خوشیوں بھرے لمحات ماتم میں بدل گئے
پروفیسر محمد عمران ملک
وہ ایک سرد صبح تھی، ماں نے کتنے ارمانوں کے ساتھ اپنے بچے کو تیار کیا ہو گا،کس قدر محبت سے اس کا لنچ ہاتھ میں دیا ہو گا، کیا معلوم تھا اس ماں کو کہ وہ اپنے لعل کو آج آخری بار تیار کر کے بھیج رہی ہے۔ وہ بیٹی جو باپ کی گردن میں ہاتھ ڈال کے جھولا جھولتی ہو گی، اس کو بھی پیارے بابا نے آخری بار اسکول کے دروازے پر الوداع کہا ہو گا۔ وہ بھائی جو بہن کے صدقے واری جاتا ہو گا اس نے بھی بہنا کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالا ہو گا اور اسکول روانہ ہوا ہوگا۔ کسے معلوم تھا کہ یہ سب خوشیاں آج ماتم میں بدل جائیں گی۔
ظالموں نے دن چنا تھا سولہ دسمبر کا جس میں اس ملک کو دوسری بار زخم دینا مقصد تھا۔ دشمن اپنی سازش یوں ہی کرتا ہے۔ کبھی وہ عیدین کو ماتم میں تبدیل کرتا ہے اور کبھی وہ ماتم پر مزید ماتم کے چرکے لگاتا ہے۔ پاکستان جو کہ چاروں طرف سے دشمن کے نرغے میں ہے۔ اس کو ایک اور زخم دیا گیا۔ اس دن اگر آرمی کے نوجوان چاک و چوبند اور ہوشیار دستے کے ساتھ فوری طور پر نہ پہنچتے تو شاید نقصان کئی گنا بڑھ جاتا۔ لیکن یہی تو وہ طاقت ہے جس سے دشمن خوف زدہ ہے اور اس ملک کی فوج کے درپے بھی ہے۔ کیسے وہ برداشت کر لے کہ گرم پانیوں کی خواہش کرنے والوں کو اسی فوج نے زخمی زخمی کر کے واپس کیا۔ اور روسی ریچھ زخم کوردہ ہو کر بھاگا۔
سانحہ اے پی ایس کا دلخراش واقعہ تب پیش آیا جب سولہ دسمبر کی صبح طلباء علم کی تمنا لیے کے لیے گھروں سے سے اسکول گئے تھے، وہ ابھی اسکول میں علم کی پیاس بجھا رہے تھے کہ دس بجے کے قریب سات دہشت گرد پاکستانی فرنٹیئر کور کی وردی میں اسکول کے اندر دیوار توڑ کر داخل ہوئے ، اس سے پہلے انہوں نے سوزوکی بولان کو توجہ ہٹانے کے لیے آگ لگا دی اور معصوم طلباء سمیت پرنسپل اور دیگر افراد کو بے رحمی سے شہید کیا۔دہشت گرد خود کار ہتھیاروں سے لیس، سیدھے اسکول کے مرکزی ہال میں داخل ہوئے اور سیدھا فائر کھول دیا۔ہال میں اس وقت نویں اور دسویں کلاس کے طلبہ موجود تھے۔دہشت گرد کسی کو یرغمال بنانے یا مطالبات منوانے نہیں آئے تھے بلکہ طلبہ کو ٹارگٹ کر مارنے آئے تھے۔آرمی پبلک اسکول کے بچوں کا کہ جن کا قصور تو کچھ نہیں تھا لیکن وہ پاکستانی تھے، پاکستان سے محبت کرتے تھے۔پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین آج بھی غم زدہ چہروں اور نم آنکھوں میں موت کے وہ مناظر قید کیے ہوئے ہیں جس کو وہ کبھی نہ بھلا سکیں۔ جو مناظر ان کے بچوں نے سکول میں حملے کے وقت دیکھے تھے۔ جو بچ گئے وہ کہاں اس منظر کو بھلا پائیں گے جن کے دوستوں کو ان کے سامنے گولیوں سے بھون دیا گیا ہو۔ ایک ریٹائرڈ باپ جو اپنی استاد بیٹی کو آج بھی آواز دیتا ہے۔ کہ شائد وہ کہیں ے آ جائے گی۔ کیسے وہ بھلا پائے گا اس غم کو۔
یہ وہ دن تھا جس کا سورج پرانے زخموں کی یاد لیے طلوع ہوا تھا۔ لیکن آج اس کو ایک نئے زخم کو لے کر ڈوبنا تھا۔سرخی مائل سورج آج مزید سرخ ہونے کو تھا۔کم و بیش ڈیڑھ سو معصوم و بے قصور بچوں کو لہو میں نہلا دیا گیا تھا۔ اس سانحہ نے ے ہر محب وطن پاکستانی کو دلگیر و اشکبار کیا۔ یقینا یہ لہو رائیگاں نہیں جائے گا۔ اس خون نے امن کے پودے کی آبیاری کی۔ اس سانحہ کے بعد بڑے پیمانے پر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن نے ملک میں امن و سلامتی کی راہ دکھائی۔ وہ ملک جس میں ہر طرف دہشت گردی اور خون آشام درندوں کا راج تھا۔ اس سانحہ نے ان درندوں کو خون بہا کر ملک میں امن کی بنیاد رکھی۔ اللہ رب العزت اس ملک کو مزید سانحات سے محفوظ رکھے اور ملک امن کی طرف گامزن رہے۔ بس چند اشعار ان بچوں کے نام کرتا ہوں کہ جنہوں نے اپنے حال کو ہمارے مستقبل پر قربان کر دیا
یہ معصوم معصوم رشتوں کے لاشے
لہو تر بتر کچھ فرشتوں کے لاشے
تیرے نام کا لے کے جھوٹا سہارا
جنہوں نے ہے معصوم بچوں کو مارا
حقیقت میں ایمان والے نہیں
وہ پاکیزہ قرآن والے نہیں ہیں
یوں مذہب کو بدنام کرتے نہیں ہیں
مجاہد تو یہ کام کرتے نہیں ہیں
ابھی کہہ رہا ہوں آئندہ کہوں گا
درندہ ہیں ان کو درندہ کہوں گا