جمعۃ المبارک ‘ 14؍ ذی الحج 1440ھ ‘ 16 ؍ اگست 2019 ء
نئی دہلی پریس کلب میں سول سوسائٹی کو کشمیر پر بات کرنے سے روک دیا گیا
ایک طرف دنیا بھر میں بھارت کو اسکے یوم آزادی پر اسے مقبوضہ کشمیر میں مظالم اور وہاں فوجی محاصرے کی وجہ سے صلواتیں سننا پڑ رہی ہیں، دوسری طرف دنیا بھر میں لاکھوں کشمیری پاکستانی اور سکھ بھارت کے یوم آزادی یوم سیاہ کے طور پرمنا کر بھارت کے سیاہ کرتوتوں کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ خود بھارت میں کوئی اقلیت بھارتی برہمن سامراج اور انتہا پسند حکومت سے خوش نہیں۔ صرف یہی نہیں خود بھارتی سول سوسائٹی بھی کشمیر کی صورتحال پر خاموش نہیں رہ سکی۔ تمام سماجی تنظیمیں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے بھارتی حکومت کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز بھی جن سول سوسائٹی کے ممبران نے مقبوضہ کشمیر کے حالات کا چشم دیدہ جائزہ لیا انہوں نے بھارتی مظالم کی قلعی کھول دی ہے۔ سول سوسائٹی کے مختلف افراد نے بھارت کے اس بہیمانہ اقدامات کیخلاف نئی دہلی پریس کلب میں کانفرنس منعقد کی تو انہیں وہاں کی متعصب انتظامیہ نے کشمیر پر بات کرنے سے روک دیا جس پر انہوں نے شدید احتجاج بھی کیا ہے۔ یہ ہے بھارت کا وہ مکروہ چہرہ جس پر جمہوریت اور سیکولر ازم کا خوشنما نقاب چڑھا ہوا ہے مگر بھارتی حکومت کس کس کا منہ بند کرے گی کس کس کو بات کرنے سے روکے گی۔ شاید وہ بھول رہی ہے۔ …؎
جو چپ رہے گی زبان خنجر
لہو پکارے گا آستیں کا…
یہ یوم سیاہ حقیقت میں ا یک ایسا آئینہ ہے جس میں بھارت کو اس کی اصل شکل نظر آ رہی ہو گی مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہا اس لیے بڑوں نے سچ کہا ہے ، لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ، اب بھارت کو اس کی زبان میں ہی کچھ سمجھانا ہو گا۔
٭٭٭٭
دنیا بھر کے الیکٹرک پول میں کرنٹ نہیں آتا۔ یہاں کیوں آتا ہے۔ مراد علی شاہ
اس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ صرف سیاستدان ہی نہیں ایک سائنسدان بھی ہیں۔ ویسے ہر ذہین انسان سائنسدان ہی ہوتا ہے۔ کیوں کہ اگر وہ سوچنے کی صلاحیت نہ رکھے تو سائنس کے فارمولے کیسے بنا سکتا ہے۔ اب وزیر اعلیٰ سندھ نے جہاں کراچی میں حالیہ برسات کے دوران کرنٹ سے ہلاک ہونے والے درجنوں افراد کی موت کا ذمہ دار کے الیکٹرک کو ٹھہرایا ہے ، وہاں ایک وزیر نے بھی یہ کیا خوب بیان دیا ہے کہ کراچی میں ساری اموات بارش کے بعد سیلاب کی وجہ سے نہیں ہوئیں ، زیادہ تر کرنٹ لگنے سے مرے ہیں، اس میں سیلاب کا کوئی قصور نہیں، یعنی کراچی سیلاب میں ڈوبا وہ کوئی مسئلہ نہیں۔ چھتیں گریں لوگ ڈوبے کوئی بات نہیں۔ سارا مسئلہ بجلی کا ہے جس کے کرنٹ سے اتنے لوگ ہلاک ہوئے۔ اب وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی اسی بیانیے کو چھیڑ دیا ہے اور سوال یہ اٹھایا ہے کہ پوری دنیا میں کھمبوں میں کرنٹ نہیں آتا ہمارے ہاں کیوں آتا ہے۔ اب اس سائنسی سوال کا جواب یا تو کے الیکٹرک والے دیں یا پھر وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری ہی دے سکتے ہیں ، کیونکہ اتنا اہم سائنسی مسئلہ وہی چٹکی بجاتے حل کر سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ شاید ہی کسی کے پاس اتنی صلاحیت ہو۔ سو اس کا جواب وہ ہی دے سکتے ہیں۔ رہی بات کے الیکٹرک کی تو جو محکمہ سفارشی بھرتیوں سے بھرا پڑا ہو ، اس کے پاس اس مسئلے کے حل کا کوئی راستہ نہیں۔ اگر ہوتا تو بارش کے دوران اتنی ہلاکتیں نہ ہوتیں۔ مراد علی شاہ نے سوال تو اچھا کیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس کا سدباب چاہتے ہیں۔ مگر ٹھیکوں پر کمشن کے ساتھ کام کرنے والا مافیاجو ان اموات کا حقیقی ذمہ دار ہے۔ جن کے ناقص کام اور میٹریل کی وجہ سے ہمارے کھمبوں میں بارش اور سیلاب کے ساتھ ہی کرنٹ آنے لگتا ہے۔ ورنہ دنیا بھر میں ایسا کیوں نہیں ہوتا…
٭٭٭٭٭
سردار عتیق کا سیزفائر لائن توڑنے کا اعلان۔
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
کہاں کھو گئے ہم کہاں جاتے جاتے
ایسا ہی ایک اعلان ایک بار مسلم کانفرنس کے قائد چودھری غلام عباس نے بھی کیا تھا۔ خود ان کی جماعت کے عہدیدار اور کارکن اس ساری کہانی کے بارے میں جانتے ہیں کہ کیا ہوا تھا۔ اس وقت سردار عتیق کم عمر ہوں گے اس لیے یہ کہانی پرانی ہے تو زبان کا ذائقہ بدلنے کے لیے 1992ء میں لبریشن فرنٹ کے کنٹرول لائن توڑنے کے اعلان اور ہزاروں افراد کے لانگ مارچ کی کہانی بھی آپ کو بخوبی یاد ہو گی۔ اس وقت آپ بھی سیاست کے میدان میں ہوا کے دوش پر سوار تھے۔ آزاد کشمیر پر آپ کے والد کی حکومت تھی۔ سردار قیوم نے اس لانگ مارچ کے ساتھ کیا سلوک کیا، وہ سب کے سامنے ہے۔ اس وقت لوہا گرم تھا، پوری ریاست کشمیر کے چپے چپے پر مسلح مجاہدین چھائے ہوئے تھے مگر افسوس کنٹرول لائن تک جانے کی اجازت کسی کو نہ ملی۔ چند جوان کمان پل پہنچے تو بھارت نے انہیں فائرنگ کر کے شہید کر دیا۔ وہ اپنی قبروں میں پڑے آج بھی دوستی بس پرسفر کرتے دیکھتے ہونگے تو انکی آنکھیں چھلک پڑی ہوں گی۔اب آپ کی یہی خواہش ہے تو بسم اللہ کریں۔
آج عملاً کشمیر کے چپے چپے میں بھارتی مسلح فوج تعینات ہے۔ اعلانات کی نہیں آج عمل کی ضرورت ہے مگر سب جانتے ہیں کہ مسلم کانفرنس بھی دودھ پینے والے مجنوئوں سے بھری پڑی ہے۔ ورنہ کب سے یہ جماعت مجاہدین کے سنگ کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑ رہی ہوتی۔ یہ جماعت تو صرف آزاد کشمیر پر حکومت کو اپنا حق سمجھتی رہی ہے۔ مگر اب بھی کچھ نہیں ہوا، آگے بڑھیں اعلان کے مطابق کئی مقامات سے سیز فائر لائن توڑیں سارا آزاد کشمیر آپ کے ساتھ ہے۔ آپ خود دیکھ لیں گے آپکے ساتھ لشکر جرار ہے یا کاغذ کے سپاہی ہیں۔