رودادِخون و اشک
الیکشن میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں ملک دشمنوں کے تعاون اور دھاندلی کے ذریعے کامیابی حاصل کی۔ عوامی لیگ کے مسلح جتھے چھاتر ا لیگ (اسٹوڈنٹ لیگ) کے ملیشیا مکتی باہنی، لال باہنی و دیگر عسکری تربیت یافتہ افراد/ نفری نے مشرقی پاکستان کو تہہ و بالا کر دیا۔ محب وطن پاکستانیوں نے جنہوں نے عوامی لیگ کے چھ نکات کو سپورٹ نہیں کیا اور پاکستانی پرچم بلند کیا انہیں تہہ تیغ کرنا شروع کر دیا۔ نہ صرف جلائو گھیرائو بلکہ بڑے پیما نے پرقتل عام شروع کر دیا گیا۔ سرکاری املاک کو لوٹ کر جلانے ، درخت کاٹ کر شاہرائوں کو بلاک کر دیا گیا نقل وحمل کے سارے راستے بند کر دیئے گئے۔ صورتحال سنگین سے سنگین تر ہوتی جارہی تھی۔ ادھر سیاسی محاذ پر ہمارے زعما اور سیاست داں کسی سمجھوتے پر نہ پہنچ سکے۔ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کے رہنما ذوالفقارعلی بھٹو کو ئی ثبت کردار ادا کرنے میں ناکام رہے۔ شیخ مجیب الرحمن نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کر دی۔ ریل کی پٹریاں اکھڑنے لگیں۔ بینکوں کو لوٹ کر جلایا جانے لگا۔ پولیس و دیگر نیم عسکری جماعتوں نے عوامی لیگ کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔ حالات مخدوش سے مخدوش ہوتے چلے گئے۔ پاکستان سے محبت کرنے والوں کے شہروں/آبادیوں پر حملے کیئے جانے لگے۔ حالات سول اداروں کے کنٹرول سے باہر ہونے لگے۔ حکومت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ یوم پاکستان کے موقع پر 23 مارچ 1971 کو پورے مشرقی پاکستان میں پاکستانی پرچم کے بجائے بنگلہ دیشی اور سیاہ پر چم آویزاں کیئے گئے۔ پاکستانی افواج پر حملہ کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ ایک شہر سے دوسرے شہرکا رابطہ منقطع ہوگیا۔ عوامی لیگ نے غیر قانی طریقے سے محب وطن پاکستانیوں کے علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا جس کا کنٹرول عوامی لیگ کے کارکنوں اور باغی سپاہیوں کے ہاتھ میں تھا ضلعی اور صو با ئی انتظامیہ شیخ مجیب الرحمن کے احکامات پرعمل پیرا تھی۔ مجیب الرحمن نے اعلان کیا کہ مستقبل کا آئین ’’ چھ نکاتی پروگرام‘‘ کے تحت بنایا جائے گا اور اس پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہو گا اور نہ ہی تبد یلی ہوگی۔ مغربی پاکستان کے اکثریتی پارٹی کے لیڈر ذوالفقارعلی بھٹو نے اعلان کیا کہ ان کی پارٹی کے تعاون کے بغیر مرکز میں حکومت نہیں بن سکتی۔ شیخ مجیب الرحمن اپنے خطابات میں مشرقی پاکستان کے بجائے صرف بنگال، بنگالی ر یپبلک ، بنگالی لینڈ اور بنگلہ دیش کا نام استعمال کرنا شروع کردیا اورمکمل سول نافرمانی کا اعلان کر دیا۔