پنجاب اور بابافرید گنج شکر
انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے نویں ایڈیشن کی بیسویں جلد کا سالِ اشاعت 1898ء ہے۔ اس کے صفحات 106سے 112تک پنجاب کے متعلق ایک دلچسپ مضمون درج ہے۔ اس کے مطابق پنجاب برٹش انڈیا کا انتہائی شمالی صوبہ ہے۔ یہ ایک تکون کی مانند ہے جس کے دو اضلاع دریائے ستلج اور دریائے سندھ ہیں جبکہ تیسرا ضلع ان دریاؤں کے درمیان کی پہاڑیاں ہیں۔ پنجاب کا نام پانچ دریاؤں پر محیط علاقہ کو دیا گیا۔ اس میں ہر دو آبے کا مخصوص نام ہے۔ ستلج اور بیاس کے درمیانی علاقہ کا نام جالندھر دوآب ہے جس میں ضلع جالندھر اور ہوشیار پور شامل ہیں۔ راوی اور بیاس ستلج کے درمیان لمبی پٹی میں گورداسپور، امرتسر، لاہور، منٹگمری اور ملتان کے اضلاع ہیں۔ اس کا نام باری دوآب ہے۔ راوی اور چناب کے درمیان علاقہ کو رچنا دوآب کہتے ہیں جس میں سیالکوٹ اور گوجرانوالہ کے اضلاع اور باری دوآب کا کچھ علاقہ شامل ہے۔ چھج دو آب چناب اور جہلم کے درمیان واقع ہے جس میں گجرات، شاہ پور کے اضلاع اور جھنگ کا کچھ حصہ شامل ہے۔ سندھ ساگر وہ بڑا دوآب ہے جو جہلم اور سندھ کے درمیان واقع ہے جس میں راولپنڈی، جہلم، مظفرگڑھ کے اضلاع آتے ہیں۔ اس میں شاہ پور، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے مخصوص علاقے بھی شامل ہیں۔ دوآبوں کے خشک علاقوں کو بار کہتے تھے۔ مظفرگڑھ اور ملتان کے وسیع ریتلے علاقے تھل کہلاتے ہیں جبکہ باری دوآب کا درمیانی علاقہ (ضلع امرتسر) کو مانجھا (عام زبان میں ماجھا بولا جاتا ہے) کہتے ہیں جو کہ سکھ قوم کا مرکزی مذہبی مقام ہے جہاں امرتسر اور ترن تارن میں دو مقدس تالاب بھی ہیں۔پنجاب کی تکون دریائے ستلج اور سندھ کے درمیان تقریباً 62ہزار مربع میل پر پھیلی ہوئی ہے لیکن یہ صوبہ ایک لاکھ بیالیس ہزار چار سو انچاس مربع میل ہے۔ 1881ء کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی تعداد ایک کروڑ سولہ لاکھ باسٹھ ہزار چار سو چونتیس اور ہندو آبادی 92لاکھ 52 ہزار 295جبکہ سکھوں کی تعداد ۱7 لاکھ 16ہزار 114تھی۔ جین مذہب کے پیروکاری 42ہزار 678جبکہ مسیحی 33ہزار 699آباد تھے۔ بدھ مت کے پیروکاری کی تعداد 3ہزار 251اور 465 پارس رہتے تھے۔ اس طرح پنجاب کی کل آبادی 2کروڑ 27لاکھ 12ہزار 120تھی۔ ان اعداد و شمار سے اندازہ لگائیں کہ 1881ء میں پنجاب میں ہندو آبادی مسلم آبادی سے 24لاکھ کم تھی اور اگر ہندو آبادی میں سکھ بھی شامل کر لئے جاتیں تو پھر بھی مسلم آبادی زیادہ تھی۔
