ایک بات ہمیں سمجھ آ جانی چاہیے کہ کشمیر روایتی سیاست، سفارت کاری، بات چیت، مظاہروں، ریلیوں، بیانات اور مصالحت یا ثالثی سے آزاد ہونے والا نہیں ہے۔ ہم ہمیشہ یہ بات کرتے آئے ہیں اور جب بھی مسئلہ کشمیر کا ذکر ہو گا امام صحافت جناب مجید نظامی مرحوم ہمیشہ نمایاں نظر آتے رہیں گے۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ ہماری پالیسی یہ ہے کہ ہم بھارت کے ساتھ جنگ کی حد تک جاتے ہیں۔ مجید نظامی فرماتے تھے کہ مسئلہ کشمیر دونوں ملکوں کے مابین بنیادی مسئلہ ہے اور اس کے حل تک بھارت کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات نہیں رکھنے چاہییں۔ جب ہم جنگ کی حد تک جانے کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد یہی ہے کہ کشمیر کے لیے جنگ بھی کرنا پڑے تو گریز نہیں کرنا چاہیے۔ وہ جب تک زندہ رہے اس پالیسی پر سختی سے قائم رہے۔ وہ جانتے تھے کہ ہندو بنیا کبھی بات چیت سے مسئلہ حل کرنے کی طرف نہیں آئے گا۔ وہ یقین رکھتے تھے کہ ہندو بنیا ہمارا ازلی دشمن ہے وہ کبھی نہیں مانے گا۔ اس فکر کے ساتھ وہ ساری زندگی اس مقصد کے لیے متحرک رہے جو کام حکمرانوں کے کرنے کا تھا وہ جناب مجید نظامی کرتے رہے۔ حکمران خاموش رہے، سوئے رہے، مصلحتوں کا شکار رہے لیکن کسی نے عملی طور پر کچھ نہیں کیا۔ نتیجہ آج سب کے سامنے ہے، انتہا پسند ہندوؤں کی اکثریتی حکومت بننے کے بعد انہوں نے کشمیر کی حیثیت کو بدلنے کا بل منظور کر لیا ہے۔ ہم یوم سیاہ منا رہے ہیں، احتجاج کر رہے ہیں، مظاہرے کر رہے ہیں، ریلیاں نکال رہے ہیں، دنیا کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اندرون و بیرون ملک بھارت کے اس غیر آئینی و غیر قانونی اقدام کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔ مظاہروں اور ریلیوں میں شریک ہونے والے بھارت سے جنگ کے حامی ہیں اور وہ بات جو امام صحافت کہا کرتے تھے وہ پالیسی جو نوائے وقت نے اپنائے رکھی آج صرف نوائے وقت ہی نہیں پورا پاکستان اس پالیسی کی عملی تصویر بنا دکھائی دیتا ہے جو بات برسوں پہلے مجید نظامی کہا کرتے تھے آج سب کہہ رہے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس وقت بھی حکمران مصلحت کا شکار تھے آج بھی ہونگے۔ اگر انیس سو ستر، اسی، نوے یا مشرف کی جمہوریت میں بھی کشمیر پر مجید نظامی مرحوم کی پالیسی پر کام کر لیا جاتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ بہرحال وقت گذر چکا اب ہمیں کیا کرنا ہے اس حوالے سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی متحرک ہیں، دنیا سے رابطے کر رہے ہیں، پاکستان کا موقف پیش کرتے ہوئے سفارتی محاذ پر بھارت کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، بھارتی حکومت کے ظالمانہ اقدام سے پہلے بھی وہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے دنیا کے ساتھ رابطوں میں تھے اور اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔ اپنی وزارت میں رہتے ہوئے وہ وقت اور حالات کے مطابق اچھی کارکردگی دکھا رہے ہیں تاہم قوم ان سے اس سے ایک قدم آگے بڑھنے کی توقع کر رہی ہے۔ شاہ محمود نے مختلف سیاسی دور دیکھے ہیں یہ تاہم اس وقت وہ اپنے سیاسی کیرئیر کے اہم ترین دور سے گذر رہے ہیں یہ ان کی صلاحیتوں کا اصل امتحان ہے۔ امید ہے کہ وہ پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے کشمیریوں کی جدوجہد کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اور بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے پیش کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ وزیر خارجہ یہ ذہن میں رکھیں کہ کشمیر مذمت نہیں مرمت سے آزاد ہو گا۔
قارئین کرام یہ وقت سیاسی مفاد اور سیاسی وابستگی سے بالا تر ہو کر کام کرنے کا ہے۔ پاکستانی قوم نے ایک مرتبہ پھر متحد ہو کر کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے اور یہ جذبہ خوش آئند ہے۔ بالخصوص زندہ دلان لاہور نے مثالی اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے۔ لاہور کے غیور عوام نے یوم سیاہ کے موقع پر تاریخی اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے۔ حالانکہ اس وقت ملک بدترین سیاسی تقسیم کا شکار ہے، سیاسی قائدین ذاتی مفادات کے لیے سادہ لوح عوام کو استعمال کرتے نظر آتے ہیں لیکن مسئلہ کشمیر کے حوالے سے لاہوریوں نے تمام تر سیاسی وابستگیوں کو بھلا کر کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ازلی دشمن کو پیغام دے دیا ہے کہ قوم ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس شاندار ریلی کے بہترین انتظامات پر گورنر پنجاب چودھری محمد سرور مبارکباد کے مستحق ہیں انہوں نے حقیقی معنوں میں اپنے آپ کو عوامی نمائندہ ثابت کیا ہے۔ ایسے اجتماعات کا بندوبست کرنا اور کامیابی سے انعقاد وہی شخص کر سکتا ہے جس کی بنیاد عوام میں ہے۔ چودھری محمد سرور نے ثابت کیا ہے کہ وہ اہم قومی معاملات پر عوام کو متحد کر سکتے ہیں۔ وہ لوگوں کو قائل کر سکتے ہیں۔ اس مشکل وقت میں عوام کا اتحاد یوم سیاہ کو روشن صبح میں بدل سکتا ہے۔ اس سیاہی سے ہی روشنی جنم لے سکتی ہے، اس تاریکی سے ہی اجالا نکل سکتا ہے۔ چودھری سرور کی قیادت میں یہ دستک ہے، یہ پیغام ہے اندرون ملک فیصلہ سازوں کے لیے بھی اور کشمیریوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کے لیے بھی۔ حکومت تیار رہے، عوام اپنا فیصلہ سنا چکے ہیں کشمیر پر کوئی سمجھوتہ قابل قبول نہیں۔ کوئی لچک، کوئی نرمی، کوئی سستی عوامی جذبات کے خلاف ہو گی۔ کشمیریوں کے خون کا سودا کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔ بھارت مسلم ممالک سے تجارتی تعلقات بڑھا لے لیکن غیور پاکستانی عوام اپنی بہادر افواج کے ساتھ کھڑے ہیں اپنی شہ رگ کے لیے کسی بھی قسم انتہائی قدم سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا۔ دنیا جان لے کہ کشمیر بنے گا پاکستان!!!!!!!
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024