آزاد میڈیا کے لیے عمران کی رابطہ عوام مہم
یوں تو ہمارے ہر جمہوری اور غیر جمہوری حکمران کا دعویٰ رہا ہے کہ وہ آزادیٔ اظہارِ رائے کے اصولوں پر غیر متزلزل یقین رکھتا ہے ۔ کسے خبر نہیں کہ توانا اور آزاد صحافت ہی ایک صحتمند اور ترقی پذیر معاشرے کی ضامن ہوتی ہے۔حقیقی جمہوری ارباب حکومت نے ہمیشہ مثبت اور تعمیری تنقید سے رہنمائی حاصل کی ہے اور وہ قومی زندگی کے مختلف شعبوں میں اہل صحافت کی تجاویز کا خیر مقد م کرتے ہیں۔کاش!موجودہ حکمرانوں کو اس امر کا کامل ادراک و احساس ہوتا کہ اہل صحافت قومی رہنمائی کے مشکل ترین چیلنج سے بحسن و خوبی عہدہ برآہونے کیلئے کن مصائب و آلام کا سامنا کرتے ہیں۔ اربابِ صحافت کا بنیادی فریضہ عوامی مشکلات و مسائل اور عوامی جذبات و محسوسات ہی کی ترجمانی اور آئینہ داری کرنا ہوتی ہے۔ اہل صحافت، اہل سیاست کی طرح حزب اقتدار یا حزب اختلاف میں سے کسی ایک کے پارٹنرنہیں ہوتے۔ وہ ہمیشہ حق اور سچائی کا ساتھ دیتے ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی کے اس دور میں کسی مہذب جمہوری مملکت کے اربابِ حل و عقد کو یہ توقع نہیں رکھنا چاہیے کہ شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے اربابِ قلم اگلے وقتوں کے مجبور دانشوروں کی طرح صرف ’’دربار داری‘‘ ہی کے مقتضیات کو پیشِ نظر رکھ کر قلم اٹھائیں گے۔ آزادیٔ صحافت کے پرچم کو سر بلند رکھنے کیلئے وطنِ عزیز کے اہل قلم نے لائق رشک اور گرانقدر قربانیاں دی ہیں۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اقوام و ممالک کی ترقی میں آزاد صحافت نے ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ صحافی مجموعی طور پر غیر جانبدار ہوتا ہے لیکن مسلمہ اقدار اور ملکی سلامتی کا سفینہ جب بعض حکومتی اقدامات کی وجہ سے اسے گرداب اور بھنور میں ہچکولے کھاتا نظر آتا ہے تو عوام تک حقائق پہنچانے کیلئے متاع لوح و قلم چھن جانے کے باوجودوہ اپنی انگلیوں کو خونِ دل میں ڈبو کر جنوں کی حکایاتِ خونچکاں لکھتا ہے۔ اس حقیقت سے دنیا کا ایک بھی ذی شعور شہری انکار نہیں کر سکتا کہ دریدہ پیرہن اور افلاس گزیدہ صحافیوں کے قلم کی کمزور سی نوک نے بسا اوقات موروثی شہنشاہیتوں اور عسکری آمریتوں کے مضبوط ترین تخت ہائے اقتدار و اختیار کے فولادی پایوں کو ہلااور لرزا کر رکھ دیا ۔ دیانتدار اوربیباک صحافی کے قلم سے نکلنے والا ایک لفظ ہزارنیوکلیئر پاور پلانٹس سے زیادہ توانائیاں رکھتا ہے۔ آزاد صحافت ہی صحت مند معاشرے کی ضامن ہے۔ہر با شعور شہری تسلیم کرتا ہے کہ معاشرے کی ترقی کے عمل میں جمہوریت اور پریس لازم و ملزوم ہیں۔ جیسے جیسے آزادیٔ صحافت و اطلاعات کا عمل گہرائی اختیار کریگا، اس سے جمہوریت اور سیاسی ادارے مضبوط ہوں گے اور بیوروکریسی مزید ذمہ دار بن جائیگی۔ مہذب اور ترقی یافتہ جمہوری معاشروں اور مملکتوں میں کسی بھی ایسی حکومت یا حکمران کو جو آزادیٔ صحافت وحریت اطلاعات کی راہیں مسدود کرنے کیلئے کالے قوانین کا سہارا لیتا ہے، انسانی تاریخ کے دامن کا سیاہ حاشیہ تصور کیا جاتا ہے۔