صدر پاکستان نے 13 فروری 1971کو اعلان کیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس 13/ مارچ 1971ء کو ڈھا کہ میں ہوگا۔ قانون سازی اور اقتدار کی پر امن منتقلی کے لئے سیاسی جماعتوں کے درمیان گفتگو آگے بڑھ رہی تھی لیکن اس دوران شیخ مجیب الرحمن نے اعلان کیا کہ اب صرف ایک پوائنٹ ’’ آزادی ‘‘ پر بات ہوسکتی ہے۔ اس نے پورے مشرقی پاکستان میں خون ریزی اور قیامت برپا کر دی تھی۔ اس کی ہدایت پر ایسٹ پاکستان رائفلز (E.P.R) اور ایسٹ بنگال ریجنٹ(E.B.R) کے عسکری جوانوں نے بغاوت برپا کر دی۔ غیر بنگالی فوجیوں پر حملہ شروع ہو گئے۔ غیر بنگالی جو پاکستان کے حامی اور محب وطن تھے ان کے گھروں کو آگ لگا کر لوٹ رہے تھے۔ عورتوں اور جوان لڑکیوں کو اغوا کیا جارہا تھا۔ قانون کی حکمرانی ختم ہو چکی تھی۔ حالات انتہا کو پہنچ چکے تھے۔ پیپلز پارٹی اور مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی بعض سیاسی جماعتوںنے ڈھاکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یکم مارچ 1971 ء کو صدر پاکستان جزل یحییٰ خان نے ڈھا کہ میں ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس منسوخ کر دیا۔ جنرل یحییٰ خان نے 3 مارچ 1971 ء کو قومی اسمبلی کے 12 منتخب اراکین پارلمینٹری گروپس (Parlimentary Groups) جس میں ساری سیاسی جماعتیں شامل تھیں 10/ مارچ 1971ء کو ڈھا کہ میں طلب کر لیا۔ شیخ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان کے عوام سے اپیل کی کہ سرکاری عمارتوں، ریل گاڑیوں اور سڑکوں کو تباہ کر دیا جائے۔ صرف چند جگہوں کے علاوہ ہر جگہ بنگلہ دیش کا پر چم آویزاں کیا جانے لگا۔ کنٹونمنٹ ، آرمی پوسٹ اور دیگر عسکری اداروں پر باغیوں نے حملہ تیز سے تیز تر کر دیئے۔ شہیدوں کی تعداد میں روز بروز تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔جنرل یحییٰ خان نے 6 مارچ 1971ء کو اعلان کیا کہ قومی اسمبلی کا ہونے والا افتتاحی اجلاس 25 مارچ 1971ء کو ہو گا۔ 15 مارچ 1971 ء کو صدر جی خان مزید مذاکرات کے لیے ڈھا کہ چلے گئے۔ صدر یحییٰ خان کی شیخ مجیب الرحمن سے 16 مارچ 1971ء سے مسلسل ملاقا تیں ہوتی رہیں۔ ان کے مطالبات پر مذاکرات ہوتے رہے۔ مغربی پاکستان کے سیاسی قائدین نے بھی ڈھاکہ جا کر شیخ مجیب الرحمن سے ملا قا تیں اور مذاکرات کیئے۔ ادھر مشرقی پاکستان لہو لہان ہوتا رہا۔ چٹاگانگ ، کھلنا، جیسور، راجشاہی میں باغیوں نے ہزاروں غیر بنگالیوں اور پاکستانی افواج کے سپاہی اور افسران کو شہید کر دیا ۔ ہندوستانی افواج نے بھی مشرقی پاکستان کی سرحدوں پر اشتعال انگیزی شروع کر دی تھی۔ بڑے ہتھیاوں کا استعمال شروع کردیا تھا۔ ادھر مذاکرات نازک صورتحال کو مزید خراب کر رہے تھے۔ شیخ مجیب کی قائم کردہ’’شنگرام پریشد‘‘ ( انقلابی کونسل )نے چھوٹے بڑے شہروں دیہاتوں میں موجود با غی عناصر کو پاکستانی تنصیبات پر حملے تیز کرنے کے احکامات صادر کر دیئے۔’’ درسنا‘‘ کے علاقوں میں ریلوے لائنوں کو ہندوستانی سرحد سے ملا دیا گیا تا کہ ہندوستانی فوج کو بھاری ساز و سامان ’’مکتی باہنی‘‘ کے روپ میں جلد از جلد پہنچ سکے۔یکم مارچ 1971 ’’نرائین گنج رائفل کلب‘‘ اور اسلحے کی دیگر دکانوں کو لوٹ کر ڈھا کہ یونیورسٹی کے ’’اقبال ہال‘‘ اور جگناتھ ہال میںذخیرہ کر لیا گیا۔ 2 مارچ 1971کو جناح ایو ینواور بیت المکرم، شالیمار ہوٹل ، گلستان سیما ، گواسی جوٹ ملز، فارم گیٹ اور اس سے ملحقہ علاقوں کو لوٹ کر آگ لگا دی گئی۔ 3 مارچ1971ء کو اسلام پور ’’پتوا خالی بازار‘‘ نواب پور پر حملہ کر کے بڑی تعداد میں لوگوں کو شہید کیا گیا۔ ڈھاکہ سے با ہر شہر جیسور پر حملہ کیا گیا وہاں بھی ہزاروں لوگوں کو شہید کیا گیا۔’’ بھیرب بازار‘‘ سے ’’ لکشام‘‘ جانے والی ٹرین پر حملہ کیا گیا ، غیر بنگالی پاکستانیوں کو شہید کیا گیا ، ٹرین کو آگ لگا دی گئی۔ دولت گنج ، کومیلا ، اکھیوڑہ ، سلیٹ ، حاجی گنج ، بینی بازار، ٹیلی فون ایکسچینج کو آگ لگا دی گئی جس سے دوسرے علاقوں سے رابطے ختم ہو گئے۔ عوامی لیگ کے احکامات پر ریڈیو اور ٹیلی وژن ڈھا کہ نے بنگلہ دیش کا ترانہ نشر کرنا شروع کر دیا۔ پورے مشرقی پاکستان میں ’’ جئے بنگلہ‘ ‘ ’’جئے بنگال‘‘ کا نعرہ گونج رہا تھا۔ 4 مارچ 1971 کو شہر چٹاگانگ اور شمالی بنگال کا مشہور شہر’’ کھلنا‘‘ پر حملہ کر کے ہزارون محب وطن پاکستانیوں کو شہید کر دیا گیا۔ ’’جیسور‘‘ سے کھانا جانے والی ٹرین پر حملہ کیا گیا ، بڑی تعداد میں محب وطن پاکستانیوں کو شہید کیا گیا۔ محب وطن پاکستانیوں کے شہروں کو کر فیو لگا کر گھروں کو آگ لگا کر تباہ کیا گیا اور ہزاروں کی تعداد میں محب وطن پاکستانیوں کو شہید کیا گیا ، 5 / مارچ1971ء کو پورا مشرقی پاکستان مفلوج ہو چکا تھا۔ مشرقی پاکستان و مغربی پاکستان اور بیرون ممالک کے درمیان ٹیلی مواصلات اور ٹیلی گراف کا رابطہ ختم ہو گیا تھا۔ 6 مارچ 1971 کو’’چھا ترالیگ‘‘ نے سینٹرل جیل ڈھاکہ پر حملہ کر کے قیدیوںکو چھڑالیا۔ گورنمنٹ سائنس لیباٹری ڈھا کہ پولیٹیکنک انسٹی ٹیوٹ اور دیگر اداروں کا جہاں بھاری تعداد میں بم بنانے کا کیمیکل تھا لوٹ لیا گیا۔7مارچ 1971ء کو شیخ مجیب الرحمن نے متوازی گورنمنٹ بنا کر اعلان کیا کہ روزانہ گھروں میں کالا پر چم آویزاں کیا جائے ، ریلوے ورکرز اور پورٹ ور کرز پاکستانی افواج کی آمد ورفت کے لئے تعاون نہیں کریں گے۔ 