سقوطِ ڈھاکہ کے مضراثرات
بیسویں صدی میں برصغیر کے مسلمانوں کودوانتہائی دلخراش حادثات کاسامناکرناپڑا، ایک 1947ء میں انتقال آبادی کے موقع پرقتلِ عام کاسانحہ اوردوسرا سقوطِ ڈھاکہ مورخین لکھتے ہیں" سقوطِ ڈھاکہ کی تاریخی سنگینی ہے نتائج اوراثرات میںیہ حادثہ سقوطِ غرناطہ سے کمترنہیں"تحریک آزادی میں مسلمانوں نے لاکھوںجانوں کانذرانہ پیش کرکے عالم اسلام کو دنیاکے سب سے بڑے اسلامی ملک کاتحفہ دیایقیناََملکِ خدادادپاکستان کاقیام ان شکستہ دل مسلمانوں کیلئے امید سحرتھی جوخلافت عثمانیہ کے خاتمے پررنجیدہ تھے یہ ملک ایک مضبوط نظریہ لاالہ اللہ کی بنیادپروجودمیں آیاتھاتاریخ اسلام میں ہزاروں ایسے واقعات ملیں گے جہاں مسلمانوں نے جان دیکرجرات،شجاعت وکامرانی کی لازوال داستانیں رقم کی ہیںلیکن شاید ہی کوئی حادثہ اتناشرمناک اور دلخراش ہوگاجتنادل دہلادینے والاالمناک حادثہ 16 دسمبر 1971 کورونماہوا،16 دسمبر1971 ء کی صبح جب آل انڈیاریڈیوسے یہ اعلان ہورہاتھاکہ ’’ محمودغزنوی کے جانشینوںنے اندراگاندھی کی فوج کے سامنے ہتھیارڈال دیئے ہیں ‘‘ سانحہ سقوطِ ڈھاکہ کے ساتھ ہی پاکستان دنیاکے سب سے بڑے اسلامی ملک ہونے کی حیثیت کھوچکاہے (سقوطِ بغداد سے سقوطِ ڈھاکہ تک) ملک خداداد دولخت ہوگیاملک کافخروافتخارختم ہوگیا، جب اندراگاندھی نے غروروتکبرمیں میں کہاتھاکہ ’’ ہم نے ایک ہزارسالہ تاریخ کاانتقام چکادیااوردوقومی نظریئے کوخلیج بنگال کے پانیوں میںغرق کردیا‘‘ ۔ جوہوناتھاوہ ہوچکا ہمارے خواب بکھرگئے تقدیر تدبیر پہ فوقیت پاگئی، اس میں دورائے نہیں کہ اس المناک سانحے کے پس پشت کئی بھیانک رازمضمرہیں صرف دوجماعتیں دوشخصیات یاچندلمحوں کی خطائیں نہیں بلکہ ایک عشرے کی غیرمتوزن پالیسیاں تھیںآج ایک سوال نہایت ہی شدومدسے میرے عقل کوکھایا جارہا ہے کہ’’کیامشرق پاکستان کی علیحدگی ناگزیرتھی‘‘ اگرتھی تواتنی المناک اورتذلیل آمیزکیوں؟ کیاایساممکن نہیںتھاکہ باہمی گفت وشنیدسے یہ مسئلہ پرامن طریقے سے پروقاراندازمیںحل کرتے؟ جب دولخت ہوناہی تھاتوصدیوںکی رنجشوں کوجنم دینے کی کیاضرورت تھی، بقول شاعرکے۔ ’’دھڑبھی دوہوگئے دربھی دوہوگئے، جیسے کوئی بھی رشتہ ہمارانہیں‘‘ اگراُس وقت تحمل کامظاہرہ کرتے ہوئے دانش مندی سے فیصلہ کیاجاتاتو نہ بھائی چارگی ختم ہوتی اورناہی ہندوستان اپنے عزائم میں کامیاب ہوتا۔بہترتھاکہ باہمی رضامندی سے میزپر بیٹھ کر مسئلہ حل کرتے ہمارے پاس آپشن تھاکہ اگرواقعی مشرقی پاکستان کے عوام علیحدہ ملک چاہتے ہیں تواسکافیصلہ ریفرنڈم سے ہوگااور ملک کانام اورنظریہ تبدیل نہیں ہوگااگرایساہوتاتومشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی صورت میںتاقیامت قائم رہتا(دنیامیںاسکی کئی مثالیںموجودہیں) بنگلہ دیش کابطورملک دنیاکے نقشے پر ابھرناان بزرگوں اورشہداوںکی توہین ہے جنہوںنے مسلمانوں کیلئے ایک آزاداسلامی ریاست کاخواب دیکھااوراسکے حصول کیلئے اپنی تمام ترتوانائی صرف کی اورپھرجانوںکانذرانہ پیش کیا۔
یوںتو ہونے کو گھر ہے، سلامت رہے
کھینچ دی گھرمیں دیوار اغیار نے
ایک تھے جو کبھی، آج دو ہوگئے
ٹکرے کرڈالے دشمن کی تلوار نے
دھڑبھی دو ہوگئے دربھی دو ہوگئے
جیسے کوئی بھی رشتہ ہمارا نہیں
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں !
٭٭٭٭٭٭