دینا طے ہوا۔ بیس کروڑ روپے کی قسط ادا کرنے کے بعد بھارت نے اس سے بھی اپنا ہاتھ روک لیا۔ ان مسائل کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ تقسیم بنگال اور پنجاب تھا اس کے لئے بائونڈری کمیشن بنا اور قرعہ فال ایک انگریز وکیل ریڈ کلف کے نام نکلا جو بائونڈری کمیشن کا چیئرمین بنا۔ ریڈکلف کے حوالے سے بڑے پیمانے پر رشوت ہندئوں سے وصول کرنے کا الزام بھی تھا۔ ریڈ کلف نے بغیر کسی تحقیق کے کلکتہ مغربی بنگال میں شامل کر دیا۔ پنجاب کی تقسیم میںبھی اس نے گورداسپور کو بھارت میں شامل کر دیا۔ اس طرح بھارت کو ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ آمدورفت کا وہ راستہ مل گیا جو کسی طرح سے میسر نہ تھا۔
پاکستان کے وجود میں آتے ہی پاکستان کے خلاف سازشیں شروع کر دی گئیں۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان 1600 میل کا فاصلہ تھا اور تین اطراف بھارت تھا اور چوتھی طرف خلیجِ بنگال جہاں جنگ کے دنوں میں بھارتی نیوی نے ناکہ لگا لیا تھا۔ مضمون کے شروع میں سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اپنے حکمرانوں کے رویے کا بھی ذکر ہوا تھا جن کی طرف سے مشرقی پاکستان کی جائز مشکلات کو حل کرنے میں عدم دلچسپی اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرکے اس آگ کو ایندھن فراہم کیا گیا جو ہمارا دشمن دھیرے دھیرے ہمارے مشرقی بازو میں لگا رہا تھا۔ مشرقی پاکستان کی آبادی کل آبادی کا 56 فیصد تھی۔ سب سے پہلے ایک غلط فہمی قومی زبان کے حوالے سے پھیلی جس کو بہت زیادہ ہوا دی گئی حالانکہ اردو کو قومی زبان بنانے کا فیصلہ خالقِ پاکستان اسمبلی نے کیا تھا جس میں بڑی نمائندگی بنگلہ بولنے والے افراد پر مشتمل تھی۔جہاں تک معاشرتی عدم مساوات کو ہوا دیئے جانے کا تعلق ہے تو ایسے مسائل دیگر ممالک میں بھی پیدا ہو جاتے ہیں لیکن قومیں انہیں خوش اسلوبی سے حل کر لیتی ہیں۔ جبکہ مشرقی اور مغربی حصے کے درمیان بے تحاشہ غلط فہمیاں پیدا کر دی گئیں۔ یہ کام مشرقی پاکستان میں موجود انڈین لابی کے نام نہاد صحافیوں اور بنگالی اساتذہ نے انجام دیا۔ عوامی لیگ کی زیرسرپرستی چھپنے والے لٹریچر میں دعویٰ کیا جاتا تھا کہ پاکستان کی مجموعی آمدنی کا ساٹھ فیصد حصہ مشرقی پاکستان سے حاصل ہوتا مگر اس پر قومی آمدنی کا بیس فیصد خرچ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس مغربی پاکستان قومی آمدنی کا چالیس فیصد کماتا ہے اور کل آمدنی کا پچھتر فیصد کھا جاتا ہے۔ مشرقی پاکستان میں قریباً 15 فیصد ہندو تھے۔ بنگالیوں کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کر دی گئی کہ مغربی پاکستان تمہارا بدترین معاشی استحصال کر رہا ہے اور تمہاری پٹ سن سے حاصل ہونے والی آمدنی مغربی پاکستان میں استعمال ہو رہی ہے۔ صدیوں سے غربت اور جہالت زدہ اکثریتی طبقہ اس پراپیگنڈہ کا اثر قبول کر گیا بلکہ یہی نہیں تعلیم یافتہ اور آسودہ حال لوگوں کو بھی اس پراپیگنڈہ نے جکڑ لیا۔ یہ تمام کام ہندوستان کی مکمل آشیرباد اور اس کے ایجنٹوں کے ذریعے ہوتا رہا ۔
تقسیم ہند کے بعد سے بھارتی حکمران اس کوشش میں تھے کہ وہ پاکستان کو انتہائی درجہ غیرمستحکم ہی نہیں بلکہ اس کے حصے بکھرے کردیئے تھے۔ اس مقصد کیلئے مجیب الرحمن اور اس کے ساتھی، کئی اشتراکی دانشور، اخبارات و جرائد اور پراپیگنڈہ مشینری اپنا کام کرنے میں مصروف تھی اور کسی بھی ایسے موقع کی تلاش میں تھے جب مشرقی پاکستان کو ملک سے الگ کیا جاسکے۔ چنانچہ مختلف پالیسیاں چلنے اور بظاہر سیاسی تحریکوں میں شرکت اور وہاں کے عوام میں اپنا مقام بنانے کے بعد مجیب الرحمن نے اپنے مشہورِ زمانہ چھ نکات کا اعلان کر دیا جن پر عمل درحقیقت ملک توڑنے یا دو علیحدہ مملکتوں کی ایک کنفیڈریشن کے مترادف ہوتا۔ مجیب کو اس حوالے سے بھارت کی درپردہ مکمل مدد حاصل تھی۔قیام بنگلہ دیش کے کچھ عرصہ بعد مجیب الرحمن نے خود اعتراف کیا تھا کہ وہ بنگلہ دیش کے قیام کیلئے کام کر رہا تھا ۔ لندن میں اس کی انڈین انٹیلی جنس ایجنسی ’’را‘‘ کے عہدیداروں سے ملاقات کا حوالہ خود اس کی بیٹی نے ایک انٹرویو میں دیا ہے۔ یہ باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ 1968ء میں بنائے جانے والے RAW کے قیام کا مقصد صرف بنگلہ دیش تحریک کی مدد کرنا اور تیز کرنا تھا۔ مجیب الرحمن سے مقامی انتظامیہ اور صدر یحییٰ کی کئی ملاقاتیں ہوئیں لیکن مجموعی طور پر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ چنانچہ مارچ 1971ء میں وہاں فوجی ایکشن کا فیصلہ ہوا۔ اس فیصلے کے کئی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ مقامی آبادی کے دلوں میں فوج اور مغربی پاکستان کیلئے نفرت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ بہت سے لوگ نقل مکانی کرکے انڈیا چلے گئے۔ انڈیا ان کی تعداد ایک کروڑ بتاتا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا اور حکومتیں پاکستان کے خلاف ہو گئیں۔ بعد ازاں جب مفروروں کیلئے عام معافی کا اعلان ہوا تو اس کی آڑ میں بھارت نے تربیت یافتہ مکتی باہنی گوریلے بھی عام آبادی کے ساتھ مشرقی پاکستان داخل کر دیئے۔ اس کے علاوہ ہجرت کرکے جانے والے لوگوں کو بھی گوریلا جنگ کی تربیت دی گئی اور وہ بھی واپس آکر اپنی فوج سے برسرِپیکار ہو گئے۔اس صورتحال میں افواجِ پاکستان کو ایک چومکھی لڑائی لڑنا پڑی۔ ایک طرف وہ وسائل اور شدید افرادی کمی کا شکار تھے دوسری جانب مقامی آبادی بھی ان کے خلاف ہتھیار اٹھائے کھڑی تھی اور یہ خانہ جنگی بالآخر سقوط ڈھاکہ پر منتج ہوئی ۔