پاکستان اس لحاظ سے بد قسمت ملک ہے کہ اس کی تباہی کی سازشیں اس کے معرض وجود میں آنے سے بھی پہلے تیار کر لی گئی تھیں۔ ہندو لیڈروں کو یقین تھا کہ جس قسم کا پاکستان بنایا جا رہا تھا یہ چند سال بھی زندہ نہیں رہ سکے گا۔ یہ بھارت کے پائوں پکڑ کر دوبارہ بھارت میں شامل ہو جائیگا۔ کچھ ہندولیڈروں نے تو یہاں تک بھی کہا :
’’ ہم مجبوراً پاکستان کی تقسیم مان تو رہے ہیں لیکن ہم اس کی بنیادوں میں ایسا نقص چھوڑیں گے کہ یہ اپنے پائوں پر کھڑا ہی نہیں ہو سکے گا ‘‘۔ہندوٗوں کا یہ منصوبہ مغربی پاکستان میں تو کامیاب نہ ہو سکا لیکن مشرقی پاکستان میں کامیاب ہو گیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہندو آبادی تھی۔ مغربی پاکستان میں تو ہندو مسلم فسادات کی وجہ سے ہندووں اور سکھوں کو یہاں سے جانا پڑا لیکن مشرقی پاکستان بڑی حد تک شدید قسم کے فسادات سے محفوظ رہا۔ اس لئے ہندو آبادی بھارت ہجرت کرنے کی بجائے مشرقی پاکستان میں ہی ٹھہری رہی اور یہ ملک کی کل آبادی کا بیس فیصد تھی۔یہ بیس فیصد آبادی اسی) (80فیصد مسلمان آبادی پر غالب تھی کیونکہ یہ لوگ اُس دور میں مسلما نوں سے کہیں زیادہ ایڈوانس تھے۔ یہ لوگ تعلیم یافتہ تھے ۔تمام اہم سرکاری ملازمتوں پر قابض تھے۔ زرعی زمینوں اور وسیع جائیدادوں کے مالک تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مشرقی پاکستان کی تمام تجارت ان کے ہاتھ میں تھی۔ ان کے مقابلے میں مسلمان آباد ی ان پڑھ اور غریب تھی۔زیادہ تر مسلمان ہندو زمینداروں کے مزارع اور ہندو افسروں یا تاجروں کے ما تحت ادنیٰ ملازمین تھے۔ ہندو آبادی نے بنگالیوں کے دلوں میں مغربی پاکستان کے خلاف نفرت بھرنے میں اہم کردار دا کیا جسکا نتیجہ 1971میں سامنے آیا۔
مشرقی پاکستان کی علیحٰدگی میں ہندو آبادی کے کردار پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن یہ چیز ہمیں یاد رکھنی چاہییے کہ مشرقی پاکستان سول انقلاب سے زیادہ فوجی انقلاب سے ختم کیا گیا۔ پاکستان انگریزوں اور ہندووں سے سیاسی جنگ کے زور پر بنا لیکن مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش باقاعدہ جنگ سے بنایا گیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحٰدگی کی اصل سازش 1963میں تیار کی گئی اور یہ ’’ اگر’’تلہ ‘‘ (مشرقی پاکستان کی سرحد پر بھارتی گائوں) سے شروع ہوئی۔ مشرقی پاکستان میں چونکہ طاقتور ہندو آبادی موجود تھی اور ان لوگوں کا ثقافتی ،معاشی اور سیاسی قبلہ کلکتہ تھا۔اس لئے تمام تر تجارت کا رخ بھی کلکتہ ہی کی طرف تھا ۔پٹ سن مشرقی پاکستان کی سب سے اہم پیداوار تھی۔ اسکی تمام خرید و فروخت بھی ہندوؤں کے ہاتھ میں تھی۔ لہٰذا ہندو آبادی کی روزِ اول سے ہی کوشش تھی کہ کسی طرح بھارت اور مشرقی پاکستان کے درمیان سرحدی لکیر اول تو ختم کر دی جائے یا پھر غیر اہم بنادی جائے تا کہ بھارت سے کھلی تجارت ہو۔