8 مارچ کو پورے مشرقی پاکستان میں محب وطن پاکستانیوں کے پاس موجود لائسنس یافتہ اسلحہ زبردستی چھین لیا گیا۔ عوامی لیگ نے 9 مارچ 1971ء کو پورے مشرقی پاکستان میں جگہ جگہ’’ چیک پوسٹیں‘‘ قائم کر دی گئیں۔ جہاں چیکنگ کے دوران روپیہ اور قیمتی سامان بنگلہ دیش کے نام پر چھین لیا گیا۔ 10/مارچ 1971ء کو ’’کو میلا‘‘ میں چائے کے باغات پر حملہ کیا گیا اور پاکستانیوں کو شہید کر دیا گیا۔12 / 11 / مارچ 1971ء کو ’’ بارسیال‘‘ ’’ بوگرہ‘‘، کومیلا و دیگر علاقوں میں’’ جیل‘‘ کو توڑ کر قیدیوں کو رہا کر کے مکتی باہنی‘‘ میں شامل کرلیا گیا۔ ’’ لبریشن فرنٹ‘‘ نے ہاتھ اور سائیکلو اسٹائل کے کے ذریعے تحریر کیئے گئے اشتعال انگیز پمفلٹ تقسیم کرنا شروع کردیئے۔ 14 مارچ 1971ء کوعوامی لیگ نے اپنے عہدیداروں کو ڈپٹی کمشنر اور سب ڈویژنل آفسیر کے اختیارات دیئے۔ ان کی ہدایت پر محکمہ کسٹم نے ’’ اسپیشل اکائونٹ‘‘ ’’ایسٹرن بینکنگ کارپوریشن لمیٹڈ‘‘ اور’’ایسٹرن مرکنٹائل بینک لمیٹڈ‘‘ میں کھول دیا جو کہ پرائیویٹ ریجنل بینک تھا۔ سات کھیر،سلیٹ، بیلی ، درسنا، بیتا پول، بیرول، داھارام ، مغل باٹ ، کوڑی گرام، کشور خ ، دیناج پور، اگر تلہ ، بارڈ پوسٹ کے ذریعے بڑی تعداد میں ہندوستانی فوج اسلحہ عوامی لیگ کے کارکنوں تک پہنچا رہی تھی۔ ایسٹ پاکستان سول سروس اور سول سروس آف پاکستان کے بنگالی اراکین نے عوامی لیگ کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ 15/ مارچ1971ء کو جنرل یحییٰ خان و دیگر جنرلوں کے ہمراہ مجیب الرحمن سے مذاکرات کے لئے ڈھاکہ پہنچے۔ مذاکرات اور گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔ ادھر مشرقی پاکستان کے حالات تباہ کن ہوتے جارہے تھے بربریت کا دور دورہ تھا، ہندوستانی فوج نے مکتی با نی ، لال باہنی کے روپ میں محب وطن پاکستانیوں اور پاکستانی افواج پر ’’گوریلا ‘‘ حملے کرنا شروع کر دیئے۔ ایسٹ پاکستان رائفلز کے باغی منیجر رفیق السلام نے ایسٹ پاکستان رائفلز اور ایسٹ بنگال رجمنٹ کے باغیوں کو منظم کر کے ایک بڑے اور بھر پور حملے کی تیاری شروع کر دی تھی۔ انہوں نے کیپٹن ہارون، 17 - ونگ (E.P.R.) کو ’’ کپتائی‘ اور اس سے ملحقہ علاقوں کا آپریشنل انجارچ مقرر کر دیا۔ چٹاگانگ میں کیپٹن اولی، کیپٹن خلیق الزماں، لیفٹینٹ شمشیر مہین، میجر ضیاء الرحمن، لیفٹیننٹ کرنل ایم۔ آر۔ چوہدری ، کرنل قا در کو مزید عسکری اداروں کے جوانوں اور افسروں کو منظم کرنے کی ذمہ داری دے دی۔ ابتداء میں چٹاگانگ / ڈھاکہ کی اہم تنصیبات، ایئر پورٹ ، نیول بیس ،سی پورٹ ،ٹیلی فون ایکسچینج، ریڈیو پاکستان، ٹیلی ویژن، آرمی بیرکس، سیکٹر کمانڈر بیس وغیرہ۔ 