ان اعداد و شمار کا تاریخی سطح پر تجزیہ کریں تو یہ حقیقت منکشف ہو گی کہ برطانوی راج سے چھ صدیاں پہلے دلی جیسے تخت شہر کو چھوڑ کر بابا فرید نے پنجاب کی طرف ہجرت کیوں کی۔ دراصل انہوں نے پاکپتن کو اپنی تعلیمات کا مرکز بنا کر اطراف و جوانب کے وسیع علاقوں کو اس حد تک متاثر کیا کہ جھنگ سے لے کر بیکانیر کی ریاست تک کئی قبیلے دائرئہ اسلام میں داخل ہوئے۔ اس تبدیلی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بالآخر پنجاب نہ صرف مسلم اکثریتی صوبہ بنا بلکہ بابافرید تاریخی اعتبار سے تحریک پاکستان کے پہلے معمار اور مجاہد بن کر ابھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پنجاب ہی حصول پاکستان کیلئے زینہ بنا۔ یہ منفرد اعزاز پاکپتن ہی کو حاصل ہے۔ تحریک پاکستان کے آخری مرحلہ میں پاک پتن ہی کے وکیل، راقم الحروف کے والد سید محمد شاہ ایڈووکیٹ کی خدمات تاریخ کا حصہ ہیں۔
پنجاب کے درخشندہ ماضی کا احوال ہڑپہ تہذیب کے علاوہ پوٹھوہار کی روحانی تاریخ کے مطالعے سے بھی کیا جاسکتا ہے جہاں اہل ہند کا ایک نہایت مقدس مقام کٹاس میں واقع ہے۔ اس کے علاوہ اسی خطہ میں نندنا نامی وہ پہاڑی بھی ہے جہاں قیام کرتے ہوئے البیرونی نے علمی دنیا میں پہلی بار زمین کے قطر کی پیمائش کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ بابانانک کے حوالے سے پنجہ صاحب بھی یاتریوں کی سجدہ گاہ ہے۔ دوسری طرف بدھ مت کے عروج و زوال کی تاریخی داستان مانکیالہ میں دفن ہے۔ مسلمانوں کے عالی قدر صوفی امام بری لطیف اور گولڑہ شریف والے سید مہرعلی شاہ کے علاوہ بابا فضل کمیالی اسی زمین کی زینت ہیں۔یہ مقام آج بھی مریدوں کے شوق کا مرکز ہیں۔ بادشاہوں اور امیروں کے قلعے اور تاریخی مقامات بھی زائرین کو متوجہ کرتے ہیں۔یہ تاریخی حقیقت ہے کہ پنجاب کبھی بھی بھارت کا جزو نہ تھا۔ نسلی، لسانی، جغرافیائی اور تہذیبی لحاظ سے پنجاب علیحدہ اکائی تھی۔ اکبر اور برطانوی ادوار میں انتظامی سطح پر حاکموں نے اپنی سلطنت میں شامل ضرور کیا لیکن اس کی اپنی شناخت بعض دیگر خطوں کی طرح محفوظ اور قائم رہی۔ہڑپے کے تمدن اور دراوڑی تہذیب کے متعلق ماہرین بتاتے ہیں کہ 3250ق م سے 1500ق م تک یہ تمدن زندہ و جاوید تھے۔ اس تمدن کا تعلق عراقی تمدن سے معروف تھا۔ پنجاب کے مصر اور ترکستان سے تجارتی روابط کا سراغ بھی ملتا ہے۔
ہڑپہ تمدن بالکل مقامی تھا اور اس کا ارتقاء اس دھرتی کا مرہون منت ہے۔ موہنجوداڑو تمدن بھی اس کے شانہ بہ شانہ ترقی پذیر رہا۔ آریائی تہذیب کے متعلق کہنا کہ علم و عرفان و اخلاقی اقدار ان ہی کا حصہ ہے، درست نہیں۔ جب 1922ء میں ہڑپہ تہذیب کا سراغ مل گیا تو آریائی تہذیب کی برتری کا تصور ختم ہو گیا۔
