عدالت این آر او کالعدم قرار دیدے ‘ فائدہ اٹھانے والوں کیخلاف کارروائی کی جائے : وکیل وفاق
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) حکومتی وکیل کمال اظفر نے سپریم کورٹ میں درخواست گذار ڈاکٹر مبشر حسن کی استدعا کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت این آر او کو کالعدم قرار دے دے اور اس سے فائدہ اٹھانے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ اٹارنی جنرل نے بھی کہا ہے کہ عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی حکومت کو منظور ہو گا۔ چاروں صوبائی حکومتوں نے ایک بار پھر این آر او کا دفاع نہ کرنے کا تحریری بیان داخل کیا ہے جبکہ نیب نے سوئس مقدمات سے متعلق تازہ رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آصف علی زرداری‘ بینظیر بھٹو اور نصرت بھٹو نے دولت فرضی ناموں سے بیرون ملک منتقل کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہمارے لئے ایوان صدر قابل احترام ہے‘ ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ایوان صدر میں کون سی شخصیت بیٹھی ہے۔ جسٹس رمدے نے کہا کہ اگر ماضی میں قوانین سیاسی فوائد کو مدنظر رکھ کر بنائے گئے تو اب اپنی حکومت ہے ختم کیوں نہیں کر دیتے۔ کمال اظفر نے اپنے گذشتہ روز کے بیان کے متعلق کہا ہے کہ وفاق کی درخواست میں جمہوری نظام کو لاحق خطرات کا ذکر موجود نہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں 17 رکنی بنچ نے گذشتہ روز بھی سماعت جاری رکھی۔ حکومتی وکیل کمال اظفر نے تحریری بیان عدالت میں داخل کرایا جس میں کہا گیا تھا کہ وفاق کی قبل ازیں جمع کرائی گئی درخواست کا پیرا گراف 9 حذف کر دیا جائے جس میں ملک کو عدم استحکام کی جانب لے جانے کے الفاظ تھے جبکہ جن افراد نے این آر او کے تحت فائدہ اٹھایا ہے ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے اور سپریم کورٹ ان کے بارے میں فیصلہ نہ کرے بلکہ متعلقہ عدالتوں کو کرنے دیا جائے۔ تحریری بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وفاق ڈاکٹر مبشر حسن کی این آر او کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی مخالفت نہیں کرتا کیونکہ این آر او قابل عمل نہیں رہا۔ اٹارنی جنرل شاہ خاور نے عدالت کو بتایا کہ میں نے حکام سے ہدایات لے لی ہیں‘ ہم اپنے پہلے دن کے موقف پر قائم ہیں کہ این آر او کا دفاع نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں قوانین سیاسی فوائد کو مدنظر رکھ کر بنائے گئے جس پر جسٹس رمدے نے کہا کہ اب آپ کی اپنی حکومت ہے آپ ان قوانین کو ختم کیوں نہیں کر دیتے‘ پارلیمنٹ نے این آر او پاس نہیں کیا تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔ سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم نے عدالت کے روبرو کہا کہ میں نے سندھ ہائی کورٹ کے حکم اور صدر پرویز مشرف کی زبانی ہدایات پر سوئس حکام کو خط لکھا تھا کہ آصف علی زرداری کے مقدمات ختم کر دئیے جائیں جبکہ سوئس اٹارنی جنرل سے ملاقات بھی کی تھی۔ آصف زرداری نے این آر او سے ریلیف دینے کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی تھی‘ عدالت نے ہمیں حکم دیا کہ اندرون و بیرون ملک مقدمات دو ہفتوں میں ختم کر دئیے جائیں۔ عدالت کے روبرو وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے وکیل اشتراوصاف پیش ہوئے اور انہوں نے ڈاکٹر مبشر حسن کے وکیل عبد الحفیظ پیرزادہ اور احمد سلمان راجہ کے دلائل اپنا لئے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آصف علی زرداری کو ایس جی ایس کوٹیکنا کیس میں جو سزا ہوئی تھی وہ بعدازاں کالعدم قرار دے دی گئی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ایک بار پھر کہتے ہیں کہ ہم قابل رشک انداز میں جمہوریت کا تحفظ کریں گے۔ جسٹس راجہ فیاض نے کہا کہ جس نے کرپشن کی ہے اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہو گی‘ ہم اپنی آنکھیں بند نہیں کریں گے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ سمجھ نہیں آ رہی آپ کیا کہنا چاہتے ہیں کھل کر کہیں جی ایچ کیو کچھ کر رہا ہے تو آپ اس بارے میں بتائیں ہم اسے نظام کے خلاف کچھ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور اگر سوال آصف زرداری کے تحفظ کا ہے تو وہ بھی کھل کر بتائیں۔ جسٹس راجہ فیاض نے سوئس مقدمات کے حوالے سے کہا کہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اتنا پیسہ خرچ کر کے پھر معافی مانگ لی گئی‘ 60 سال سے یہ ملک ایلیٹ کلاس کا ملک بنا ہوا ہے عوام کے لئے یہاں کچھ بھی نہیں۔ جسٹس رمدے نے کہا کہ اگر آپ ہم کو گھسیٹیں گے تو پھر بہت کچھ منظرعام پر آئے گا جو ہم نہیں لانا چاہتے اور یہ اس شخصیت کے مفاد میں نہیں ہو گا جس کا آپ دفاع کر رہے ہیں‘ مقدمات 10-10 سال تک کیسے زیر التواء رہے‘ یہ بھی بتائیں گے کہ کتنی درخواستیں طبی بنیادوں پر دی گئیں‘ کتنے وکیل تبدیل ہوئے‘ آپ جس کا بھلا سوچ رہے ہیں دراصل اس کا نقصان کر رہے ہیں‘ کیا سزا میرٹ پر ختم ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومتوں کی زندگی میں عہدیداروں کا بڑا وقار ہوتا ہے‘ آپ نے نوائے وقت کی خبر کی تردید نہیں کی وہ خبر ہمارے لئے شہادت کی حیثیت رکھتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سوئس اٹارنی کو خط سابق دور میں لکھا گیا‘ ہمارے پاس ریکارڈ نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بات کو ادھر ادھر نہ کریں خط کس کے کہنے پر لکھا گیا یہ بڑی رقم قوم کی تھی اس ملک کا جو پیسہ گیا اسے واپس لایا جائے‘ پیسے پورے کرانے ہیں۔ جسٹس راجہ فیاض نے کہا کہ پائی پائی کا حساب ہوگا۔ عدالت نے چیئرمین نیب کو بلایا اور کہا کہ سوئس اٹارنی جنرل کو لکھے گئے خط کی نقل عدالت کو فراہم نہیں کی گئی‘ اس کا مطلب ہے کہ آپ کو بھی اندھیرے میں رکھا گیا‘ اس مقدمے کے اثرات دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں‘ عدالت کو بیرون ملک مقدمات ختم کرنے سے متعلق خط کی نقل دی جائے۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ ہمارے پاس نقل موجود نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پھر آپ اپنا دفتر بند کر دیں یہ بھی کوئی ادارہ ہے جسے کچھ معلوم ہی نہیں۔ آپ عدالت کو ساری بات نہیں بتا رہے آپ کے خلاف بھی کارروائی کریں گے۔ جسٹس رمدے نے کمال اظفر سے کہا کہ کیا وفاق چوروں اور ڈاکوؤں کو تحفظ دینا چاہتا ہے اگر این آر او شروع سے غیر آئینی قرار دیں تو وفاق کا نہیں دولت لوٹنے والوں کا ٹرائل ہو گا جو مقدمے سے بری ہو شفاف ہو کر گھر چلا جائے اور جو عدالت کے سامنے نہیں آتا اس کے بارے میں وفاق کیوں فکر مند ہوتا ہے۔ توقع ہے کہ عدالت آج اپنا فیصلہ سنا دے گی۔ مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق نیب نے صدر آصف علی زرداری اور بینظیر بھٹو کے 6کروڑ ڈالرز کے غیر ملکی بنک اکاؤنٹس کی تصدیق کر دی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ قومی دولت واپس آنی چاہئے اور عدالت ملکی مفاد کو دیکھے گی۔ بی بی سی ڈاٹ کام کے مطابق بنچ میں جسٹس جاوید اقبال نے صدر آصف علی زرداری کا نام لئے بغیر اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ اپنے کلائنٹ سے کہیں کہ وہ قومی خزانے میں پانچ ارب روپے جمع کروا کر اپنی جان چھڑائیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملک میں احتساب کے جتنے بھی قوانین بنائے گئے وہ شفاف نہیں تھے اور اگر عدالت این آر او کے خلاف کوئی فیصلہ دے دے تو کوئی آسمان نہیں گر پڑے گا جس پر بنچ میں جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آسمان بدعنوان‘ قاتل اور ڈکیتوں کو تحفظ دینے سے گرتا ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اٹارنی جنرل سے صدر کے بیان کی وضاحت بھی طلب کی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ جمہوریت کا عدالتی قتل نہیں ہو گا۔ چیف جسٹس اور بنچ میں شامل دیگر ججوں نے اس بیان پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ اس کے برعکس وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا بیان قابل تعریف ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ این آر او کے متعلق عدالت جو بھی فیصلے کرے گی وہ اسے قبول کریں گے۔