22 مارچ 1971ء کو جنرل یحییٰ خان نے قومی ا سمبلی کا ہونے والا اجلاس ملتوی کر کے 2 اپریل1971ء کو منعقد کرنے کا اعلان کر دیا تا کہ شیخ مجیب الرحمن سے ہونے والے مذاکرات کو حتمی شکل دینے کے لئے کچھ مہلت مل جائے۔ اس اعلان کے بعد عوامی لیگ کے عسکری ونگ اور دیگر تربیت یافتہ عسکری اور نیم عسکری اداروں کے جوانوں نے پورے مشرقی پاکستان میں قیامت ڈھا دی۔ تشد داور خونریزی کے سلسلے کو تیز کر دیا۔ سویلین آباد کاروں کے ساتھ ساتھ پاک آرمی اور E.P.R اور E.B.R کے غیر بنگالی افسران کی فیملیوں کی بے حرمتی اور شہید کرنا شروع کر دیا۔ نوجوان لڑکیوں کو اغوا کر کے کلکتہ کے مشہور علاقے ’’سونار گا چھی ‘‘ میں فروخت کر دیا گیا۔ جھم جھم پور کا لو نی ، رام نگر کالونی ، مبارک گنج ، کالی گنج ، کوٹ چاند پور، رنگا ماٹی ، حافظ جوٹ ملز، اصفحانی جوٹ ملز ، امین جوٹ ملز، کر سینٹ جوٹ ملز ، اسٹار جوٹ ملز ، پیپلز جوٹ ملز ، میر پور، چور کا کی، پھول باڑی، ہلی و دیگر علاقوں میں مقیم غیر بنگالیوں کو شہید کر دیا گیا۔ ان کے گھروں کوآگ لگا کر ، مال و اسباب کو لوٹ لیا گیا۔ یہ سب کچھ اس وقت ہورہا تھا جب شیخ مجیب الرحمن سے مذاکرات اور گفت و شنید ہو رہی تھی۔ حالات سول انتظامیہ کے کنٹرول سے باہر ہو گئے۔ ادھر باغی سپاہی 26 / مارچ1971ء کو ایک بڑے حملے کی تیاری کر چکے تھے۔ 24 مارچ1971 ء کو میجر جنرل خادم حسین راجہ۔جی۔ اوسی 14 ڈویژن اور میجر جنرل اے۔او۔ میٹھا۔ چٹاگانگ بج کر لیفٹیننٹ کرنل فاطمی کمانڈنگ آفیسر۔ 20 بلوچ رجمنٹ اور سب زونل مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، چٹاگانگ ریجن، بریگیڈیئر انصاری اور دیگر فوجی افسران سے معاملات کی سنگینی پر میٹنگ کی اور واپس ڈھا کہ چلے گئے۔جنرل یحییٰ خان 25 / مارچ کی شام مذاکرات کی ناکامی کے بعد کراچی روانہ ہو گئے۔ بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو بھی 26 مارچ 1971ء کو جو کہ انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل ڈھا کہ میںٹھہرے ہوئے تھے کراچی روانہ ہو گئے۔ 25 مارچ 1971ء کی رات کو ملک دشمنوں کے حملہ کرنے سے چند گھنٹے قبل پاکستانی افواج نے اپنی بیرکوں سے نکل کر باغیوں کا صفایا کرنا شروع کردیا اور امن و امان بحالی کے اقدامات کرنے شروع کر دیئے۔ پورے مشرقی پاکستان میں قدم قدم پر شہادتیں پیش کرتے ہوئے دوبارہ پاکستان کی حاکمیت قائم کی پاکستانی پرچم بلند کیا۔ عوامی لیگ کے کارکن مکتی باہنی و دیگر افراد بڑی تعداد میں فرار ہو کر بھارت پہنچ گئے۔مشرقی پاکستان میں E.P.R. اور E.B.R اور پولیس کی بغاوت کے بعد عسکری نفری کی کمی ہوگئی۔ اس کو پورا کرنے کے لئے ایسٹ پاکستان سول آرمڈفورس کا قیام عمل میں لایا گیا۔ غیر بنگالی اسکول ، کالج اور یونیورسٹی کے طالب علموں نے مادر وطن کے دفاع کے لئے پاکستان آرمی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے چند ہفتوں کی ٹریننگ کے بعد بڑی تعداد میں دشمنوں اور باغیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ملک پر جان قربان کردی۔ یہ جنگ جو اپنی ہی سرزمین پر اپنوں اور غیروں دونوں سے لڑی گئی۔باغی کرنل عثمانی کوعوامی لیگ نے کمانڈر رانچیف مقرر کر دیا تھا۔ کرنل عثمانی نے پورے مشرقی پاکستان کو دفاعی نقطے کے تحت 11 سیکٹروں میں تقسیم کر دیا تھا۔ سیکٹر۔ 1، کے کمانڈر میجر رفیق السلام ، سیکٹر۔ 2 اور’’K‘‘ فورس کے کمانڈر میجر جنرل خالد مشرف، سیکٹر۔ 3، اور’’S‘‘ فورس کے کمانڈر میجر جنرل کے۔ ایم شفیع اللہ، سیکٹر۔ 4، کے کمانڈر میجر جنرل کی۔ سی۔آردتہ، سیکٹر۔ 5، کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل میر شوکت علی ، سیکٹر۔ 6، ایئر وائس مارشل لیفٹیننٹ ایم۔کے۔ بشیر، سیکٹر۔ 7، کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل قاضی نورالز ماں ، سیکٹر۔ 8، میجر جنرل ایم۔ اے۔ منظور سیکٹر۔ 9 کے کمانڈر میجر ایم۔ اے جلیل اور سیکٹر۔ 10، میجر ضیاء الدین ، سیکٹر۔ 11 کے کمانڈر کرنل ایم۔ ابو طاہر تھے۔ یہ افران ایسٹ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ پاکستان رائفلز کے باغی تھے۔ بھارت اور مکتی باہنی اور باغی سپاہیوں نے بھر پور حملہ کر دیا جس کا پاکستانی افواج نے بھر پور مقابلہ کیا۔ بین الاقوامی سازش اور اپنوں کی کوتاہی کے سبب 16 دسمبر 1971ء کوسقوط ڈھاکہ ہو گیا۔ شمس اور البدرکے رضا کاروں جس میں محب وطن بنگالی اور بہاری شامل تھے بڑی قربانیاں دیں اور وہ دفاع پاکستان پر قربان ہو گئے۔ہمارے سیاسی قائدین مثبت انداز میں بہتر طور پر اپنا نقطہ نظر پیش نہیں کر سکے جس کے نتیجے میں یہ عظیم سانحہ رونما ہوا۔ خودغرضی نمایاں رہی۔’’ اِدھر ہم اُدھر تم کا نعرہ بلند کیا۔ بد نصیب رہے وہ جنہوں نے تحفظ پاکستان میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ مادر وطن پر نچھاور ہو گئے۔ ہمارے وہ فوجی بھائی جنہوں نے مشرقی پاکستان کے دفاع میں حصہ لیا وہ اس کے گواہ ہیں۔ وہ بیچارے محب وطن پاکستانی آج بھی پاکستان آنے کے انتظار میں بنگلہ دیش کے کیمپوں میں محصور قید و بند کی زندگی گزار رہے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان اور مسلح افواج کے سربراہ سے اپیل ہے کہ وہ اس جانب توجہ دیں انہیں پاکستان لا کر حب الوطنی کے جذبے کو مز یدابھاریں۔