علی عباس کے مطابق پنجاب میں زرعی انقلاب کے بعد پنجابی سماج کی بنیاد مادری اصول پر قائم ہوئی۔ اس ضابطے کے مطابق عورت کو مرد پر برتری حاصل تھی۔ دھرتی انسانی زندگی کی کفیل تھی لہٰذا اسے ماں کا درجہ نصیب ہوا۔پوجا پاٹ میں دیویوں کی زیادت اہمیت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی دھرتی کو ماں کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اس تصور کو ہندو تہذیب نے دل و جان سے قبول کر لیا تھا۔پنجاب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ دنیا کی پہلی یونیورسٹی اس کے خطے ٹیکسلا میں قائم ہوئی۔ یہ علاقہ پنجاب کا تعلیمی و تہذیبی مرکز بنا۔ اس جامعہ کے اساتذہ باہر سے نہ آئے۔ پنجابی معلمین کی محنت شاقہ کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اپندیش کے فلسفی ادالیک نے لکھا کہ جس شخص نے ٹیکسلا کے تعلیمی مرکز سے علم حاصل نہیں کیا اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔بابافریدالدین شکرگنجؒ نے پاکپتن کی سرزمین میں روحانی جمہوریت کا پودا لگایا۔ یہ آٹھ سو سال پہلے کی بات ہے۔ پنجاب سے اٹھنے والی یہ تحریک Humanism کی طرف پہلا محسوس قدم تھا۔ یہ تحریک انسان کی آزادی اور ظلم و جبر سے نجات کی لہر تھی۔ ان کے منشور کے بنیادی نکات میں توحید، تکریم آدم، مساوات، تکثیریت (Pluralism) اور شخصی آزادیاں تھیں۔ باباجی کے ذہن میں انسان کا فیروز بخت مستقبل متوازن معاشرہ ہی کا ثمرہ ہو سکتا تھا۔ مساوات اور اخوت کا درس انہوں نے اپنے دادا پیر خواجہ سید معین الدین چشتی سے حاصل کیا۔ یہ درس قرآنی تعلیمات کا عملی اظہار تھا لیکن مساوات اور اخوت غلام اور آقا کے درمیان تو نہیں ہو سکتی۔ یہ سماجی رشتہ برابری کی بنیاد ہی پر ممکن ہے۔ ملوکیت، جاگیرداری اور غلامی کے دور میں بابا صاحب حجام کو نائی کے مروجہ نام سے پکارنے کی بجائے مزیّن یعنی (زینت دینے والا) کہہ کر مخاطب ہوتے۔ باباجی یہ تعلیم دے رہے تھے کہ نہ صرف ساری مخلوق کا خالق وحدہٗ لاشریک ہے بلکہ سب انسان ایک ہی طرح کے ہیں۔ ان کی پیدائش، زندگی اور موت کا ایک ہی قاعدہ قانون ہے لہٰذا دولت اور طاقت ہی کامیابی یا بزرگی کا معیار قرار نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ محنت کش اور مزدور طبقہ ہی کافی حد تک انسانی زندگی کو فعال اور متحرک بنانے والا ہوتا ہے لیکن پیداواری واحدہ کہلانے کی بجائے وہ کمی کمین کہلاتا رہا۔ انگریز کے دور میں کاغذات مال میں محنت کش طبقہ کیلئے لفظ معین یعنی مددگار لکھا جاتا تھا لیکن دیہی معاشرہ میں موجود جاگیردار طبقہ نے مددگار کارکن کو معین کہنا برداشت نہ کیا کیونکہ اس لفظ میں تکریم آدم کی بو آتی تھی۔ اس طبقہ نے ان محنت کشوں کو ترکھان، لوہار، حجام، کمہار، تیلی، میراثی جیسے پیشوں میں تقسیم کر کے ہندو معاشرہ میں راسخ ذات پات کا مسئلہ زندہ رکھتے ہوئے انہیں کمی کمین ہی تصور کیا جو چودھری کے ساتھ نہ چارپائی پر بیٹھنے پر قادر اور نہ ہی حکم عدولی کا اختیار ان کے پاس تھا۔ لفظ کَمّی کا مطلب نچلی سطح کا انسان جس کا مقدر زمیندار کی خدمت اور چاکری کے سوا کچھ نہیں تھا۔ یہ رویہ ہندو دھرم کے مطابق انسانوں کو طبقاتی تقسیم کرنے کی وجہ ہی سے رائج ہوا۔ (جاری)