آج سقوط ڈھاکہ کے ساتھ ساتھ ایک اور غمناک دن سانحہ اے پی ایس(پشاور) ہے ، یہ دن ہمیں ماضی کی یاد میں گم کردیتا ہے، جنہیں ہم آنسوئوں کے ساتھ یاد کرتے ہیںجیسے پاکستان ٹوٹنے کے باوجود بھی ہم تبدیل نہیں ہوئے ہمیں پاکستان سے محبت ہوتی تو ہم یہ جاننے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا چکے ہوتے کہ اقبال کے خواب اور قائداعظم کی تعبیر کو کس نے دولخت کیا؟ لیکن حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کیا کہتی ہے؟ یہ کمیشن سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس حمودالرحمن کی سربراہی میں قائم کیا گیا۔ اس کے دیگر دو اراکین میں سپریم کورٹ کے جج جناب جسٹس ایس انوارالحق اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس طفیل علی عبدالرحمن شامل تھے۔ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل الطاف قادر کمیشن کے مشیر، اور سپریم کورٹ کے نائب رجسٹرار ایم اے لطیف کمیشن کے سیکریٹری تھے۔ کمیشن نے سقوطِ ڈھاکا کے حوالے سے 213 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے۔ کمیشن نے راولپنڈی میں یکم فروری 1972ء سے بیانات ریکارڈ کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور 12جولائی 1972ء کو اپنی رپورٹ اُس وقت کے صدر پاکستان کے حوالے کی حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کہتی ہے گواہ نمبر 284 میجر جنرل رائو فرمان علی نے جو گورنر ہائوس میں میجر جنرل Civil Affairs کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے، کمیشن کو بتایا کہ سابق صدر کے اعلان کے مطابق مشرقی پاکستان میں مکمل سول حکومت قائم نہ کی جاسکی۔ ڈاکٹر ملک ضعیف العمر سیاست دان تھے، ان کی شخصیت بھی کمزور تھی حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے:’’مشرقی پاکستان میں فوج نے آپریشن شروع کیا تو نہ صرف یہ کہ مناسب لاجسٹک موجود نہ تھی بلکہ فوج کے لیے کھانے پینے کی چیزوں کی بھی کمی ہوگئی۔ حمودالرحمن کمیشن رپورٹ میں اُن مظالم کا جائزہ بھی لیا گیا ہے جن کا مظاہرہ عوامی لیگ کے غنڈوں نے کیا۔ حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق جنرل یحییٰ نے نومنتخب اسمبلی کے اجلاس کی منسوخی کا اعلان کیا تو مشرقی پاکستان یکم مارچ 1971ء سے 3 مارچ 1971ء کے درمیان مکمل طور پر عوامی لیگ کے ہاتھ میں چلا گیا۔ اس دوران عوامی لیگ کے غنڈوں نے پاکستان پرستوں کا بڑے پیمانے پر قتلِ عام کیا اور خواتین کی عصمتوں کو پامال کیا۔ کمیشن کے مطابق معروف صحافی قطب الدین عزیز نے اپنی تصنیف Blood and Tears میں دعویٰ کیا ہے کہ عوامی لیگ کے غنڈوں نے ایک لاکھ سے پانچ لاکھ تک لوگ شہید کیے حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق شیخ مجیب الرحمن نے دعویٰ کیا تھا کہ پاک فوج نے30 لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا ہے، تاہم کمیشن نے کہا ہے کہ یہ اعداد و شمار درست نہیں 1971ء میں بھارت اور سوویت یونین کے درمیان خصوصی دفاعی سمجھوتا ہوچکا تھا۔ بھارت 8 ڈویژن فوج پاکستان کی سرحد پر لے آیا تھا۔ بھارتی فضائیہ کے 11 اسکواڈرن پاکستان پر حملے کے لیے تیار تھے۔ بھارت کی بحریہ مشرقی پاکستان کے محاصرے کی تیاری کررہی تھی۔ جی ایچ کیو نے انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر جنرل نیازی کو خبردار کردیا تھا کہ بھارت مشرقی پاکستان میں مداخلت کرنے والا ہے ہر سال 16 دسمبر آتی ہے اور جب تک یہ دنیا قائم ہے، آتی رہے گی۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد خاص طورپر نئی نسل کو تو پتہ ہی نہیں ہوگا اور نہ ہی ان کو بتایا گیا کہ اس دن کی ہماری تاریخ میں کتنی اہمیت ہے۔ بہت تھوڑی تعداد میں لوگوں کو احساس ہے کہ اُس دن ہماری تاریخ کا ایک قومی المیہ رونما ہوا تھا اور ملک دولخت ہوگیا تھا۔ اِس المیے کو اب 37 سال گزر چکے ہیں، یعنی دونوں ملکوں میں ایک ایسی پوری نسل جوان ہوچکی ہے، جو 16 دسمبر 1971ء کے بعد پیدا ہوئی۔ہمارا ملک 14 اگست 1947ء کو قائم ہوا تو اس کے دو بازو تھے، ایک مغربی پاکستان اور اس سے ایک ہزار میل کے فاصلے پر واقع مشرقی پاکستان۔ اور قیام پاکستان کے چوبیس سال بعد یہ سانحہ رونما ہوا۔ یعنی قیام پاکستان سے سقوطِ پاکستان کی مدت کے مقابلے میں اُس سانحے سے آج تک کی مدت زیادہ ہے۔اب تو بچوں کے نصاب ہی سے تحریکِ پاکستان اور قیام پاکستان کے مضامین کو خارج کردیا گیا ہے۔ لیکن آبادی کے ایک بڑے طبقے کو تو قیام پاکستان کے مقاصد ہی کا علم نہیں۔ جبکہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے اندوہناک سانحے کو ایسے فراموش کردیا گیا ہے جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہیں۔ایسا نہیں ہے کہ صرف 16 دسمبر ہی کو سقوطِ ڈھاکا یاد آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اہلِ نظر اور وطن سے محبت کرنے والے تو اس سانحے کو بھول ہی نہیں سکے، جس نے پاکستان کے دوٹکڑے کردئیے۔ وہ لوگ جنہوں نے قیام پاکستان کے لیے قربانیاں دیں، اس کی تعمیر میں اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کردیا، وہ کبھی بھی نہیں بھول سکیں گے کہ ملک کی تاریخ میں سولہ دسمبر کی کتنی اہمیت ہے۔14 اگست 1947ء کو پاکستان بنا تو ہندوستان سے مہاجرین کے لٹے پٹے قافلے آرہے تھے ملک کے دونوں خطوں کی جانب۔ یعنی مغربی پاکستان کے علاوہ مشرقی پاکستان کی طرف بھی۔ مغربی پاکستان میں کئی قومیں آباد تھیں، یعنی پنجابی، سندھی، بلوچی، پختون اور کئی دوسری۔ جبکہ مشرقی پاکستان میں بنگالی ہی آباد تھے۔ لیکن چونکہ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا، اس لیے تمام قومیتوں کو ثانوی حیثیت حاصل تھی۔ بنگال کے مسلمان بہت محبت کرنے والے اور بہت مخلص تھے۔
آج سقوط ڈھاکہ ساتھ ساتھ سانحہ پشاور کی بازگشت پورے ملک میں سنائی دے رہی ہے،سانحہ اے پی ایس ہمارے بچوں پر حملہ تھا۔ آج ہی کے دن ڈیڑھ سو سے زائد بچوں کو دہشت گردوں نے شہید کر دیاتھا، جس کے بعد پاک فوج نے ملک بھر میں دہشت گردوں کا صفایا کر دیا ، ایسے سانحات قوم کو جگانے کے لیے کافی ہوتے ہیں، اور ان جیسے دنوں کو محض اس لیے منایا جاتا ہے تاکہ ہم ایک بار پھر اکٹھے ہوں اور اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے بجائے اُنہیں Reviewکریں۔ کیوں کہ اس ملک میں دنیا بھر کی بڑی بڑی ایجنسیاں اپنے بچھائے ہوئے جال میں ملک پر مسلط ہیں۔ سانحہ مشرقی پاکستان بھی اسی بیرونی مداخلت سے دو لخت ہوا تھا۔ اوریہ حقیقت کسی سے مخفی نہیں ہے کہ مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش بنانے کی مہم کا آغاز بھارت سے بھی پہلے امریکہ نے کیا تھا ۔ مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرنے کیلئے جو سازشیں کی گئیں ان میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے مرکزی کردار کی حامل ہے ۔یوں اس کہانی کا آغاز بہت پہلے شروع ہوا تھا لیکن یہ کہانی اختتام کو 1970ء کے انتخابات کے بعد پہنچی اور سیلاب بلا نے کچھ ایسی سرعت سے پاکستان کا رخ کیا کہ لمحوں مگر تسلسل کی خطاؤں نے ہمیں صدیوں تک سزا دینے کا فیصلہ کر لیا۔ صدر یحییٰ خان نے1970 میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔ 7 ستمبر 1970 کو قومی اور 17 دسمبر کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے جنھیں ملکی اور غیر ملکی مبصرین نے پاکستان کی تاریخ کے پہلے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات قرار دیا۔اُس کے بعد جو ہوا وہ قوم جانتی ہے۔ لیکن کیا یہ شکست خالصتاً فوج کی ناکامی تھی؟ خاص طور پر اس لیے بھی کہ اس وقت ملک کا صدر ایک فوجی تھا؟ نہیں ایسا نہیں تھا۔یہ حقیقت ہے کہ ملک کے دونوں حصوں کے درمیان تعلقات میں بڑی حد تک بد گمانی پیدا ہو چکی تھی، انتخابات کے بعد مغربی حصے نے مشرقی حصے والوں کے ووٹ کی قیمت کم لگائی تھی، اور ایسی بپھری ہوئی آبادی میں، جو ایک چھوٹی سے پٹی کے علاوہ مکمل طور پر بھارت کے گھیرے میں تھی، جہاں پاکستانی فوج نے کبھی ہوائی اڈے تعمیر کرنا یا دفاعی آلات نصب کرنا ضروری نہ سمجھا تھا، وہاں دنیا کی بہترین فوج کے لیے بھی بچنے کی صرف ایک صورت تھی کہ بھارت اس لڑائی میں شامل نہ ہوتا۔لیکن کیوں نہ ہوتا؟ بیوقوف ترین دشمن بھی ایسے موقعہ کو ہاتھ سے جانے نہ دیتا اور یہ دشمن تو خاصا چالاک اورمکار چانکیہ کا پیروکار بھی تھا۔
بہرکیف کارل مارکس کا قول ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے لیکن اس عمل کو روکنے کا واحد حل انسان کا مضبوط کردار ہے۔پاکستان آج بھی سیاسی بے چینی کا شکار ہوتا دکھائی دیتا ہے، ہمارا ازلی دشمن بھی اسی طرح ہم پر نظریں گاڑے بیٹھا ہے۔۔تب اس نے تعلیمی نصاب کے ذریعے برین واشنگ کی تھی آج وہ ثقافت اور تجارت کے نام ہمیں لبھا رہا ہے۔اس کا امریکہ اور ہمارے پڑوسی افغانستان سے گڑھ جوڑ اتحاد ثلاثہ ہمارے لئے خطرے کی گھنٹی بن چکا ہے۔ بلوچستان میں شورش اور کراچی کی بد امنی میں کون کون سی قوتیں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کا ایجنڈا پورا کرنا چاہتی ہیں سب پر عیاں ہے ۔ افسوس ہمارے سابق حکمران اقتدار کی بھول بھلیوں میں کھوئے رہے۔ سب سے مقدس دستاویز آئین کی دھجیاں بکھیری جا تی رہیں۔ عوام تلملاتے رہے ۔ دعا ہے کہ موجودہ حکومت اس عوام کے غموں کو دور کرنے میں مدد دے۔ میں شہید بچوں کی مائوں کو سلام بھی پیش کرتا ہوں جن کی شہادت نے اس قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، لیکن اس سانحہ پشاور سے سقوط ڈھاکہ کو نہیں بھلایا جا سکتا، بچوں کی قربانی سے ملک میں امن کی راہ ہموار ہوئی جس نے ہمیں ایسے سانحات سے نمٹنے کے اصول سکھا دیے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024