کئی دن گذرے سینئر سپورٹس اینکر مرزا اقبال بیگ نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اور مینجنگ ڈائریکٹر وسیم خان کی ایک تصویر ٹوئٹر پر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ یہ دو افراد تباہی کے کتنے ذمہ دار ہیں۔ اس پر ٹوئٹر صارفین نے اپنے اپنے انداز میں خیالات کا اظہار کیا۔ یہی سوال مرزا اقبال بیگ سے کیا تو کہنے لگے کہ "احسان مانی کی آمد سے ابتک جو تباہی ہوئی ہے اس کے ذمہ دار وہ اور ان کے امپورٹڈ چیف ایگزیکٹو آفیسر وسیم خان ہیں۔ پہلی بات یہ کہ ان دونوں کا کچھ داؤ پر نہیں لگا، دونوں بیرون ملک سے آئے ہیں فارغ ہونے کے بعد وہیں واپس چلے جائیں گے۔ انہیں پاکستان کرکٹ کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ قومی ٹیم کی کارکردگی تنزلی کا شکار ہے۔ سری لنکا کے خلاف ہوم سیریز میں شکست کے بعد آسٹریلیا میں بدترین ناکامی میں غلط فیصلوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مصباح الحق کو کس بنیاد پر ایک سے زیادہ عہدے دیے گئے ہیں۔ بورڈ کی کوئی سمت نظر نہیں آتی، محکمانہ کرکٹ کے خاتمے سے سینکڑوں کرکٹرز بیروزگار ہوئے ہیں۔مینجنگ ڈائریکٹر بیانات میں تو نظر آتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ کہیں نظر نہیں آتے۔ وہ جب سے آئے ہیں کوئی قابل ذکر کام نہیں کر سکے۔ ان کے کریڈٹ پر کچھ نہیں ہے۔ پی ایس ایل کے مقابلے پاکستان میں ہوں گے لیکن اس حوالے سے کوئی تیاری نظر نہیں آتی، لیگ کے معاملات کو بھی جس انداز میں چلایا جا رہا ہے وہ حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ اب تک لیگ کے سربراہ کا تقرر نہیں کیا جا سکا اگر کسی کو لگایا بھی جاتا ہے تو وہ ایسا شخص ہو گا جس کی تقرری سے مفادات کا ٹکراؤ نظر آئے گا۔ یوں گزشتہ ایک برس میں ہونے والی تباہی کے ذمہ دار یہی دو افراد ہیں، دوسروں کی قابلیت پر اعتراض کرنے والے چیئرمین بورڈ اور چیف ایگزیکٹو کی اپنی کارکردگی سب سے زیادہ مایوس کن ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ پر تنقید ہو رہی ہے ہمیشہ کی طرح اقتدار میں رہنے والے اپنے فیصلوں کا دفاع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ محکمانہ کرکٹ کے خاتمے کی بات ہو یا پھر مصباح الحق کی تقرری ہو، بھاری تنخواہوں پر افسران کی تعیناتی ہو، متنازع آئین ہو یا پھر نچلی سطح کی کرکٹ پر عدم توجہ، ہر معاملے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی انتظامیہ دلائل کے ساتھ اپنے فیصلوں پر قائل کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ عوامی سطح پر پھیلنے والی مایوسی اور حکام کی طرف سے دوسروں کی رائے کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔
سری لنکا کی ٹیم ایک دہائی بعد ٹیسٹ میچ کھیلنے پاکستان آئی ہے دوہزار نو کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ملک میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلی جا رہی ہے۔ اس تاریخی موقع پر سری لنکن ٹیم آفیشلز کی وزیراعظم عمران خان سے ہونے والی ملاقات کے موقع پر بورڈ چیئرمین احسان مانی اور چیف ایگزیکٹو آفیسر وسیم خان کی عدم موجودگی یا عدم دلچسپی سے کئی سنجیدہ سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ اس ملاقات کو کرکٹ بورڈ کے سوشل میڈیا پر بھی مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا۔ حیران کن امر یہ ہے کہ سری لنکا کرکٹ کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تصویر شیئر کر دی جاتی ہے لیکن میزبان ملک کا بورڈ اسے مکمل طور پر نظر انداز کرتا ہے۔ ایسا کیوں ہوا، کیا یہ دلیل قابل قبول ہے کہ خبر یا تصویر وزیراعظم ہاؤس سے جاری کی گئی اس لیے کرکٹ بورڈ نے اسے اپنے سوشل میڈیا پر نظر انداز کر دیا، کیا سری لنکن کرکٹ ٹیم وزیراعظم ہاؤس کی مہمان ہے یا پاکستان کرکٹ بورڈ ان کی میزبانی کر رہا ہے۔
جہاں تک نئے آئین کے نفاذ کا تعلق ہے کرکٹ بورڈ نے اپنے من پسند اور ضرورت کی شقوں پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔ دوسری طرف انیس اگست سے اب تک نچلی سطح پر پورے ملک میں کرکٹ معطل ہو کر رہ گئی ہے۔ کلب کرکٹ کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔ نچلی سطح پر ہونے والی کرکٹ کو منظم کرنے کے لیے سب سے پہلے کام کرنے کی ضرورت تھی لیکن انیس دسمبر کو چار ماہ ہو جائیں گے گراس روٹ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ آئین کے وہ حصے جن کی مدد سے لاکھوں تنخواہیں مقرر کی جا سکتی ہیں اور فنڈز اڑائے جا سکتے ہیں ان پر تو عملدرآمد شروع ہو چکا ہے لیکن خالصتاً کرکٹ کے معاملات پر آئین پر عمل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اتنے قابل اور ملکی تاریخ کے سب سے مہنگے امپورٹڈ افسر کی موجودگی میں بھی ایسی غلطیاں ہوں گی تو سوالات پیدا ہوں گے۔ انیس دسمبر کو نئے آئین کے نفاذ کو چار ماہ مکمل ہو جائیں گے لیکن ابھی تک کہیں عبوری کمیٹی قائم نہیں کی جا سکی۔ صوبائی سیٹ اپ کیا ہونا ہے، روزمرہ کے معاملات کیسے چلائے جائیں گے کوئی کچھ نہیں جانتا۔ چیف ایگزیکٹو کے پاس آسٹریلیا میں تین ہفتے گذارنے کے لیے وقت ہے لیکن ملکی کرکٹ کے نظام کو بہتر بنانے، صوبائی ڈھانچہ، سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن اور کلب کی سطح پر کام کرنے کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہے۔ نئے آئین کے نفاذ کو چار ماہ مکمل ہونے کو ہیں اس دوران وہ اپنی تنخواہ اور عہدے کے علاوہ کوئی قابل ذکر کام نہیں سکے۔ نئے نظام کا سب سے اہم پہلو نچلی سطح کی کرکٹ کو مضبوط کرنا ہے اور بورڈ انتظامیہ نے اسے ہی نظر انداز کر دیا ہے۔
پاکستان سپر لیگ کا ڈرافٹ ہو چکا ہے۔ ابھی تک کوئی نہیں جانتا کہ پراجیکٹ ڈائریکٹر کون ہے، کسے لگایا جائے گا۔ ایک ایسا ایونٹ جس کی وجہ سے ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کا سفر شروع ہوا ہے۔ ملکی کرکٹ میں ایک رنگین اور موثر ایونٹ میں اضافہ ہوا ہے اسے نظر انداز کیا جا رہا ہے تو دیگر منصوبوں پر سنجیدگی کا اندازہ کرنے میں مشکل نہیں رہتی۔ جو تباہی ہو رہی ہے یا احسان مانی اور وسیم خان کی موجودگی میں جو تباہی ہو گی اس کے ذمہ دار دونوں ہوں گے۔
قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات
Apr 22, 2024