ان لوگوں نے مغربی پا کستان کیخلاف مؤثر پرو پیگنڈہ پھیلایا اور1963میں بھارت کو دعوت دی کہ مشرقی پاکستان کی علیٰحدگی پر کام کیا جائے۔ بھارت نے یہ کام اپنی انٹیلی جنس کو سونپ دیا ۔بھارتی انٹیلی جنس نے باقاعدہ منصوبہ بندی سے ’’ تلہ‘‘ گائوں میں اپنا ہیڈ کوارٹر قائم کیا جہاں سے بنگالیوں کیلئے بھارت آنا جانا ور بھارتیوں کیلئے مشرقی پاکستان آنا جانا آسان تھا۔ بھارتی انٹیلی جنس نے مشرقی پاکستان میں رہنے والے ہندووں کی پالیسی یعنی مغربی پاکستان کیخلاف نفرت اور با لآ خر مغربی پاکستان سے علیٰحدگی پر عمل شروع کیا لیکن فرق یہ تھا کہ نفرت کے بیج فوج میں بونے شروع کئے کیونکہ سول آبادی میں تو ہندو آبادی پہلے دن سے ہی یہ کام کررہی تھی ۔فوج میں منافرت پھیلانے کی ابتدا پاکستان نیوی سے شروع کی گئی جو چٹا کانگ میں مقیم تھی۔
چٹا گانگ میں بھارت کا قونصل خانہ تھا۔ اس کام کیلئے وہاں انٹیلی جنس کے لوگ تعینات کئے گئے ۔ان لوگوں نے نیوی میں ایسے لوگ تلاش کئے جنہیں کسی نہ کسی وجہ سے اپنے افسران اور خصوصاً مغربی پاکستان کیخلاف شکایات ہوں کیونکہ ایسے لوگوں کو خریدنا آسان ہوتا ہے۔ شروع میں کچھ جونئیر لیول کے لوگوں سے رابطہ کیا گیا جو بہت جلدی بھارتی جال میں پھنس گئے۔پھر ان لوگوںکی معرفت ایسے سینئر لوگوں کو تلاش کیا گیا جو بھارتی انٹیلی جنس کے آلہ کار بن سکتے تھے۔آہستہ آہستہ اس نیٹ ورک کا دائرہ وسیع ہوا تو پاکستان نیوی کا لیفٹیننٹ کمانڈر معظم حسین بھی اس جال میں آپھنسا جو بعد میں بنگلہ دیش تحریک آزادی کا کٹر لیڈر ثابت ہوا۔ اب بھارتی انٹیلی جنس نے ان لوگوں کو ٹاسک دیاکہ وہ آزادی پسند سیاستدانوں سے رابطہ کریں۔ ان لوگوں نے بہت سے سیاستدانوں سے رابطہ کیا جن میں سب سے اہم شیخ مجیب الرحمن تھا جو خود بھی اسی قسم کی سوچ رکھتا تھا۔ اب آہستہ آہستہ اس تحریک نے عملی شکل اختیار کرنی شروع کی۔شیخ مجیب الرحمن کئی بار بھارت گیا اور وہاں کی لیڈر شپ سے رابطہ رکھا۔ پاکستان نیشنل اسمبلی کا سپیکر فضل الحق چوہدری اور ڈھاکہ میں تعینات آئی ایس آئی کے میجر رئوف بھی اس گروپ میں شامل ہو گئے۔
اسی دوران کچھ محب وطن بنگالیوں کو بھی اس تحریک کی بھنک پڑ گئی۔جولائی 1966میں ایک بنگالی شہری نے خفیہ طور پر پاکستان آرمی کے کرنل محمد امیر خان کو اس منصوبے کی اطلاع دی ۔کرنل محمد امیر اسوقت آئی ایس آئی کے کائونٹر انٹیلی جنس ونگ کا انچارج تھا ۔اس نے اپنے طور پر اس منصوبے کی تفصیل حاصل کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوا۔ بہر حال وہ اپنے ڈائر یکٹر جنرل‘ جنرل محمد اکبر خان کے پاس گیا اور اسے منصوبے کی اطلاع دی لیکن جنرل نے یہ کہہ کر کرنل محمد امیر خان کو فارغ کر دیا کہ ’’ یہ سب بکواس ہے‘‘۔