1966 میں ایوب خان کیخلاف ایک کنونشن لاہور میں منعقد ہوا تھا اس کنونشن کے کنوینر نوابزادہ نصر اللہ خان تھے اس کنونشن میں شیخ مجیب الرحمن بھی شریک تھے۔لہٰذاا سی کنونشن میںپہلی بار مشہور چھ نکات پیش کیے گئے تھے ۔ ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ یہ چھ نکات مجیب الرحمن نے تیار نہیں کیے تھے بلکہ یہ مغربی پاکستان کے کسی سول سرونٹ نے تیار کیے تھے ۔ اس سلسلے میں الطاف گوہر کا نام بھی لیا جاتا ہے ۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں آگے جاکر ذکر ہے کہ مشرقی پاکستان کے کچھ سول ملازمین نے اس خیال سے کہ اگر مشرقی پاکستان کو آزادی نہ بھی ملی تو کم از کم ،زیادہ سے زیادہ خود مختاری مل جائے گی لہذا انہوں نے اس نظریے سے ان نکات کی تشکیل میں حصہ لیا ۔ 1966 ء کے کنونشن سے پہلے ان چھ نکات کا وجود موجود تھا کیونکہ کنونشن سے پہلے چھ نکات کی کاپی نور الامین کو بھیجی گئی تھی جو ڈیمو کریٹک پارٹی کے رہنما تھے ۔ انہوں نے پارٹی کے ایک اور رکن محمود علی کو یہ مسودہ دکھایا تھا اور اتفاق کیا تھا کہ ان چھ نکات کے ذریعے علیحدگی کے بیج بوئے گئے ہیں۔لیکن ان دونوں صاحبان نے یہ سمجھا کہ یہ چھ نکات کی کاپی صرف انہی کے پاس ہے لیکن سب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے جب لاہور کنونشن میں شیخ مجیب الرحمن نے چھ نکات کی کاپی نکال کر دکھائی۔ یہاں پر اُس وقت تحریر کیے گئے چھ نکات دیئے جا رہے ہیں۔
۱۔قرار داد لاہور کے مطابق آئین کو حقیقی معنوں میں ایک فیڈریشن کی ضمانت دیتے ہوئے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منتخب مقننہ کی بالا دستی اور پارلیمانی طرز حکومت پر مبنی ہونا چاہیے۔ ۲۔وفاقی حکومت صرف دو محکمے یعنی دفاع اور امور خارجہ اپنے پاس رکھے گی ، جب کہ دیگر محکمے وفاق کی تشکیل کرنے والی وحدتوں میں تقسیم کر دیئے جائینگے ۔ ۳۔ (الف) ملک کے دونوں بازوئوں میں دو علیحدہ مگر باہمی طور پر تبدیل ہو جانیوالی کرنسی متعارف کرائی جائے یا (ب) پورے ملک کیلئے ایک ہی کرنسی رائج کی جائے ، تا ہم اس کیلئے موثر آئینی دفعات کی تشکیل ضروری ہے تا کہ مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان کو رقو مات کی ترسیل روکی جا سکے ۔ مشرقی پاکستان کیلئے علیحدہ بینکنگ ریز روز قائم اور الگ مالیاتی پالیسی اختیار کی جائے ۔
۴۔محاصل اور ٹیکسوں کی وصولی کے اختیار کو وفاق کی وحدتوں کے پاس رکھا جا ئے ۔ مرکز کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہونا چاہیے تا ہم فیڈریشن وفاقی وحدتوں کے ٹیکسوں میں حصے دار ہو گی تا کہ وہ اپنی ضروریات پور ی کر سکے ۔ ایسے وفاقی فنڈز پورے ملک سے جمع ہونے والے ٹیکسوں کے طے شدہ فیصد تناسب پر مشتمل ہونگے ۔ ۵۔(الف) دونوں بازوئوں میں زرمبادلہ کی آمدنی کیلئے دو علیحدہ اکائونٹس ہونے چاہیں اور (ب) مشرقی پاکستان کی آمدنی کومشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی آمدنی کو مغربی پاکستان کے کنٹرول میں ہونا چاہیے۔ (ج) مرکز کی زر مبادلہ کی ضروریات ، دونوں بازوئوں کو مساوی طور پر یا کسی طے شدہ تناسب کیمطابق پوری کرنا ہوں گی ۔ (د)ملکی مصنوعات کی دونوں بازوئوں کے درمیان آزادانہ نقل و حمل پر کوئی ڈیوٹی عائد نہیں کی جائیگی۔ (ہ)آئین کی رو سے وفاقی وحدتوں کو یہ اختیارات حاصل ہونگے کہ وہ غیر ممالک میںتجارتی مشن کے قیام کے ساتھ تجارتی معاہدے نیز تجارتی تعلقات قائم کرسکیں۔ ۶۔مشرقی پاکستان کیلئے ملیشیا یا ملٹری فورس کا قیام ۔یہاں پر یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ان چھ نکات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے شیخ مجیب الرحمن کتنا بااختیار تھا ۔ لہذا اُ س وقت 3 جنوری 1971ء کو شیخ مجیب الرحمن نے ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کیا جس میں اس نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان سے حلف لیا اور پارٹی کی صوبائی خود مختاری کے ایجنڈے سے وفا داررہنے کا وعدہ کیا ۔ اگرچہ چھ نکات کے سلسلے میں پہلے شیخ مجیب الرحمن پیچھے ہٹتے اور لچک دکھاتے رہے لیکن بعد میں یہ موقف اختیار کیا کہ یہ چھ نکات بنگلہ دیش کے عوام کی ملکیت ہیں لہذا ان پر سودے بازی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوسری طرف ہمارے حکمرانوں کا عالم دیکھئے کہ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں ایک آنکھیں کھول دینے والے واقعہ کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ کہ 6 جنوری 1971 کو جنرل یحییٰ خان کے پرنسپل سٹاف آفیسر جنرل پیرزادہ نے مشرقی پاکستان کے گورنر ایڈمرل احسن کو چھ نکات کی ایک کاپی کے حصول کیلئے کہا تا کہ اگلے روز صدر پاکستان شیخ مجیب الرحمن اور انکی ٹیم سے اس موضوع پر بات چیت کر سکیں اس موقع پر صدر کی ٹیم کے کسی رکن کے پاس ان چھ نکات کی کوئی نقل تک موجود نہ تھی۔ اگلے روز میٹنگ شروع ہوئی یحییٰ خان اپنی ٹیم کے ساتھ موجود تھے ۔ شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ تاج الدین ، نذر الاسلام ، خوند کر مشتاق احمد اور کیپٹن منصور بھی آئے تھے ۔ یہاں پر شیخ مجیب الرحمن نے اپنا چھ نکاتی پروگرام پیش کیا اور جنرل یحییٰ خان کی طرف سے اٹھائے گئے بعض سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ جناب عالی! اب آپ جان گئے کہ چھ نکاتی پروگرام کیا ہے ۔ آج مشرقی پاکستان کی طرح بلوچستان کے بعض علاقوں میں پاکستان کا قومی پرچم لہرانا اور قومی ترانہ سننا اور سنانا منع ہے ۔ پاکستان کے وجود کو سر عام گالیاں دی جارہی ہیں اور غیر بلوچیوں کے شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کیا جا رہا ہے ۔ غیر بلوچی اساتذہ ، ڈاکٹرز ، انجینئرز اور دیگر آفیسرز کو قتل کر دیا جاتا ہے ۔ مشرقی پاکستان میں بھی علیحدگی کی شروعات اسی طرح کی کارروائیوں سے ہوئی تھیں۔ آج ہم سب کو سوچنا ہو گا کہ بلوچستان کے سلسلے میں کہیں ایک بار پھر کوئی چھ نکات تیار تو نہیں کر رہا ۔۔۔ہم کوئی اور شیخ مجیب الرحمن تو تیار نہیں کر بیٹھے!!!
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024