یہ مانے بنا چارہ نہیں کہ آزاد پریس نے احتسابی اداروں کے قیام سے قبل بھی وطنِ عزیز میں محتسب کا کردار ادا کیا ہے۔ یہ بھی طے ہے کہ جب تک کسی ملک کے صحافیوں کا دامن آلودۂ حرص و ہوس نہیں ہوتا، کسی بھی ریاستی ادارے کو بے اعتدالی، بے ضابطگی اور کج روی کی شاہراہ کا بے دھڑک مسافر بننے کی جرأ ت نہیں ہوتی۔ صحافی بے غرض اور بے طمع ہو تو اس کا قلم آزاد اور رائے بے باک ہوتی ہے لیکن جب وہ پیش پا افتادہ مفادات کی خاطر اپنے قلم اور ضمیر کو طاقتور اور بارسوخ طبقات کے ہاں رہن رکھ دیتا ہے تو اخبارات و جرائد کے صفحات پر چیختی، چلاتی اور چنگھاڑتی سچائیاں بھی حلقۂ قارئین کو متاثر کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ آزاد صحافت ہی حقیقی محتسب کا کردار ادا کرتی ہے۔ اسی تناظر میں تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے ان صحافیوں کوجنہیں دھمکیوں، پرتشدد حملوں اور گرفتاریوں ، ایف آئی اے میں بے جا طلبیوں کا سامنا کرنا پڑا، 13 اگست 2022ء کی شب تحسینی و تعریفی کلمات کا خراج پیش کیا۔ یہ امر صحافتی حلقوں کے لیے خوش آئند ہے کہ عمران خان نے اگلے ہفتے سے آزاد میڈیا اور آزادیٔ اظہار کے ایشو کو اپنی ملک گیر عوامی رابطہ مہم کا حصہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آزاد صحافت بھی بعض اقدار و روایات اور ضابطۂ ہائے اخلاق کی پابند ہوتی ہے۔ دنیا کے وہ ممالک جہاں پریس کو بے پناہ آزادیاں عطا کی گئی ہیں، وہاں بھی جب کوئی ابلاغیاتی و نشریاتی ادارہ ،جریدہ یا اخبار مسلمہ حدود و قیود کو پامال کرنے کی سعی کرتا ہے تو شہری، سیاسی، سماجی اور دانشور حلقوں کی جانب سے اسکے اس اقدام کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ذمہ دار، محب وطن اور فرض شناس صحافی مادر پدر آزاد صحافیوں کی نام نہاد لیکن ’’مبنی بر مفاد بے باکیوں‘‘ کو آزادیٔ صحافت کیلئے صحافت پر ٹوک لگانے والے کالے قانون ہی کی طرح مضرت رساں اور خطرناک سمجھتے ہیں۔یہ حقیقت ماورائے اشتباہ و مبالغہ ہے کہ آزادی کی منزلِ مراد کو قریب تر لانے میں سیاستدانوں سے کہیں زیادہ صحافت دانوں نے قربانیاں دی ہیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد بھی حریتِ فکر اور جرأتِ اظہار کے نمائندہ صحافیوں نے اپنے پیش روئوںکے نقوشِ قدم پر چلنا ترک نہ کیا۔ روشنی کے ان پرستاروں نے جب بھی مطلعِ حق کی جانب جبر، ظلم،فسطائیت اور آمریت کے سایوں کو سحاب در سحاب اور خیل در خیل بڑھتے دیکھا تو اس شبِ تاریک میں وہ تاریکیوں کو زائل اور کافور کرنے کیلئے اپنی ہتھیلیوں پر جرأت اظہار کے سورج لے کر نکلے۔ حریتِ فکر اور آزادیٔ اظہار کے ان عظیم پرچم برداروں جناب حمید نظامی، آغا شورش کاشمیری اور جناب مجید نظامی (نشانِ امتیاز) کو اپنا رول ماڈل تصور کرنے والے میڈیا کے کارکن آج بھی آزادیٔ صحافت کے تحفظ ، صحافیوں کے حقوق کے دفاع اور قلم کی آزادی کو برقرار رکھنے کیلئے ہر قسم کی قربانی دینے کے عزم کا اظہار کر رہے ہیں۔