بہر حال جنرل محمد اکبر خان نے یہ معاملہ ڈائر یکٹر انٹیلی جنس بیورو نصیر حسین رضوی سے ڈسکس کیا۔ ان دونوں نے فیصلہ کیا کہ آئی بی کا کوئی آدمی بھیج کر اصل حقائق کا پتہ کیا جائے ۔لہٰذا انٹیلی جنس بیورو کے ڈپٹی ڈائریکٹر مسٹر سیودکو ڈھاکہ بھیجا گیا جو تین ماہ وہاں رہا اور بعد میں رپورٹ دی کہ ’’یہ اطلاع غیر مصدقہ ہے‘‘۔لہٰذا معاملہ کو ختم کر دیا گیا لیکن احتیاطاً کمانڈر معظم اور اسکے دیگر ساتھیوں کو مغربی پاکستان پوسٹ کر دیا گیا۔ ان میں ایک اہم کردار سارجنٹ ظہور الحق کا بھی تھا۔ کرنل محمد امیر خان بہر حال اس اطلاع پر کافی پریشان تھا۔ اس نے اپنی تفتیش جاری رکھی اور ان لوگوں کی خفیہ بات چیت ریکارڈ کر لی جس سے معلوم ہوا کہ یہ لوگ اکثر ’’ اگر’’تلہ‘‘ جاتے ہیں۔ بھارت بھی جاتے ہیں اور بھارتی کونصلیٹ کا فرسٹ سیکرٹری ’’مسٹر پی این او جا‘‘ انکی راہبری کر رہا ہے۔ جنوری1967میں اندرا گاندھی وزیر اعظم منتخب ہوئی تو تحریک میں شدت آگئی اور ان لوگوں کو ہتھیار فراہم کرنے کا فیصلہ ہوا۔اسی دوران شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کر کے مغربی پاکستان لایا گیا۔ بعد میں46اور مشرقی پاکستانیوں کو بھی پکڑ کر مغربی پاکستان لایا گیا۔
ان میں سے گیارہ لوگوں کو بعد میں چھوڑ دیا گیا اور باقی لوگوں کیخلاف مقدمہ بنا کر تفتیش شروع کر دی گئی ۔ ان میں بہت سے سی ایس پی آفیسرز بھی شامل تھے۔بعد میں جب حالات زیادہ خراب ہوئے تو صدر مرحوم ایوب خان کیخلاف بھی تحریک شروع ہو گئی اور پاکستانی سیاستدانوں خصوصاً جناب شہید بھٹو صاحب کے پریشر میں آکر مرحوم صدر ایوب خان نے شیخ مجیب الر حمن کو رہا کر دیا اور اس رہائی نے شیخ مجیب الرحمن کو ایک عظیم لیڈر بنا دیا۔ اسے بنگالیوں نے ’’ بنگو بندھو‘‘ (قوم کا باپ) نام کا خطاب دیا۔وہ ایک آگ اگلنے والا سپیکر تھا۔ واپس جا کر اس نے تاریخ کا دھارا ہی بدل دیا۔ بقول اے ایچ کاردار ’’ ایوب خان نے اگر تلہ سازش کیس ختم کر کے اسے سیاسی شہید بنا دیا ‘‘ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ مر حوم ایوب خان ایسا کرنے پر قطعاً تیار نہ تھا۔ اسے پتہ تھا کہ شیخ مجیب الرحمن مجرم ہے ۔پاکستان توڑنا چاہتا ہے۔اس نے یہاں تک بھی کہا تھا : ’’ میں پاکستان کی تباہی کی صدارت نہیں کر سکتا ‘‘ لیکن جناب شہید بھٹو صاحب کے پریشر نے اسے بے بس کردیا۔اس کے بعد مرحوم صدر نے عہدہ صدارت سے علیحٰدگی اختیار کر لی۔ شیخ مجیب ہیرو بن گیا۔
پاکستان ٹوٹ گیا۔ پانچ ہزار پاکستانی وہاں شہید ہوئے۔ مغربی پاکستانی خواتین کا کھلے عام ریپ کیا گیا۔ 90ہزار پاکستانی بھارت کی قید میں چلے گئے۔جناب شہید بھٹو صاحب قائدِ عوام اور فخرِ ایشیا بن کر اقتدار میں آگئے اور مشرقی پاکستان کی نا گہانی موت پر کسی نے فاتحہ تک نہ پڑھی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024