پاکستان دو لخت ہونے کا تصور آج بھی مجھے اس مقام پر لیجاتا ہے جس سے میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ اس وقت عمر چھوٹی تھی لیکن خبر نے مجھے شل کر دیا تھا ہر چھوٹے بڑے فرد کی آنکھوں میں آنسو رواں تھے نم آنکھوں کے ساتھ سب مرنے اور مارنے کے لیے تیار تھے اور کوئی سقوط ڈھاکہ کی حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھا جنہوں نے پاکستانی تحریک میں حصہ لیا اور یا پاکستان بنتے دیکھا تھا انہیں اس کے ٹوٹنے کا تصور زیادہ دکھی کر رہا تھا ایک ایک کرکے اپنے عزیزوں کی جانی قربانیاں یاد آرہی تھیں بانی پاکستان قائداعظم کی یاد سب کو آئی جنہوں نے موذی بیماری کی حالت میں ہمیں مدینہ شریف کے بعد نظریے کی بنیاد پر ایک بڑی مسلمان ریاست لیکر دی وہ بھی لاٹھی گولی اور جیل جائے بغیر ہندوئوں اور انگریزیوں سے بات چیت کے ذریعے ہمیں مملکت پاکستان لیکر دی۔ 23مارچ1940 کی قرارداد پاکستان کے ٹھیک سات سال کے مختصر عرصہ میں پاکستان بن گیا جو کہ ایک معجزہ تھا ۔ پاکستان شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ کا حسین خواب تھا جو انہوں نے 1930 میں الہ آباد کے اجلاس میں پیش کیا اور کہا کہ ہندوستان میں ایک نہیں دو قومیں بستی ہیں جن کا مذہب ، تاریخ ، ثقافت ، رہن سہن غرضیکہ ہر چیز علیحدہ ہے اور جب مسلمان قوم سمجھ گئی دوقومی نظریہ کیا ہے تو پاکستان بن گیا تھا ۔ 1970میں جب ہم نے نظریہ پاکستان بھلا دیا اور اپنے دین اسلام سے دور ہو گئے نوجوان نسل کو نہ بتایا گیا کہ پاکستان کی بنیاد کیا ہے اور یہ کیسے وجود میں آیا ۔ ہم اپنی منزلوں سے دور ہوتے چلے گئے ہماری سیاسی اور عسکری قیادت دونوں نے بالغ نظری سے کام نہ کیا دشمن تو ہمارا دشمن تھا لیکن ہم نے بھی اقتدار کے ہوس میں وہ کیا کہ دنیا میں نشان عبرت بن گئے ۔ پاکستان کے دو لخت ہونے کا واقعہ اچانک رونما نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے طویل داستان ہے ۔ اس کے اسباب اور ذمہ داروں کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ۔ ووٹ کے تقدس کا خیال نہ کیا گیا 1970کے انتخاب میں جو پارٹی جیتی اس کو حق نہ دیا گیا پاکستان پیپلز پارٹی جو کہ دوسری بڑی پارٹی تھی اس کے رہنما ذوالفقار علی بھٹو نے ایسا ماحول بنا دیا کہ ڈر کے مارے کوئی ڈھاکہ اجلاس میں نہ گیا ۔ اگر برداشت کر لیا جاتا اکثریتی پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار دے دیا جاتا تو کچھ عرصہ اپوزیشن میں بیٹھ کر بھی اپنی اہمیت منوائی جا سکتی تھی ۔ اسی طرح مسلح افواج پاکستان کے کمانڈر جنرل یحییٰ جن میں بے شمار اخلاقی برائیاں تھیں وہ بھی جرات کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ اپنی کمزوریوں کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے دبائو میں آگئے عوامی لیگ جو کہ اکثریتی پارٹی تھی اس کو ملک دشمن اور غدار کہا گیا۔ یہی ہمارا دشمن بھارت چاہتا تھا اس نے نظریہ پاکستان سے دور ہونے والے گمراہ اور کمزور پاکستانیوں کو اپنی چھتری مہیا کی پراپیگنڈے کیے جس سے ثابت ہونے لگا کہ مغربی پاکستان والے پسند نہیں کرتے ۔ ان میں احساس محرومی بڑھتا گیا جیسا اس وقت یہ جملہ عام تھا کہ اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی بُو آتی ہے حالانکہ ایسی کوئی حقیقت نہ تھی ۔ مغربی پاکستان تو اپنے مشرقی پاکستانی بھائیوں کے شانہ بشانہ تھے اندرا گاندھی نے برملا کہا تھا کہ آج ہم نے دو قومی نظریہ بحریہ عرب میں ڈبو دیا اور بعدازاں موجود ہ وزیر اعظم نریندر مودوی کا اعتراف کہ میں نے خود بنگلا دیش کی تحریک میں حصہ لیا اور ہم نے بنگلا دیش بنا کر دیا یہ بنگالیوں کے لیے بڑے شرم کی بات ہے اور ڈوب مرنے کا مقام ہے لیکن افسوس بنگلا دیش کی موجودہ حکمران حسینہ واجد جن کو اپنے باپ کا انجام یاد رکھنا چاہیے اس کو کسی پاکستانی فوجی نے نہیں بلکہ ان کی اپنی فوج نے اپنے محل میں بچوں اور جانوروں سمیت قتل کر دیا تھا اسی طرح اندراگاندھی خاندان کا انجام بھی سب کو یاد ہو گا الغرض سقوط ڈھاکہ میں بھٹو خاندان جنرل یحیٰی خان سمیت جس نے جو کردار ادا کیا تھا ایک ایک کرکے اپنے بھیانک انجام کو پہنچے ۔ اب حسینہ واجد نے بنگلا دیش کی تحریک کے دوران جماعت اسلامی کے جن نوجوانوں نے مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش بننے سے روکنے کے لیے کردار ادا کیا تھا اب 90اور100کی عمر کے بوڑھوں کو پھانسیاں دیں ۔ حسینہ واجد نے شائد تاریخ سے سبق نہیں سیکھا پاکستان بننے اور ٹوٹنے کے بعد ہم اور ہمارے حکمرانوں اور قوم نے سبق نہیں سیکھا آج بھی ملک عدم استحکام کا شکار ہے۔ آبروئے صحافت محسن پاکستان مجید نظامی کہا کرتے تھے جب پاکستان بنا تو اس وقت مشرقی پاکستان علیحدگی کی بنیاد رکھ دی گئی تھی اور بھارت نے سازشیں شروع کر دی تھیں آج پھر بھارت پاکستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری میں ملوث ہے بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو فنڈنگ کر رہا ہے ۔ کلبھوشن کی شکل میں جاسوسی نیٹ ورک اور پاکستان کے مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کی بھارت کی دوستیاں مختلف شکلوں میں بنا رہے ہیں ذاتی مفاد کے لیے ملکی مفاد کو دائو پر لگایا جارہا ہے کیا ہماری حکومت ادارے اور میڈیا ہائوسز اپنا احتساب خود کر سکیں گے ہر کوئی اپنی عینک سے اپنے مفاد اور اپنے مقاصد پورے کر رہا ہے قومیں تب بنتی ہیں جب قائداعظم اور علامہ اقبال جیسے لوگ میدان عمل میں نکلتے ہیں اور لوگ تب ساتھ ہوتے ہیں جب ان کو سمجھ آئے کہ نظریہ کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں ہم نے کیا کرنا ہے اور کیا حاصل کرنا ہے پھر کوئی رکائوٹ مذہب اور فرقہ ان کو کردار ادا کرنے سے روک نہیں سکتا قائداعظم محمد علی جناح انگریزی میں خطاب کرتے تھے لیکن ان پڑھ بھی کہتے تھے کہ یہ شخص ٹھیک کہہ رہا ہے ۔ ہماری حکومت سمیت کسی جگہ نظریہ پاکستان پر کام نہیں ہورہا صرف ایک ادارہ نوائے وقت اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ جس کو آبروئے صحافت مجید نظامی نے اپنی زندگی میں قائم کیا وہ اذان دے رہا ہے ۔ یہ کام تو حکومتوں کے کرنے کا ہے نظریہ پاکستان سے دوری سقوط ڈھاکہ کا سبب بنی جیسا کہ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ! …؎
آج بھی ہو جو ابراہیمؑ کا ایمان پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستان پیدا
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024