کشمیر…قربانیوں اور بے تدبیریوں کی داستان الم
بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرونے اقوام متحدہ میں کشمیر میں رائے شماری کا وعدہ کر کے مسئلہ کے حل میں تاخیر کی بنیاد رکھ دی۔ مسلم لیگی قائدین اس امر کا ادراک نہ کر سکے کہ ہندو کانگریس کی چانکیہ کی د ی ہوئی سیاسی حکمت عملی میں ’’یو ٹرن‘‘ ہی سیاست کی معراج اور کلید کامیابی ہے۔
اہل پاکستان اور اہل کشمیر نے تکمیل پاکستان اور کشمیر کی آزادی کے لئے ان اکہتر برسوں میں جتنا لہو دیا ہے اگر اسے جمع کیا جائے تو کنویں اس لہو سے بھر جائیں۔ مسئلہ کشمیر فیصلہ سازوں کی Mishandling بے تدبیریوں کی داستان الم ہے۔ اب تو کشمیر کے علاوہ ہندوستان بھر کے مسلمانوں کی بقا بھی خطرے میں ہے۔ پاکستان مضبوط و مستحکم ہو تو کشمیر اور ہندوستان کے مسلمان بھی محفوظ ہیں۔ ایٹمی پاکستان کا وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی بقا کا ضامن ہے اور یہی اس صدی کا معجزہ ہے۔ موجودہ عہد انتشار میں دشمن کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ نریندر مودی کا 5 اگست 2019ئکا کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا غیر قانونی اور مصنوعی اقدام بھی ہمارے اندرونی خلفشار اور نفرتوں کی سیاست کا شاخسانہ ہے۔ نئی سیاست گری میں آزاد کشمیر کا تحریک آزادی کشمیر کے بیس کیمپ کا کردار ختم ہو چکا ہے۔ آزادی وطن کے لئے یکسو ہونے کی بجائے اب یہاں بھی گالم گلوچ ، فتنہ و فساد اورالزام و دشنام کی تہذیب پروان چڑھ رہی ہے، تاریخ کشمیر کے دامن میں اگر کوئی طاقتور قوت ہے تو وہ جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا منشور ہے جس کے تحت 19جولائی 1947ئ کو مجاہد منزل سرینگر میں الحاق پاکستان کی قرارداد منظور کی گئی۔ اس قرارداد کی تکمیل کے لئے جموں و کشمیر کے لاکھوں جانبازوں نے جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ جموں کے ڈھائی لاکھ مسلمان اس مقدس مشن پر قربان ہو گئے۔ ہزاروں عفت مآب خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ وادی کشمیر کے ڈیڑھ لاکھ نوجوان 1981ئ سے لمحہ موجود تک جام شہادت نوش کر گئے اور آج بھی اسی قرارداد کے تحت وادی کے ہر گھر پر 14اگست کو پاکستان کا پرچم لہرا رہا ہوتا ہے لیکن سرحد کے اس پار آزاد ریاست جموں و کشمیر میں جو تحریک آزادی کا بیس کیمپ ہے کوہالہ پار کی سیاسی کشمکش کے دنگل نظریہ کشمیر کو کمزور کر رہے ہیں اور اس ہاؤ ہو میں ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کا ولولہ انگیز اور طاقتور نعرہ پس پشت چلا گیا ہے جو صرف اور صرف مسلم کانفرنس کا نشان امتیاز اورمنشور سیاست ہے۔ آج آزاد کشمیر میں بھی قیادت کا مصنوعی بحران پیدا کر دیا گیا ہے اور مسئلہ کشمیر کے ان کمزور لمحوں میں جب مودی کے 5اگست 2019ئ کے اقدام کے تحت بھارتی آئین کی شق 370اور 35-Aکو ختم کر دیا گیا ہے۔ آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کی اہمیت دو چند ہو گئی ہے۔5اگست کے اقدام نے عملاً کشمیرسے متعلق بھارت اور پاکستان کے مابین معاہدہ تاشقند اور معاہدہ شملہ ختم کر دئیے ہیں۔
آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی پر لازم تھا کہ وہ متفقہ طور پر1948ئمیں قائم آزاد کشمیر ریگولر فورسز کے احیاء اور معاہدہ شملہ کے تحت کنٹرول لائن کو ختم کر کے حد متارکہ جنگ کو بحال کرنے کی قرارداد منظور کرتی اور آزاد کشمیرکے نشریاتی اداروں کو پرنٹ میڈیا سمیت تحریک آزادی کے لئے پروپیگنڈہ کے ہتھیار کے طور پر مضبوط اور جدید بنانے کا بل پاس کرتی لیکن ہماری Mishandling یا بے تدبیریوں کے تجاہل مجرمانہ نے ہمارے ہاتھ سے یہ اختیار بھی چھین لیا ہے۔ اس وقت آزاد کشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان محمود چودھری کے ساتھ سردار عتیق احمد خان کی تجربہ کار، تربیت یافتہ، غیرجانبدار، باصلاحیت اور نظریاتی قیادت کی شدید ضرورت ہے۔یہی قیاد ت مل کر کشمیر کے حریت پسند عوام کو 5اگست کے بھارتی اقدام کے دباؤ سے نکال کر حصول منزل کے لئے طاقت فراہم کر سکتی ہے۔
یاد رہے کہ مجاہدین کشمیر بھارتی ہاتھی کی سونڈمیں گھسی ہوئی وہ چیونٹیاں ہیں جنہوں نے اسے پاگل بنا دیا ہے۔ہر سال 14اگست کو سرینگر اور ریاست کے طول و عرض میں سید علی گیلانی ، یاسین ملک اور قائدین حریت کانفرنس کے نظریہ آزادی کے مطابق پوری آب و تاب سے برپا ہونے والا جشن قیام پاکستان ایک زہر آلود خنجر کی طرح اس بدمست ہاتھی کے دل میں اتر جاتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ یہ ہاتھی اب اپنے ہی مہاوت کو روند ڈالے گا۔ انشاء اللہ
پاکستان زندہ با د، کشمیر بنے گا پاکستان(ختم شد)