’’چھ مہینے مثبت خبریں‘‘ دینے والی خبر کو مولانا طارق جمیل نے کچھ زیادہ ہی سنجیدہ لے لیا ہے جو انہیں سیاسی نوعیت کی ویڈیو کلپ بنانے کی ضرورت پیش آ گئی۔ ریاست مدینہ کا تصور خوش آئند ہے بلکہ جنرل ضیا الحق کا صدقہ جاریہ ہے۔ جو کمی اس ریاست میں ضیا الحق دور میں رہ گئی تھی وہ شاید اب پوری ہو جائے؟ مولانا صاحب اپنا ریکارڈ درست کر لیں کہ عمران خان ریاست مدینہ کا تصور پیش کرنے والے پہلے حکمران نہیں بلکہ یہ مذہبی کارڈ سب سے پہلے مرحوم جنرل ضیا الحق نے استعمال کیا تھا۔ پاکستان کو دور حاضر کے حکمران ریاست مدینہ بنا پائیں گے یا نہیں اس سے پہلے اس ماں جی کو مذاق بننے سے بچایا جائے۔ ایک صاحب لکھتے ہیں کہ میری والدہ کی معصومیت دیکھیں انہیں لگ رہا ہے میں زیادہ پیسے بھیجنے لگا ہوں حالانکہ میں ہمیشہ کی طرح 500 یورو بھیجتا ہوں۔ پہلے 55 ہزار روپے بنتے تھے اب 80 ہزار روپے بنتے ہیں۔ وہ صاحب حاکم وقت کو دعا دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اللہ پاک عمران خان کی حکومت قائم رکھے میری والدہ کو بھیجی جانی والی رقم جلد ہی ایک لاکھ روپے ہو جائے‘‘۔۔۔ اس صاحب کی والدہ جب بازار جائیں گی تو بیٹے کی کمائی میں برکت کا راز کھل جائے گا۔ اور اگر والدہ نے اوورسیز بیٹے سے موبائل فون لانے کی فرمائش کر دی تو برکت کا بھید مزید کھل جائے گا ؟تحریک انصاف کی حکومت کو سپورٹ کرنا میڈیا کا آئینی و اخلاقی فرض بن چکا ہے اور مجبوری بھی کہ کوئی اور نجات دہندہ فی الحال تیار نہیں کیا جا سکا۔ عمران خان سکون سے پانچ سال کام ‘‘سیکھیں‘‘ لیکن خدا کا واسطہ ہے ریاست مدینہ والا‘‘ ضیاء کارڈ‘‘ نہ کھیلیں۔ اس قسم کے مذہبی لاروں سے ضیا الحق مرحوم یاد آ جاتے ہیں۔ پاکستانی ہمیشہ مذہب کے نام پر بلیک میل ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ جنرل ضیا الحق کی نیک نیتی اور پارسائی کے بھی مولانا طارق جمیل جیسے علما اس دور میں بڑے قائل تھے۔ کیا ضیا نے پاکستان کو اسلامی ریاست بنا دیا؟ اور اب ریاست مدینہ کے نام پر ایک نیا مذہبی کارڈ کھیلا جا رہا ہے۔ او بھائی۔۔۔ یہ ملک کافروں کے یورپ اور امریکہ جیسا بھی بنا دو تو بڑی بات ہو گی کجا ریاست مدینہ بنانے کا دعویٰ۔ مغربی ممالک کی ترقی اور کامیابی کا راز یہ ہے کہ ان ملکوں کے لوگ کافر ہیں منافق نہیں اور پاکستان میں جھوٹ اور منافقت کا راج ہے۔ ابھی تو عمران حکومت کے ایک غیر مسلم رکن نے اسلامی ریاست پاکستان میں شراب پر پابندی کی تجویز ہی پیش کی تھی تو ریاست مدینہ کے ایوانوں میں آگ لگ گئی۔ اپوزیشن کی کرپشن کا جتنا ڈھول پیٹنا تھا پیٹ چکے۔ اب عدالت جانے اور مکافات عمل۔ جو صاف ہوگا خدا اس کی عزت رکھ لے گا اور جو کرپٹ جھوٹا اور خائن ہو گا جیل میں سڑے گا۔ حکومت کرپشن کے خلاف گھسا پٹا باجہ بجانے کی بجائے کچھ ڈیلیور کر کے دکھائے۔ معیشت مستحکم نہ ہو سکی تو سب دعوے بیکار ہو جائیں گے۔ بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے مذہبی کارڈ استعمال کرنے کا فیشن پرانا ہو چکا۔ ایسی کیا پریشانی پیش آ گئی کہ مولانا طارق جمیل کو بھی حکومت کی ترجمانی کرنا پڑ گئی؟ مولانا صاحب کی جماعت میں لاکھوں شاگرد یقیناً ریاست مدینہ بنانے کے اہل ہیں لیکن الیکشن جیتنے کے لئے لینڈ مافیاز جاگیردار اور بزنس مین ہی آگے لائے جاتے ہیں۔ اللہ کے آخری نبی کی ریاست مدینہ میں تبلیغ اور سیاست میں تفریق نہ تھی۔ صحابہ کرام عرب میں جہاں بھی فائز ہوئے وزارتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دین کی بھی خدمت کی اور دنیا کی بھی۔ کیکر کے پیڑ پر آم یا انگور نہیں لگتے۔ دو نمبر کوٹہ بھرتی کریں اور نتائج ریاست مدینہ کی صورت میں مانگیں؟ جیسے لوگ ویسے نتائج۔ قائداعظم محمد علی جناح ایک ہی تھے اور ان کے کارکن جنہوں نے اس ملک کے لئے قربانیاں دیں وہ بھی ایک ہی کھیپ تھی۔ پھر لٹیرے آئے، منافق اور چور آئے۔ اس پاکستان کو قائداعظم والا پاکستان واپس لوٹا دیں تو بہت مہربانی ہو گی۔ ریاست مدینہ بس ایک ہی تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جس کو آپ کی ٹیم نے عملی مثال سے دنیا میں منوایا۔ بندے کا اس کے خالق سے تعلق وہ جانے اور اس کا خالق، عبادات کی پوچھ گچھ بھی بندے اور خالق کے درمیان معاملہ ہے لیکن خلق خدا کے ساتھ معاملات میں سب سے پہلے بازپرس حاکم وقت کی ہو گی۔ عوام کو انصاف اور بنیادی حقوق بروقت مہیا نہ کئے جانے پر سوال حاکم سے ہو گا۔ روز حشر بھی حاکم اپنی ٹیم کے وزیروں مشیروں پر الزام عائد کرے گا تو کیا بچ پائے گا؟ خلفا راشدین جو نصف شب اناج کی بوری اپنے کاندھوں پر اٹھائے بھوکے عوام کی چوکھٹ پر پہنچ جاتے تھے آخر کیوں؟ اس لئے کہ بھوکے پیاسے پریشان عوام کا جوابدہ حاکم وقت ہے نہ کہ اس کی کابینہ۔ پاکستان کا حاکم وقت پہلے اپنی کابینہ کا جائزہ لے اس میں کتنے وزرا اور مشیر عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سیرت پر عمل پیرا ہیں؟ ریاست مدینہ کے پہلے حاکم محمد رسول اللہ نے پہلے اپنی ٹیم بنائی، ان کا تزکیہ نفس کیا اور پھر انہیں عہدے اور ذمہ داریاں سونپیں اور ریاست مدینہ تشکیل پائی۔ آپؐ ان علاقوں میں والی مقرر کرتے ہوئے ان کے تقویٰ، علم و دانش، عقل و عمل اور فہم کا خاص طور پر خیال رکھتے تھے۔ امراء کے انتخاب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی کا ایک اہم جز یہ تھا کہ جو لوگ والی بننے کی درخواست کرتے ان کی درخواست رد کر دیتے۔ افسروں کے انتخاب کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی قرآن پاک کی اس آیت کی تعبیر تھی۔ ترجمہ: ’’بلا شبہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ عہدے ان کے اہل لوگوں کو دیے جائیں۔‘‘ (النساء )حاکم وقت سے بس اتنی سی گزارش ہے کہ اس قوم سے مزید مذہبی بلیک میلنگ کی بجائے زمینی حقائق پر بات کی جائے۔اپنی ٹیم کا کردار اور ریکارڈ چیک کریں، ریاست مدینہ کے دعویٰ پر سوالیہ نشان کا جواب خود بخود مل جائے گا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024