دسمبر کا مہینہ جب بھی آتا ہے تو ہمارے ذہن میں فوری 16 دسمبر 1971ء یاد آجاتا ہے۔ جب جنرل امیر عبداللہ نیازی نے رمنا ریس کورس گرائونڈ جسے سہروردی گرائونڈ بھی کہتے ہیں جنرل جگمیت سنگھ اروڑہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ اس وقت لاکھوں بنگالی ہتھیار ڈالنے کی تقریب دیکھ رہے تھے۔ جنرل اروڑہ فاتحانہ انداز میں اپنی بیگم کے ہمراہ آئے۔ جنرل نیازی نے اپنا ریوالور جنرل اروڑہ کے حوالہ کیا جنرل نیازی نے سقوطہ مشرقی پاکستان کی دستاویز پر دستخط کئے۔ اس موقع پر جنرل اروڑہ نے پاکستانی سپاہیوں کے ایک گارڈ آف آنر کا معائنہ بھی کیا جو اس بات کی علامت تھا کہ اب وہی گارڈ ہیں اور وہی آنر کے مستحق۔ اس کے بعد کم و بیش ہمارے 90 ہزار فوجی اور دیگر قانونی طور پر جنگی قیدی بن کر جنرل اروڑہ کی زیر کمان آ گئے۔ یوں قائد اعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان کو ہم نے 24 سال چار ماہ کے بعد پاکستان کو دولخت کر دیا۔
اندرا گاندھی نے تکبر اور غرور اور رعونیت سے کہا کہ ہم نے آج نظریہ پاکستان خلیج بنگال میں غرق کر دیا اور ایک ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا۔ یوں ہماری بہادر فوج کو عبرتناک شکست سے دوچار ہونا پڑا اور تاریخ میں ایک ایسا داغ لگ گیا جس سے چھٹکارا ممکن نہ رہا۔ یہ ایک الگ کہانی اور تاریخ ہے کہ ہماری سیاسی تاریخ میں وہ کون سے اقدامات جو ہمیں کرنے چاہیے تھے نہ کر سکے۔
1970کا انتخاب جو صاف و شفاف انتخاب جانا اور مانا جاتا ہے۔ ایک ڈکٹیٹر جنرل یحیٰ خان نے کروایا۔ مجیب الرحمن نے اکثریت حاصل کی اور دوسرے نمبر پر ذولفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی تھی۔ مشرقی پاکستان مجیب الرحمن کی اکثریت میں رہا اور مغربی پاکستان بھٹو کی۔ اس طرح مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ جہاں کی معیشت آج پاکستان سے کہیں آگے ہے۔ اور پاکستان ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود انتشار اور فساد اور دہشت گردی کا شکار رہا۔ جس کی وجہ سے ہمیں ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔
سقوطہ ڈھاکہ کے بعد جب جنرل نیازی کو کلکتہ لے جایا گیا اور صدیق سالک (مرحوم) جو اس وقت میجر تھے اور آری کی طرف سے پبلک ریلیشن آفیسر کے طور پر فرائض انجام دیتے تھے انہوں نے جنرل نیازی سے تازہ دم کلکتہ کی ایک تاریخی عمارت ’’فورٹ ولیم‘‘ میں انٹرویو کیا تھا۔ جس میں انہوں نے مشرقی پاکستان کے دفاع اور حکمت عملی پر سوالات کئے تھے۔ جس کا جواب وہ گلے شکوے میں دیتے رہے۔ مثلاً انہوں نے کہا کہ نومبر کے وسط میں ہمیں آٹھ پلاٹونز بھیجنی تھی۔ پانچ بھیجی گئی وغیرہ وغیرہ۔
ایک سوال تھا کہ اگر جو تھوڑے وسائل آپ کے پاس تھے وہ صحیح استعمال ہوتے تو جنگ کافی دن اور چل سکتی تھی۔ جواب میں جنرل نیازی نے کہا ’’اس کا کیا فائدہ ہوتا ڈھاکہ کی اینٹ سے اینٹ بج جاتی۔ گلیوں میں لعشوں کے انبار لگ جاتے۔ نالیاں اٹ جاتی۔ شہری زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتی۔ لاشوں کے گلنے سڑنے سے طاعون اور دوسری بیماریاں پھوٹ پڑتیں۔ اس کے باوجود انجام وہی ہوتا۔ میں نوے ہزار بیوائوں اور لاکھوں یتیموں کا سامنا کرنے کے بجائے نوے ہزار قیدی واپس لے جانا بہتر سمجھتا ہوں‘‘۔ صدیق سالک نے کہا ’’اگرچہ انجام وہی ہوتا مگر تاریخ مختلف ہوتی۔ اس سے پاکستان کی عسکری تاریخ میں ایک سنہرا باب لکھا جاتا۔ آئندہ دشمن کو ہماری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہ ہوتی‘‘۔ بحوالہ ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘۔ جس دن سقوط ڈھاکہ ہوا ہم کالج گرائونڈ مظفرآباد میں رضاکارانہ فوجی تربیت حاصل کرنے میں مصروف تھے اور رضاکارانہ جنگی محاذ پر جانے کے لئے بیتاب تھے۔ جب یہ خبر آئی تو ہم اپنے کمانڈر کے زیر کمان تھے اور عورتوں کی طرف زارو قطار رونا شروع کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب دسمبر آتا ہے تو ہم پر وہ اداسیاں ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اسلامی تاریخ میں جب سقوط غرناطہ ہوا تو اموی خلیفہ ابو عبداللہ نے رونا شروع کیا۔ اس کی والدہ پاس بیٹھی تھی اس نے اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’عورتوں کی طرح رونا چھوڑو ملک کی حفاظت تم مرد بن کر نہیں کر سکا‘‘۔ جب مشرقی پاکستان میں ہم شکست سے دوچار تھے تو جنرل نیازی ہر روز اپنی فتح کی خبر یں دے رہا تھا۔ ایسے میں سول انتظامیہ کی جانب سے جو اطلاعات مل رہی تھیں وہ فوجی اطلاعات سے مختلف تھیں۔ 7 دسمبر کو گورنر اے ایم مالک نے جنرل نیازی کو گورنر ہائوس میں بلا کر صورتحال معلوم کی اور انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا کہ جرنیلوں کو بعض اوقات ایسی صورتحال کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ اس پر جنرل نیازی رو پڑے اور اس عرصہ میں ایک بنگالی بیرا اندر داخل ہوا اس نے کہا کہ اندر صاحب لوگ روتی ہے اس نے باہر جھاڑ پلائی گئی۔ وہ رونا تو نہ صرف نیازی کا تھا بلکہ پوری قوم اس صدمہ سے دو چار ہو گئی۔ اور ایک عظیم سانحہ پیش آ گیا۔ اور رنگ رنگ زخم خوردہ تھا۔ اب اس شکست خوردہ قوم کو سنبھلنے کے لئے کافی وقت کی ضرورت تھی۔ اس سانحہ کی تحقیقات کے لئے حمود الرحمن کمیشن بنا لیکن اس شکست اور اس کے اسباب کا تعین منظر عام پر نہ آ سکا۔ اگرچہ انڈیا نے اس رپورٹ کے کچھ حصے شائع کئے تھے۔ لیکن یہ ہنوز قوم سے اوجھل سربستہ راز رہا۔ ایک طویل عرصہ تک ملک سازشوں کا شکار رہا۔ اور ڈکٹیٹروں نے اس کی چوہلیں ہلا دی۔ ملک لوٹ مار، کرپشن، اقرباء پروری، دہشت گردی، انتشار کا شکار ہو گیا۔ مشرف ایک کال پر لیٹ گیا۔ 75 ہزار سول اور فوجی قربان ہوئے۔ 130 ارب ڈالر کا مالی نقصان ہوا۔ اس کے مقابلہ مین ترکی نے 55 ارب ڈالر وصول کئے۔ اور ہم نقصان بھی کروا بیٹھے اور اعتماد بھی بحال نہ کروا سکے۔ اور نہ ہی تاریخ سے سبق سیکھا۔ مشرقی پاکستان ایک ہونے میں انڈیا کے علاوہ وہاں کے لوگوں نے ہماری فوج کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اور مکتی بانئی کے ساتھ مل کر پاکستان دولخت کیا۔ اگرچہ ہم نے یہ غم بھی برداشت کر لیا۔ لیکن اب ہماری بد اعمالیوں کی وجہ سے ایسا نہ ہو کہ ہم پھر کسی حادثہ کا شکار ہو جائیں۔
ہمارے ذمہ دار اداروں کا بھی فرض بنتا ہے کہ کوئی ایسی حکمت عملی سامنے لائیں جس سے ملک انتشار سے بچ سکے۔ اعتماد اور اعتبار کا فقدان ہے۔ بے یقینی کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔ کہیں کوئی الیکشن کے تھیلے کھلتے ہیں تو یہ سن کر اور دیکھ کر شرم سے سر جھک رہا ہے۔ آخر یہ کیا ہو رہا ہے اور امت مسلمہ کا یہ قلعہ پاکستان کس سمت جا رہا ہے۔ تاریخ سے سبق سیکھا جاتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ قیام پاکستان اور 11 ستمبر 1948ء کو قائد اعظم کی وفات کے بعد لیاقت علی خان کی شہادت 16 اکتوبر 1951 کے بعد ملک کو باوجوہ عدم استحکام کا شکار کر دیا گیا۔ نہرو نے کہا تھا کہ پاکستان میں جتنا جلدی حکومت تبدیل ہوتی ہے میں پاجامہ تبدیل نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ 27 اکتوبر 1958 کو سکندر مرزا کو برطرف کر کے ایوب خان ڈکٹیٹر نے مارشل لاء لگا دیا جو مسلسل 1971ء تک رہا اور جنرل نیازی نے سقوطہ کی دستاویز پر بحیثیت مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر زون بی کمانڈر ایسٹرن کمانڈ پاکستان دستخط کئے 16دسمبر 1971 دستخط کر کے ہتھیار پھینک دیئے۔ یہ ہے ہمارا سقوط ڈھاکہ آج وہ آگے اور ہم پیچھے۔ ہم کوئی سبق نہ سیکھ سکے اور 71 سال گزار دیئے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024