16دسمبر، سقوطِ ڈھاکہ کی تاریخ ہر سال ہمیں ایسے المناک قومی سانحہ کی یاد دلاتی ہے جس نے ملک کو دولخت کرکے رکھ دیا۔ لہذا 16دسمبر کے دن کو ملک کی سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیا جاتا ہے۔ کیونکہ اس جنگ کے حوالے سے قوم کیلئے یہ امر انتہائی شرمندگی کا باعث ہے کہ دشمن کے مقابلے میں ہمیں اخلاقی اور فوجی شکست سے ہم کنار ہونا پڑا۔ اس عبرتناک شکست کے پیچھے وہ کونسے محرکات اور عوامل کا ر فرما تھے اس کا تجزیہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم اس وقت کے سیاسی حالات اور واقعات کا غیر جانبداری سے جائزہ لیں۔ اس ضمن میں سب سے قابل ذکر بات جو ہمارے سامنے آتی ہے وہ ایک جمہوری نظامِ حکومت کے تحت چلنے والے ملک میں فوج کا منصب اقتدار سنبھالنا تھا۔ جب کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک جمہوری نظامِ حکومت میں فوج کا حکومت میں آنا، بذات خود خطرات کو دعوت دینے کے برابر خیال کیا جاتا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فوجی جرنیلوں میں بالعموم وہ سیاسی تدبر نہیں پایا جاتا جو سیاسی جنگ جتنے کیلئے ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے 1969کی ہماری فوجی قیادت بھی اس حقیقت کو نہ سمجھ سکی کہ ملک کے سیاست دان خطرناک کھیل میں مصروف ہیں۔ جب کہ دوسری جانب بیشتر جرنیل اس امر کی اہمیت کو غالباً محسوس کرنے سے قاصر تھے کہ منتخب لیڈر کی حیثیت پوری دنیا میں تسلیم کی جاتی ہے اور اسے فوجی طاقت سے مسخر کرنے کی پریکٹس، ملکی سالمیت کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوسکتی ہے۔ فوج کے سیاست میں ملوث ہونے اور اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کی سوچ، سقوطِ ڈھاکہ جیسے المیے سے اُبھر کر سامنے آتی ہے۔
اس وقت کے صدر یحییٰ خان نے 1970 کو ملک میں عام انتخاب کا اعلان کردیا۔ 7دسمبر 1970 کو ملک بھر میں عام انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔ یہ پاکستان کے پہلے اور آخری غیرجانبدار الیکشن تھے، جس میں مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ نے 162میں سے 160 نشستیںجیت لی تھیں دوسری بڑی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی قرار پائی جس نے پنجاب سے 82میں سے 62، سندھ سے 27میں سے 18اور صوبہ سرحد(خیبر پختونخواہ) سے 25 میں سے ایک نشست حاصل کی۔ ان انتخابات کو ملکی اور غیرملکی مبصرین نے پاکستان کی تاریخ کے پہلے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات قرار دیا۔ اسکے باوجود ان انتخابات کے نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کرنے اور سیاسی مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے ایک ایسے خطے میں قومی طاقت استعمال کرنے کی حماقت سرزد کی گئی جو پہلے ہی جغرافیائی طور پر علیحدہ تھا جب کہ فضائی رابطہ بھی دشوار گزار تھا۔ 1970 میں انتخابی برتری حاصل کرنے کے بعد مشرقی پاکستان والے پورے ملک کا اقتدار سنبھالنے کا خواب دیکھنے لگے تو اقتدار پر براجمان قوت کیلئے یہ امر ناگزیر ہوگیا کہ وہ زمام اقتدار، اپنے ہاتھ میں رکھنے کیلئے ہر وہ حربہ استعمال کریں جسے آسان لفظوں میں دھونس، دھاندلی اور بدنیتی ہی کہا جاسکتا ہے۔ اس ہی سوچ کے پیشِ نظر 25مارچ1971 کو مشرقی پاکستان میں تنازع پر مبنی فوجی آپریشن شروع کردیا گیا۔ جبکہ اسکے اگلے ہی دور میں 26مارچ 1971 کو انتخاب جتنے والی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کی آزادی کا اعلان کردیا۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ عوامی لیگ نے احتجاج کا راستہ چُن لیا تھا جب کہ پاکستانی افواج نے اس جائز احتجاج کو کچلنے کیلئے سخت گیر پالیسی اپنائی۔ مغربی پاکستان سے جنرل ٹکا خان کو آپریشن کیلئے بھیجا گیا۔ ٹکا خان کو صرف ایک نکاتی ایجنڈہ دیا گیا کہ عوام کے بجائے زمین پر ہر حال میں قبضہ برقرار رکھا جائے۔ اس دوران بھارت نہ صرف بگڑتی ہوئی صورتحال کا جائزہ لینے میں مصروف تھا بلکہ اس جلتی آگ کو ہوا دینے کی سازش میں پوری طرح شریک تھا۔ 1965 کی شکست کا حساب برابر کرنے کیلئے ایک بہترین موقع بھارت ہاتھ لگ چکا تھا۔ جبکہ بھارت نے مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کا برین واشنگ کا سلسلہ تو کئی برسوں پہلے ہی شروع کردیا تھا۔ بھارت کو اپنی ناپاک سازشوں کا پھل سقوطِ ڈھاکہ کی شکل میں ملنے ہی والا تھا لہذا بھارت نے اپنے ناپاک ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بنگالیوں کی بڑی تعداد میں ہندوستان میں پناہ لینے کو بہانہ بناتے ہوئے 3دسمبر 1971 کو پاکستان کیخلاف جنگ کا آغاز کردیا۔ افواج پاکستان کے جرنیل کو ہتھیار ڈالنے میں صرف بارہ دن لگے۔ 16دسمبر 1971 کو افواجِ پاکستان نے 45ہزار افسروں اور جوانوں نے بھارتی فوج کے جرنیل جگجیت سنگھ اروڑہ کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے۔ اس طرح تقریباً 90ہزار سویلین اور پاکستانی فوجی بھارتی قیدی بنالیے گئے۔ سقوطِ ڈھاکہ جیسے دلخراش المیے کو حنم دینے کے پیچھے یقینا محلاتی سازش کارفرما تھی جس کا منطقی نتیجہ یہ برآمد ہو کہ اقتدار کے بھوکوں نے اقتدار کی کرسی کو ہزاروں افراد کی قربانی اور مشرقی پاکستان کے محاز پر افواجِ پاکستان کی بدترین شکست کی قیمت پر خرید لیا۔ اس ضمن میں یہ سوال اپنی جگہ بہت اہمیت کا حامل ہے کہ سقوطِ ڈھاکہ سے قبل کیا ذوالفقار علی بھٹو اس اندیشہ ہائے کا ادراک کرنے سے قاصر تھے کہ اگر انتقال اقتدار کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کردی گئی تو اس کے جواب میں مشرقی پاکستان کا ردِ عمل کیا ہوگا۔ ظاہر ہے جب اکثریت رکھنے والی عوامی لیگ کا مینڈیٹ تسلیم نہ کیا گیا تو مشرقی پاکستان میں بغاوت کا آتش فشاں غصے اور نفرت کے لاوے کی شکل میں پھٹ پڑا۔ جس کے سبب عالم اسلام کی سب سے بڑی مملکت پاکستان کا بازو اپنے قیام کے صرف 24سال بعد ہی کٹ کر جسم سے علیحدہ ہوگیا۔
سقوطِ ڈھاکہ جیسے قومی المیے کے محرکات پر اگر غور کیا جائے تو ہمیں اس کڑوی حقیقت کا بخوبی ادراک ہوجائیگا کہ ملک میں جمہوری تسلسل کے بعد بھی آج تک صرف دو فی صد پاکستانی آبادی پر مشتمل مراعاتی یافتہ طبقہ جو عرف عام میں اشرافیہ کہلاتا ہے بہت مضبوط اور بہت خود غرض ہے یہ مراعات یافتہ طبقہ اپنے ناجائز مفادات کی حفاظت کیلئے ایسی ہر جماعت کا ناطقہ بند کرنے کی بھر پور کوشش کرتا ہے جو پاکستانی عوام کو درپیش مسائل کو حل کرنے، ذرعی ٹیکس ادا کرنے اور معاشرے میں بلاتفریق عمل داری کی بات کرتا ہے۔ دو فی صد مراعاتی یافتہ طبقہ کے شکم سہراشرافیہ عوام کے ہمدرد سیاست دانوں کی سیاست کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ انکی کردار کشی تک کرتے ہیں اور اس سے بھی آگے جاکر دنیا کے سامنے ان کو غدارِ وطن قرار دینے سے نہیں چونکتے۔ اس سچائی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ دراصل یہی وہ دو فی صد طبقہ ہے جس نے سابق مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کے عوام کے حقوق پر جان بوجھ کر ہوس اقتدار کیلئے ڈاکہ ڈالا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مشرقی پاکستان میں نہ صرف علیحدگی کے رحجانات زور پکڑ گئے بلکہ ایک بڑی اور تکلیف دہ خانہ جنگی کے بعد مشرقی پاکستان نے وفاق پاکستان سے علیحدگی اختیار کرلی۔
دنیا کی سیاسی اور اخلاقی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ ایسے حالات و واقعات کے بعد شکست سے دو چار ہونا، زندہ قوموں کیلئے نہایت سبق آموز ثابت ہوا ہے۔ لہذا کوئی بھی قوم، ملک اور سلطنت اس قسم کے المیوں کے اسباب و علل کا جائزہ لے کر نہ صرف حال میں سبق حاصل کرتی ہیں بلکہ مستقبل میں بھی ایسے محرکات اور عوامل سے بچنے کی تدابیر اختیار کرنے کی پوری کوشش کرتی ہیں۔ لیکن افسوس اور صد افسوس ! کہ 2014 میں بھی پاکستانی قوم کیلئے تاریخ کا سب سے تکلیف دہ سبق یہی ہے کہ آج 44سال گزرنے کے بعد بھی ہمارے سیاستدانوں، اداروں اور اربابِ اختیار نے سقوطِ ڈھاکہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
پاکستان آج پھر سیاسی بے چینی، اقتصادی بدحالی اور عوام دشمن پالیسیوں کا شکار دکھائی دے رہا ہے۔ بلوچستان میں شورش اور کراچی کی تباہ کن بدامنی جبکہ ملک بھر میں پھیلی برسوں سے دہشت گردی کے بیچ نہ جانے کون کون سی طاغوتی قوتیں اپنے مذموم اور ناپاک مقاصد کی تکمیل کا زہریلا ایجنڈہ پورا کرنے پر تُلی ہوئی ہیں۔ جب کہ ہمارا ازلی دشمن آج بھی ہم پر دانت گاڑے بیٹھا ہے جب اس نے بنگالیوں کا برین واش کرکے ہمیں شرمناک شکست سے دوچار کیا تھا جبکہ آج وہ ثقافت اور تجارت کے جال بن کر ہمیں تباہ کرنے کی سازش میں مصروف ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38